خبرنامہ

فوج کا نظریاتی مورچہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فوج کا نظریاتی مورچہ

ایک خبر کے مطابق پاک فوج نے نظریاتی محاذ پر کام کے لیئے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ جس انداز میں یہ خبر شائع کی گئی، اس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ ہوشیار، فوج کو اس کام سے روکا جائے، جیسے وہ کوئی غیر آئینی کام کا بیڑا اٹھارہی ہو۔ میراسوچا سمجھا نظر یہ ہے کہ پاکستان کو اگلی دفاعی جنگ زمین، فضائیہ سمندر میں نہیں لڑنی بلکہ اسے نظریاتی محاذ پڑتا اور جیتنا ہوگا،سونیا گاندھی نے برسوں پہلے کہا تھا کہ اب میں پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ہم اسے ثقافتی محاذ پر زیر کر چکے ہیں اور یہ بھارت کے قدموں میں ڈھیر ہوجائے گا۔
سونیا گاندھی نے کوئی زیادہ غلط نہیں کہا تھا۔ آج پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے قائدین بھارت سے دوستی کے نعرے گلے پھاڑ کر لگار ہے ہیں، سقوط ڈھاکہ کے دلدوز سانحے کے روز ہمارے اخبارات کے صفحہ اول پر میاں شہباز شریف کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں وہ بھارتی پنجاب کے جاتی عمرہ کے لوگوں کے منہ سے منہ جوڑ کر باتیں کررہے ہیں، شریف برادران بہت پہلے اپنا بھارتی جاتی عمرہ، رائے ونڈ میں آباد کر چکے ہیں، ہمارے وزیراعظم کی خواہش تھی کہ ان کی تقریب حلف برداری میں بھارتی وزیر اعظم مہمان خصوصی کے طور پر شرکت فرمائیں، گویا پاکستان ایک آزاد ملک نہ ہوا، بھارت کا سٹیلائٹ اور پٹھو ملک ہوا کہ اکھنڈ بھارت کے علم بردار شہنشاہ عالی جاہ کو بلانا ضروری ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم کی یہ مراد بر نہ آئی تو پھر انہوں نے کہا کہ میں بھارت کے دورے پر جاؤں گا، چاہے مجھے کوئی دعوت نہ بھی ملے۔ اگلا ان کا بھاشن تھا کہ برصغیر کو یورپی یونین کی طرح ویز افری ہونا چاہئے، یہی بات ان کے گورنر محمد سرور نے بھی اگل دی اور پھر وزیر اعظم نے فرمایا کہ واہگہ بارڈر کو چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہیے تا کہ ٹرکوں کی آمد و رفت جاری رہے۔ چھوٹے میاں جی نے بھی یہ فقرہ کہیں سے رٹ لیا تھا، سو وہ بھی اس خواہش کے اظہار میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس قدر نرم نرم ریشمی بیانات کے بعد ان بھائیوں کا خیال یہ تھا کہ زمین نم ہوگئی تو خود شہباز شریف جو صرف ایک صوبے کے وزیراعلی ہیں، وزیرخارجہ کا کردار نبھانے کے لیے نئی دہلی جا پہنچے اور موہن سے مومنی مومنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ اپنے پروٹوکول کی رو سے بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کے دورے کی دعوت نہیں دے سکتے تھے مگر انہوں نے یہ خودساختہ فرض بھی نبھایا اور پھر وہ بھارتی پنجاب میں گھومنے پھرنے لگے جہاں سے انہیں کبڈی میچ میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ یہاں ان کی کبڈی ٹیم تو پس رہی لیکن میاں صاحب کی زبان نے بہت جلوے دکھائے۔ کہنے لگے کہ ایک ایسا درخت لگایا جائے جس کی گھنی چھاؤں میں پاک بھارت عوام راحت محسوس کریں۔ یہ بھی فرمایا کہ بھارتی ٹیم جیت جائے تب بھی پاکستان کو خوشی ہوگی، پتا نہیں انہوں نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ بھارتی ٹیم کی جیت پر پاکستانیوں کو خوشی ہو گی، اس وقت روئے زمین پر بنگلہ دیش سے زیادہ پاکستان سے نفرت کرنے والا ملک کوئی اور نہیں لیکن ماضی میں جب بھی پاک بھارت کرکٹ میچ ہوئے اور ان میں پاکستان نے بھارت کو شکست فاش سے دوچار کیا تو بنگلہ دیشیوں نے خوشی سے رقص کیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ پاکستان میں خوشی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ کراچی میں جاری دہشت گردی رک جاتی ہے اور ایک دوسرے کا خون پینے والے، ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اور یوں بھارت سے نفرت کے جذ ہے، باہمی انتقام کی ہوس کو بھی وقتی طور پرد با دیتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے انہیں کن پاکستانیوں کی بات کی تھی۔ یہ ان کا وہم تھا کہ امن کی آشا کے پولیو کے قطرے پلا پلا کر پاکستانی قوم کی رگ حمیت کو بانجھ بنایا جا چکا ہے۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں!
