خبرنامہ

فوج کا ردعمل

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فوج کا ردعمل

میں نے اس قرآنی تعلیم کے پیش نظر خاموش رہنے کوتر جیح دی کہ جب جاہل کسی سے مخاطب ہوں تو انہیں کہو کہ بھائی صاحب سلام، لیکن لگتا ہے کہ منور حسن کے بیان سے فوج میں شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔ اور وہ بولنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
لیاقت بلوچ نے فوج پر ایک اور وار کیا ہے، اسے سیاست اور جمہوریت میں مداخلت کا مرتکب قرار دے دیا ہے۔ اس الزام پرکون اعتبار کرے گا کیونکہ یہ ایک ایسی فوج کے بارے میں ہے جس نے پچھلے کئی برسوں میں سیاست کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
فوج نے پریس ریلیز کیوں جاری کی، اس کا پس منظرسمجھنے کی ضرورت ہے۔ منور حسن کا بیان ایک لحاظ سے فوج کے اندر بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف تھا۔ یہ بات سبھی سیاسی رہنما کہہ رہے ہیں۔
منور حسن عام آدی نہیں، وہ جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی جنگ کا ساتھ دینے والے پاک فوج کے شہیدوں کو وہ شہید نہیں مانتے اور جب امیرالعظیم کہتے ہیں کہ ڈرون سے مرنے ولا ہرشخص شہید ہے تو اس سے جہاں عام معاشرے میں ابہام اور انتشار پھیلا ہے، وہاں فوج کے اندربھی اس نرالی منطق کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یا یقینی طور پر ہوئے ہوں گے جن سے میں اور آپ لاعلم ہیں۔
منور حسن کے بیان کے بعد کوئی بھی فوجی، اپنے افسر بالا کے علم کی سرتابی کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک ایسی جنگ لڑنے کے لیئے تیار نہیں جو اول، امریکہ کی خاطر ہے اور دوم، اس میں شہادت کا مرتبہ نہیں ملے گا۔ فوج صرف اور صرف آرڈر اور ڈسپلن پر چلتی ہے۔ تحریک نظام مصطفی کے دوران لاہور کی فوج نے احتجاجی مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا، اس وقت آرمی چیف جنرل ضیاالحق تھے، انہوں نے انکار کرنے والی پوری رجمنٹ کو لاہور چھاؤنی کے ایک پارک میں قید کر دیا تھا اور اس کے کمانڈروں کا کورٹ مارشل ہوگیا تھا۔ فوج میں حکم کی سرتابی پر کورٹ مارشل ہوتا ہے۔ اور ایسا پوری دنیامیں ہوتا ہے۔ فوج نے منور حسن کے بیان پرفوری ردعمل نہیں دیا، اس نے انتظار کیا کہ ملک میں جمہوریت ہے، سیاست ہے، اس نظام میں اس کا کوئی والی وارث اور خصم سائیں ہوگا اور وہ منورحسن کے بیان کا نوٹس لے گا، جمہوری عمل اور سیاسی عمل اڑتالیس گھنٹے گونگا بنارہا، صدرمملکت، وزیراعظم اور وزیر دفاع کی طرف سے منور حسن کے بیان کی نہ مذمت کی گئی، نہ تائید کی گئی، خاموشی کو اگر نیم رضا قصور کیا جائے تو پھر پاک فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر کو بولنا پڑا۔ فوج نے پریس ریلیز جاری کر کے سیاست اور جمہوریت میں مداخلت نہیں کی، سیاست اور جمہوریت کی حفاظت کے لیئے قدم اٹھایا۔ سندھ اسمبلی نے منورحسن کی مذمت کی ہے۔ پارلیمنٹ میں تحریک التوا آ گئی ہے۔ منورحسن سے فوجی نے نہیں، ہرشخص نے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ منور حسن کے لیئے معافی مانگنا مشکل ہے تو وہ اپنا بیان واپس لے لیں مگر وہ ایسا بھی نہیں کریں گے اور خدشہ ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی سے اچھوت بن کر رہ جائیں گے۔
