خبرنامہ

فیصلہ نہیں ریفرنڈم …اسداللہ غالب

میاں نوازشریف

فیصلہ نہیں ریفرنڈم …اسداللہ غالب

نواز شریف جب تک لاہور پہنچ کر خطاب کریں گے، تب تک آج کے کالم کا وقت گزر جائے گا۔ بہر حال اندازہ ہو گیا ہے کہ وزیراعظم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے گوجرانوالہ کے عوام سے کہا ہے کہ آپ میرے اگلے اعلان کا انتظار کریں، میرا ساتھ دیں، میرے ہاتھوںمیں ہاتھ دیں۔ یہاں بھی وہی پرانا سوال کہ کیا آپ اپنے ووٹ کی تذلیل و تحقیر کو قبول کرتے ہیں۔ ظاہر ہے لوگوں کا جواب نفی میں تھا۔
تو اب نواز شریف اس فیصلے کو تبدیل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ تو کوئی عدالت ہی بدل سکتی ہے لیکن ایک عدالت ہے عوام کی۔ یہ بھی نا پسند فیصلوں کو بدل سکتی ہیں۔ عدالت نے تو شیخ مجیب کو غداری میں میانوالی جیل ڈال دیا لیکن شیخ مجیب کے عوام نے اپنا فیصلہ سنایا ا ور شیخ مجیب کو ایک وی آئی پی پرواز میں ڈھاکہ پہنچا دیا گیا، انہی لوگوں نے پہنچایا جنہوں نے اسے میانوالی کی جیل میں غدار ی کے جرم میں ڈالا تھا۔ آج بھی عدالتی فیصلوں کو یا کسی اور طاقت کے فیصلوں کو عوام کی طاقت سے بدلا جا سکتا ہے اور اس کے لئے ریفرنڈم کروانا پڑے گا، سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت مستقبل میں وزرائے اعظم کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کیا اقدام کرتی ہے۔ اس حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی فوجی طالع آزما بھی در اندازی نہ کر سکے۔ اور اس امر کا اہتمام بھی کرنا ہے کہ سیاستدان بھی باہمی سر پھٹول میں نہ پڑیں۔ بلیم گیم سے گریز کریں، اور میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق سیاسی جماعتیں ایجنسیوں کے اشارے پر نہ چلیں اور ایک دوسرے کو نیچا نہ دکھائیں، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کاا حترام کریں۔اس کے لئے کچھ آئینی اقدامات بھی کرنا پڑیں گے جس میں باسٹھ تریسٹھ کی کلاز پر کلہاڑی چلانا پڑے گی۔ سیاسی جماعتیں آئین سے اٹھاون ٹو بی تو نکال چکیں مگر باسٹھ تریسٹھ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ باسٹھ تریسٹھ کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے حالانکہ اسلام میں باسٹھ تریسٹھ نام کی کوئی بلا موجود نہیں۔ عبداللہ بن ابی سے بڑا اور کھلا منافق اور کوئی نہ تھا، مگر جب وہ مرا تو اس کے لواحقین نے حضورؐ سے استدعا کی کہ اپنا کرتا عطا فرما دیں، اس کفن میں اسے دفنانا ہے۔ سب جانتے تھے کہ مرنے والا ایک منافق انسان تھا۔ باسٹھ تریسٹھ تو دور کی بات ہے، وہ اسلام کی الف بے پر پورا نہیں اترتا تھا۔ ایک صحابی ؓنے کسی کافر کو اس حالت میں مار دیا کہ اس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا تھا، حضورؐ کو واقعے کا علم ہوا تو متعلقہ شخص سے پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو پھر گردن کیوں اتاری، جواب ملا کہ اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا، حضورؐ نے فرمایا کہ آپ نے اس کے دل میں کیسے جھانک لیا کہ وہ ڈر کے مارے کلمہ پڑھ رہا ہے یا نیک نیتی سے اسلام قبول کر رہا ہے۔۔
یہ ہے اسلام کا قانون باسٹھ تریسٹھ۔
تو پھر ہم کس برتے پر کسی کو اسلام کے ترازو میں تول رہے ہیں یا رول رہے ہیں۔
