خبرنامہ

قائم مقام وزیر اعظم اسحاق ڈارکے غیرت مندانہ فیصلے۔۔۔اسداللہ غالب

جی ایچ کیو میں وزیر خزانہ اسحا ق ڈار کی موجودگی میں ایک ا علی سطحی اجلاس منعقد ہوا۔جس میں ملکی سیکورٹی کے بارے اہم تریں اور دور رس فیصلے کئے گئے۔ ظاہر ہے ان فیصلوں کے لئے ملک کے وزیرخزانہ کی مشاورت اور منظوری کی بظاہر ضرورت نہیں تھی، ا س مقصد کے لئے صرف وزیر دفاع کافی تھے یا پھر اندرونی سیکورٹی کو درپیش خطرات کے پیش نظر وزیر داخلہ کو یہاں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اجلاس میں نظر نہیں آئے۔مجھے ان کی عدم موجودگی پر تشویش ہے، اجلاس میں کئے گئے ایک فیصلے کی رو سے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے، یہ ایجنسیان، کشمیر سنگھ اور کلبھوشن جیسے نجانے کتنے ایجنٹوں کو پاکستان میں داخل کر چکی ہیں اور افغان مہاجرین کی شکل میں بھی دشمن ایجنسیوں کی موجودگی کو بعید از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ان معاملات کی خبر گیری وزارت داخلہ کی ذمے داری بنتی ہے۔ مستقبل میں ہوائی اڈوں ، بندر گاہوں اور واہگہ ، طورخم، انگور اڈہ جیسی امیگریشن پوسٹوں کی نگرانی بھی وزارت داخلہ ہی کو کرنی ہے، اس لحاظ سے اس وزارت کو اعتمادمیں لئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ کسی بھی بیرونی خطرے سے نمٹنے کی صورت میں قوم کو درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لئے بھی وزارت داخلہ ہی کو شعوری کوششیں کرنا ہوں گی۔ بہر حال اب تو شرکائے اجلاس کا فرض بنتا ہے کہ وہ وزارت داخلہ کو ان فرائض کی ا دائیگی کے لئے کس طرح آگاہ کرتے ہیں۔
وزیر خزانہ میرے خیال میں اپنی منصبی حیثیت سے ا س اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، نہ جی ایچ کیو نے ان کو وزیر خزانہ کے طور پر ویلکم کہا، ملک میں یہ خبریں چلتی رہی ہیں کہ وزیرا عظم کی عدم موجودگی میں اسحق ڈار قائم مقام وزیر اعظم کے فرائض ادا کریں گے، اور وہ ایسا کرتے نظر بھی آتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز بھی اپنے علیل والد کو چھوڑ کر ملک میں واپس آ چکی ہیں اور حکومتی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے چکی ہیں، یہ انتظام غیر رسمی ہی ہو سکتا ہے۔ اسے سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جی ایچ کیو جانے والے وفد کی سربراہی مریم نواز نہیں کر سکتی تھیں، نہ اس اجلاس میں کسی ا ور حیثیت سے شریک ہو سکتی تھیں،ا سلئے میں یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں کہ جناب اسحق ڈار ہی ڈی فیکٹو وزیر اعظم ہیں اور جی ایچ کیو کے جرنیلوں نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر ان کی یہ حیثیت کسی حد تک تسلیم کر لی ہے۔ میں اس آئینی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ کیا وزیر اعظم کی علالت کے دوران کوئی دوسرا وزیر ان کا قائم مقام ہو سکتا ہے، زرداری دور میں پرویز الہی کو باقاعدہ ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا جو کہ آئین میں موجود نہیں، اس لئے کوئی پرائیویٹ انتظام کر لینے میں اب ہرج کیا ہے۔اسحق ڈار کو وزیر اعظم کا اعتماد حاصل ہے۔اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وزیر اعظم کو اپنے بھائی شہباز شریف پر اعتماد نہیں ہے، مجھے یقین ہے کہ جناب شہباز شریف قومی ا سمبلی میں ہوتے تو وہی وفاقی حکومت کو وزیرا عظم کی عدم موجودگی میں چلاتے۔ویسے وہ وزیرا علی ہوتے ہوئے بیشتر وفاقی امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جن میں بجلی کے پیدا واری منصوبے اولیت کا درجہ رکھتے ہیں، سول ملٹری تعلقات کو بہتر رکھنے میں بھی وہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔خارجہ امور میں بھی ان کی دلچپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، چین اور جرمنی سے خاص طور پر انہوں نے معاملات طے کرنے میں اہم کردارا دا کیا۔مگر بات وہیں پر آ جاتی ہے کہ وہ اس وقت رسمی طور پر قائم مقام وزیر اعظم نہیں بن سکتے، اس لئے کہ وہ قومی ا سمبلی میں موجود نہیں۔غیر رسمی طور پر اگر محترمہ مریم نواز حکومتی امور کی دیکھ بھال کر رہی ہیں تو اسی طریقے سے پنجاب کے بیشتر امور کی دیکھ بھال حمزہ شہباز کے سپرد ہے۔زرداری کی حکومت میں کوئی صاحب تھے جوزرداری کے بھائی بھی کہلاتے تھے۔ اور سندھ کی باگ ڈور بھی ان کے ہاتھ میں تھی۔ کون جانتا ہے کہ اب سندھ کے ضعیف العمر وزیر اعلی کے فرائض در حقیقت کس کے ہاتھ میں ہیں،۔
بہر حال اسحق ڈار کی جو بھی حیثیت ہے،ا س پر اگر وزیرا عظم اور حکمران پارٹی اور ان کے اتحادیوں کو اعتراض نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے۔
اور میں تو اسحق ڈار کے وجود کو غنیمت سمجھتا ہوں، وہ ایک محب وطن شخص ہیں، جو شخص سعید احمد چمن جیسے جہاندیدہ اور تجربے کار شخص کو اسٹیٹ بنک کے لئے لندن سے و اپس لایا، میں تو اس کی دانش مندی کا آ نکھیں بند کر کے قائل ہوں۔ اور اب دفاع وطن کے لئے جو فیصلے کئے گئے ہیں ، خواہ وہ جی ایچ کیو کی طرف سے ملسط ہی کیوں نہ کیے گئے ہوں مگر سول حکومت ان پرحرف بحرف عمل کر رہی ہے ، اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح ایک چپ شاہ حکومت ڈرون حملوں پر بھی بول رہی ہے ا ور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں پر بھی لعن طعن کر رہی ہے۔سبھی کو نظرآ گیا ہے کہ ہم نے امریکہ کو آنکھیں دکھا دی ہیں ، فوج بھی دکھا رہی ہے ا ور ساتھ ہی سول حکومت کے بھی تیور بدلے بدلے سے ہیں ، اب وہ فدویانہ روش نظر نہیں آتی۔
اسحق ڈار پر آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ وہ قرضوں تلے قوم کو دبا ر ہے ہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قرضوں کے عوض اپنی حب الوطنی کا سودا کر سکتے ہیں، نہیں، ہر گز نہیں۔
پاکستان ایک نئے مرحلے میں ہے، پہلے یہ امریکی جنگ لڑتا رہا ،اب ا س ؂نے اپنی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی جنگ لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا، پوری دنیا امریکی جنگ کا حصہ تھی اور برضا ورغبت تھی، پاکستان نے بہ امر مجبوری یہ فیصلہ کیا۔اب ہمارا نیا فیصلہ بہ امر مجبوری نہیں،بقائمی ہوش وحواس ہے ، ہماری قومی ضرورت ہے اور میں داد دیتا ہوں کہ اسحق ڈار اس فیصلے میں شامل ہیں۔ وہ مجھے پکار کر دیکھیں ، مجھے قومی سلامتی کی نئی جنگ کی صف ا ول میں سینہ سپر پائیں گے۔انشا اللہ!!