منور حسن کے بیان پرمنطقی انداز میں بھی بات کی جاسکتی ہے۔ پہلی افغان جنگ میں ان کی جماعت اور دیگر ماہرین تنظیموں نے امریکی اسٹنگر وں کی مدد سے سوویت فوج کو نشانہ بنایا تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امریکی اسٹنگروں سے مرنے والے روسی فوجی شہید تھے، حاشا وکلا، میں بحث برائے بحث میں بھی یہ تصور ذہن میں نہیں لاسکتا۔ منور حسن اور امیر عظیم البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی ڈرون میں مرنے والوں کی طرح امریکی اسٹنگر وں سے مرنے والے بھی شہید تھے کم از کم ان کی منطق سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔
دہشت گردی کی جنگ میں کسی کو اس بارے میں ابہام نہیں کہ پاکستان میں پچاس ہزار بے گناہ افرادکو شہید کیا گیا۔ یہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں فضل الرحمن اور منور حسن شہید قرار دینے پر مصر ہیں۔
موجودہ بحث کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی تھی اور وہ وزیر داخلہ نے رکھی، انہوں نے حکیم اللہ کی موت کا ماتم کیا۔کاش! ایسے ماتم کا مظاہرہ وہ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر بھی کرتے، کاش!
وہ اتنی لمبی تقریر پشاور کے چرچ میں بے گناہوں کی موت پر بھی کرتے، کاش! وہ قصہ خوانی بازار میں نشانہ بننے والوں کے ماتم میں کوئی ایک لفظ ہی بولتے،کاش! وہ پشاور بس کی دہشت گردی میں پھول جیسے معصوم بچوں کے پرخچے اڑانے پربھی ماتم کرتے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں ان شہادتوں نے بھی مذاکرات کے عمل کوقتل کیا، یہ توخود وزیر داخلہ نے مانا ہے لیکن حکیم اللہ کی موت پر وزیر داخلہ کا جذباتی خطاب اور پھر قومی اسمبلی میں عمران خان کی شعلہ فشانی نے کج بحثی کو ہوا دی۔ یہ کج بحثی ہے کہ ڈرون سے مرنے والے شہید ہیں، امیرالعظیم نے یہی کہا ہے، فضل الرحمن نے تو کہا ہے کہ ڈرون سے کتا بھی مر جائے تو وہ شہید ہو گا۔لوگ ابھی سوات میں ان لاشوں کونہیں بھولے جن کے جسمانی اعضا سے ہی ثابت ہوتا تھا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو ڈرون میں مار دیا جائے تو وہ شہید ہوں گے، ابھی لطیف اللہ محسودکی گرفتاری سے بھی یہ راز کھل گیا ہے کہ را کے ایجنٹ دہشت گردوں کی معاونت کے لیئے فاٹا میں موجود ہیں، اب اگر ان بھارتی ایجنٹوں کو ڈرون کا نشانہ بنایا جائے تو کج بحثی کی رو سے وہ سب شہید اور جنتی۔ واہ! کیا منطق ہے، جنت کے نئے دارو غے اپنی منطق پرغور فرمائیں مگر ان داروغوں کی مت ماری گئی ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی تعریف کوئی لیاقت بلوچ سے سیکھے۔ ان کی سیاست اور جمہوریت اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب ملک میں یحیٰ خان اور جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت مسلط ہو۔ اور جنرل مشرف بھی، ایم ایم اے کی شکل میں ان کے نخرے برداشت کریں۔ ان کی سیاست اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب وہ مشرقی پاکستان میں اکیلی الیکشن کے میدان میں اترتی ہے اور وہ سو فی صدسیٹیں جیت لیتی ہے۔ جماعت اس وقت سیاست اور جمہوریت کا سبق بھول جاتی ہے جب اسے فوج سے کسی جہادکا ٹھیکہ مل جائے۔ انہیں جس فوج کو وہ مطعون کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ کشمیر کے جہاد میں جماعت کے جن راہنماؤں کے نوجوان شہید ہوئے، ان کی روحوں کو کیوں اذیت دی جارہی ہے۔ وہ سب شہید تھے، خدان کی روحوں پر رحمت نازل فرمائے۔ لیاقت بلوچ کو سیاست کا ایک سبق نوجوان بلاول بھٹوزرداری نے سکھانے کی کوشش کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو بنگلہ دیش میں ہورہا ہے۔ لگتا ہے جماعت کی تخلیق میں کوئی بنیادی خرابی ہے، مصر میں اخوان نسل میں بھی جماعت اسلامی کی ایک شکل ہے، پہلے اس کے راہنماؤں کو پھانسی لگی، اب ان کا ایک منتخب وزیراعظم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ یہ ہے جماعت کی سیاست کا حاصل۔
(12 نومبر 2013ء)