میری رائے میں باسٹھ تریسٹھ پر ریفرنڈم ہو جانا چاہئے، آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کو ہی ہے، عدلیہ کے فیصلوں سے بھی آئین پارلیمنٹ کے ذریعے ہی بدلا جا سکتا ہے مگر عوام ایک سپریم طاقت ہیں جو آئین کے بارے میں حتمی فیصلہ کر سکتے ہیں، آئین تو کیا، وہ ملک کے ہونے یا نہ ہونے کا بھی فیصلہ کر سکتے ہیں، عوام کے فیصلے کو عالمی برادری بھی قبول کرتی ہے، مشرقی پاکستان کے عوام نے اپنی الگ راہ لی۔ یہ بنگلہ دیش بن گیا، تب سے ا ٓج تک پاکستا ن آدھا رہ گیا، عوام کے فیصلے کے سامنے پاکستان کی کوئی عدا لت ا ور پاکستان کی ساری فوج بھی پر نہیںمار سکی، وہاں جو فوج تھی ، وہ تو جنگی قیدی بن گئی اور جو جج صاحب غداری کا مقدمہ سن رہے تھے، وہ اپنی جوتی کورٹ روم میں چھوڑ کر ننگے پائوں واپس کراچی پہنچ گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کے ذہن میں بھی ریفرنڈم کا آپشن موجود ہے۔ اگر وہ ریفرنڈم کروانا چاہیں تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں، وفاق میں حکومت ان کی ہے، صرف یہ خدشہ ہے کہ مخالفین شکست کے خوف سے ایک بار پھر عدالتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے مگر یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا کہ کیا عدالتیں ریفرنڈم کے انعقاد کے خلاف حکم امتناعی جاری کریں گی یا نہیں، بظاہر نواز شریف کو عدلیہ سے کوئی ریلیف ملنے کا امکان نہیں مگر حکومت اور عوام کی طاقت اور سیاسی پارٹیوں کے مابین اتفاق رائے سے ریفرنڈم کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس ریفرنڈم میں جو سوال پوچھا جائے گا ، اس کے الفاظ کی ترتیب پوری احتیاط سے تشکیل دینا پڑے گی، یہ نہ ہو کہ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی طرح سوال تو یہ ہو کہ کیا آپ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور نتیجہ یہ نکالا جائے کہ اگر لوگ اسلام کے حق میں ہیں تو جنرل ضیاء تاحیات ملک کے صدر رہیں گے۔ یہ تو سوال گندم جواب چنا والی بات ہو گئی۔ لیکن ایک بات واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے کہ حکومت وقت کو جو مشکلات در پیش ہیں، ان پر قابو پانے کے لئے عوام کی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے، ترکی میں عوام نے طاقت کے ذریعے فوج کی ڈکٹیٹر شپ کا راستہ روکا، پاکستان میں اس طرح کی خانہ جنگی سے بچنے کی دعا کی جانی چاہئے۔ ہم نے اکہتر میں اس تصادم کا نتیجہ بھگت لیا، قائداعظم کاپاکستان سکڑ کر رہ گیا۔ پاکستان میں جمہوریت کو درپیش خطرات نے وطن عزیز کو بھی غیر مستحکم رکھا، ہم دنیا میں تنہا ہو کر رہ گئے۔ دنیا ایک سانس میں ہماری تعریف کرتی ہے کہ دہشت گردوں کو کچلنے میں بڑی کامیابی حاصل کی اور دوسرے ہی سانس میں ڈو مور کا مطالبہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کے خلاف لعن طعن شروع ہو جاتی ہے۔
اس وقت ہر ٹاک شو میں ایک ہی نکتہ اٹھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی عوامی مہم کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو اگلے انتخابات میں فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔اس سوال کا جواب بھی یہی دیا جاتاہے کہ عوامی عدالت کے فیصلے کا کیا مطلب ہے تو کہا جاتا ہے کہ عوام کی عدالت صرف انتخابات ہی میں فیصلہ سنا سکتی ہے مگر میرے خیال میںاس وقت تک کوئی تجزیہ کار یا مبصر یہ نہیں سوچ رہا کہ عوام اپنا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے بھی سنا سکتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف اس آپشن کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں، نواز شریف کی سوچ سامنے آنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا ذہن لاہور کے جلسے میں ہی واضح کر دیں، اس کے لئے مجھے بھی انتظار ہے ۔اپنی طرف سے کوئی حتمی بات نہیں کر سکتا۔ اسے داتا صاحب کے سائے میں منعقد ہونے والے جلسے پر چھوڑنے پر مجبور ہوں۔