خبرنامہ

فوج کے شانہ بشانہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فوج کے شانہ بشانہ…اسد اللہ غالب

فوج اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے قربانی دینے کے لیئے تیار ہے قوم کو اس کا ساتھ دینا چاہیے تا ک فوج کا مورال بلندر ہے۔ ایک صاحب نے لکھا تھا کہ کیا فوج کا مورال کانچ کا بنا ہوا ہے جو ذرا ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر ان صاحب کے بارے میں لکھا جائے کہ انہوں نے بنگلہ دیش سے ایوارڈ وصول کیا ہے تو یقین ہے، ان کا شیشہ دل چور چور ہو جاتا ہے۔
اکہتر میں پاکستان کو شکست کیوں ہوئی اور نوے ہزار سپاہ اور دیگر پاکستانی بھارت کے کیمپوں میں کیوں بند ہوئے، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت صرف فوج کے ساتھ نہیں تھی بلکہ بھارت سے دہشت گردی کی ٹریننگ لے کر اس کے خلاف لڑ رہی تھی۔
آج بھی قوم بحیثیت مجموعی فوج کی پشت پر کھڑی ہونے کے لیئے تیار ہیں۔ ن لیگ کی سوچ فوج کے بارے میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ایک جنرل مشرف نے ہاتھ کیا، کہ ن لیگ پوری فوج کو اپنے خلاف سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ بھی کوئی مختلف نہیں، اس کا لیڈر تو ضیاالحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ایک فوجی حکمران کے دور میں شہید ہوئیں۔ زرداری نے قاتل لیگ کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا۔ یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم وارننگ دی کہ ریاست کے اندر یاست نہیں چلنے دیں گے۔ زرداری نے ایک بارنہیں، کئی بار کہا کہ وہ ایوان صدر سے فرارنہیں ہوں گے بلکہ ایمبولینس میں جانے کوترجیح دیں گے۔ کیری لوگر بل پر زرداری اور فوج کے درمیان محاذ آرائی چلی، میمو گیٹ پر تو فضااس قد رمکدر ہوئی کہ زرداری صاحب کو علاج کے بہانے دوبئی جانا پڑگیا۔محتر م کی برسی پر زرداری نے خبردار کیا کہ اکہتر میں تو چند ہزار قیدی تھے جو انڈیا نے سنبھال لیے۔ آئندہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو ہجرت کرنا پڑی تو پوری دنیامیں انہیں پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ ن لیگ کے صدر نواز شریف نے بھی اچانک ایک چینل کو گھر بلایا اور یہ فقرہ ریکارڈ کروایا کہ وہ جمہوریت کے خلاف سازش کو ناکام بنانے کے لئے راستہ روکیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دیا تو میاں نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس بلا لیا جس میں اعلان کیا کہ وہ غیر جمہوری تبدیلی کا راستہ روکیں گے۔ بلوچستان کے ایک رکن قومی اسمبلی اچکزئی نے تو یہاں تک کہا کہ وہ جنرل کیانی سے بات کریں گے کہ بہت ہوگئی، اب بس کریں۔ وار آن ٹیرر پرن لیگ نے مشرف پر ہمیشہ تنقید کی کہ اس نے پاکستان کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ انتخابی مہم میں ن لیگ نے اعلان کیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گی۔ اس سے پہلے پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف کہہ چکے تھے کہ طالبان پنجاب کو معاف رکھیں۔ ان کے وزیر رانا ثنا اللہ نے بار بار تردید کی کہ جنوبی طالبان نامی کوئی گروپ صوبے میں موجود نہیں۔ حکومت ملنے کے بعد ن لیگ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا، بلکہ آل پارٹیز کانفرنس سے مینڈیٹ لیا کہ دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات سے ختم کیا جائے مگر اس سمت میں بھی کوئی کارروائی نہ کی گئی، جب دہشت گردی نے زور پکڑ لیا اور ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے تاثر دیا کہ اب فوجی آپریشن ہوگا تو اگلے روز وزیراعظم نے مذاکرات کا پھر اعلان کر دیا، ایک کمیٹی بھی تشکیل دے ڈالی، یہ کمیٹی ٹی وی چینلز پر پبلسٹی لینے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ اور دہشت گردوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پتا نہیں کس لمحے وزیراعظم نے فوج کو جوابی کارروائی کی اجازت دے دی مگر اس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا۔ اور شکی مزاج لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر فوجی اقدامات سے معاملہ بگڑ گیا تو حکومت ایک بار پھر کارگل والا کھیل کھیلے گی۔ اور فوری اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کر دے گی، ایسے شبہات کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم کو ٹی وی پراکر با قاعدہ فوجی آپریشن کا اعلان کرنا چاہئے تا کہ وہ اس سے پیچھے نہ ہٹ سکیں۔ نوجوانوں کو بکریوں اور بھینسوں کے لیئے قرضے دینے اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے لیے تو وہ قوم سے خطاب کرتے ہیں اور شہر شہر در بار سجاتے ہیں تو دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیئے اپنے فیصلے کا کھل کر اظہار کرنے میں کیا امر مانع ہے۔
فوج سے بدکنے والوں میں ن لیگ اور پی پی پی کے علاوہ بھی کئی قوتیں ہیں۔ مولانا سمیع الحق طالبان کو اپنے بچے کہتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی فوجی آپریشن ملک کو راکھ کر دے گا۔ مولانافضل الرحمن، حکیم اللہ محسود کے حق میں یہاں تک چلے گئے کہ یہ کہہ اٹھے کہ امریکی ڈرون سے مرنے والا کتا بھی شہید ہے۔ جماعت اسلامی کے منور حسن کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے فوجی، امریکی حمایت میں لڑتے ہوئے جان سے جاتے ہیں تو انہیں شہید نہیں سمجھا جاسکتا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا تو ایک عرصے سے نظر یہ ہے کہ قبائلی ایک غیرت مند قوم ہے۔ انہوں نے ڈرون حملوں کے خاتمے اور نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیئے دھرنے دیئے اور عوامی مارچ کیئے مگر ان کے زیر حکومت صوبے میں مسلسل خون بہتارہاتو اب وہ اپنے سخت گیر موقف سے یہاں تک پسپا ہوئے ہیں کہ جو دہشت گردفوج کے گلے کاٹتے ہیں صرف ان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ فوج کو بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے بھی خطرہ لاحق رہتا ہے جو بھارت کی کھلی پشت پناہی سے دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ مولانا نورانی کی جماعت کے دو حصے ہوئے ہیں تو ایک حصے نے فوجی آپریشن کی مخالفت کردی ہے۔ ساجد میر کی جماعت بھی آپریشن کے حق میں نہیں۔ میڈیا کابڑا حصہ بھی فوج کے خلاف سرگرم عمل ہے، اس کی ایک وجہ تو دہشت گردوں کا خوف ہے، دوسرے ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کی بے تحاشا امداد ہے جو فوج کا امیج بگاڑنے کے لیئے دی جارہی ہے۔
اگر کسی نے شرح صدر سے فوجی آپریشن کی حمایت کی ہے تو وہ ڈاکٹر مجید نظامی کی تنہاذات ہے جنہوں نے اپنے موقف کا اظہار نوائے وقت کے اداریوں میں کھل کر کیا۔ الطاف حسین اور ان کی ایم کیوایم نے بھی فوج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فوج تنہائی کا شکار ہے، ہرگزنہیں، پاکستان میں ایک خاموش اکثریت ایسی ہے جو بدامنی سے تنگ ہے اور دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے حق میں ہے۔ یہ طبقہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہے اور ان قوتوں کا بری طرح مضحکہ اڑا رہا ہے جو دہشت گردوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ان کے توانا جذبوں نے طالبان کے حامیوں کو تنہائی کا شکار بنادیا ہے۔
چند روز پہلے فوج نے اپنی استعداد کے بارے میں پھیلائے گئے شبہات کو یہ کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ وہ چھیاسی فیصد قبائلی علاقے پر کنٹرول کر چکی ہے اور باقی مختصر سے علاقے میں آپریشن کے لیے تیار ہے، وہ قوم اور حکومت کی طرف سے گرین سگنل ملنے کی منتظر ہے۔ (26 فروری 2014ء)