اس سال سولہ دسمبر سے پہلے بنگلہ دیش نے پاک فوج کا ساتھ دینے والے ملا عبدالقادر کو پھانسی کیا دی کہ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مباحث کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا، ٹیپ کا مصرع یہ تھا کہ مکتی باہنی کے خلاف پاک فوج کا آپریشن جرم قرار دینے والے کس منہ سے پاک فوج کوشمالی وزیرستان میں جھونکنے کی بات کرتے ہیں۔ اور یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اگر امریکہ اور اہل مغرب کی افواج اپنی سلامتی کے تصور کے مطابق دنیا پر چڑھائی کرنے کا حق رکھتی ہیں تو پاکستان اور اس کی مسلح افواج اور اس کے محب وطن طبقے، مادر وطن کے دفاع کے لیئے سرگرم عمل کیوں نہیں ہو سکتے مگر منطق اور ہوتی ہے اور دھونس کچھ اور اس وقت دھونس جمائی جارہی ہے۔ پاک فوج کو انہی جرائم کے لیئے مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے جو بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر اس سے سرزد ہوئے، مقصد صرف یہ ہے کہ فوج اور محب وطن عوام کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔ پینسٹھ والا ماحول واپس نہ آ سکے، اکہتروالے شکوک وشبہات کا راج ہو اور پاکستان کو ایک بار پھر تر نوالے کی طرح سرنڈر پر مجبور کر دیا جائے۔
اسی تناظر میں فوج کے شہیدوں کومتنازع بنایا گیا ہے لا پتا افراد کے مسئلے کا اچھالا جارہا ہے۔ ان لوگوں کو سیاچین پر بھارت کے جارحانہ قبضے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ کارگل میں پاک فوج کی پیش قدمی پر ضرور تنقید کرتے ہیں، اگر کارگل میں پاک فوج کو کامیابی نہیں ملی تو سیا چین میں بھارتی فوج نے کونسا تیر مار لیا ہے۔ وہ تو انیس سو چوراسی سے جس مقام پر بیٹھی ہے، ان میں سال بعد بھی اس سے ایک انچ آگے نہیں سرک کی۔ سیاچین میں جارحیت کا مرتکب بھارت ہوا ہے اور ہمارے میاں صاحب نے اچھل کر یہ تجویز دے دی تھی کہ پاکستان کو یکطرفہ طور پر سیا چین سے فوج واپس بلالینی چاہئے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اور پکے اور سچے مسلم لیگی وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کنٹرول لائن پر یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر کے تحریک حریت کشمیر کی پیٹھ میں چھراگھونپا تھا۔
ہمارے ہاں ابہام اور کنفیوژن کا ایک جنگل ہے۔ ایسے مایوس کن ماحول میں فوج نے اگر نظریاتی محاذ کو گرم کرنے کی ٹھانی ہے تو یہ اس کا آئینی فرض ہے، لوگ فوج کے حلف کی بات کرتے ہیں اور اصل حلف یہی ہے کہ ملک کا دفاع کیا جائے، آج یہ دفاع ایٹم بم سے نہیں، دلیل اور منطق کی طاقت سے ہوسکتا ہے، اورفوج کو ان ہتھیاروں سے جلد لیس ہو جانا چاہیے۔ ایک پورا نظریاتی ڈویڑن کھڑا کرنا وقت کی اولیں ضرورت ہے۔ ورنہ ٹاک شوز کے بھیڑیئے اور بھاڑے کے ٹٹو وطن عزیز کو خدانخواستہ چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔
ڈاکٹر مجید نظامی کو اب تحریک پاکستان کے گولڈ میڈل سے بھی نوازا جا چکا، ان کی مسلم لیگیت پرتو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، وہ پاکستان کے لیئے مر مٹنے والے نظریاتی لشکر کے سپاہ سالار ہیں۔(19 دسمبر 2013ء)