خبرنامہ

قد کاٹھ اور وزن کا جھگڑا

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قد کاٹھ اور وزن کا جھگڑا

لڑکے لڑکی کا رشتہ طے کرنے میں سب سے زیادہ رکا وٹ لڑکی کے قد اورلڑ کے کے کاٹھ کی وجہ سے پڑتی ہے۔ لڑکی کوکم از کم پانچ فٹ دوانچ تو ہونا چاہئے اورلڑکے کے پاس صرف کاٹھ کباڑ ہوتو شادی طے نہیں ہو سکتی۔ دونوں خاندان وزن کے مسئلے میں عدم توازن کا شکار ہوں تو بھی شادی نہیں ہو پاتی۔ ٹی وی پر ایک گٹھ مٹھیا بیٹھا کہہ رہا تھا کہ طالبان کی کمیٹی سے مولانافضل الرحمن کے نکلنے سے کمیٹی کا وزن کم ہوگیا ہے اور عمران خان کے نکلنے سے اس کا قد کاٹھ گھٹ گیا ہے۔
ظاہر ہے یہ اعتراض بجا ہے اور اس کی روشنی میں دونوں کمیٹیوں کے مابین شادی پر بات چیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور ہوا بھی یہی، سرکاری کمیٹی نے طالبان کی کمیٹی سے ملنے سے انکار کر دیا جبکہ مولاناسمیع الحق واویلا کر رہے تھے کہ مجھے دو بجے کا وقت دیا گیا، میں مظفر آباد کی کشمیر ریلی کو چھوڑ کر اسلام آباد چکا ہوں اور دوسرا فریق قد کاٹھ اور وزن کا جھگڑا ڈال کر روٹھ گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں، انہوں نے بھی ترت جواب دیا کہ طالبان کی امام مسجد کا موذن کو بھی نامزد کر دیں تو سرکاری میٹ کوان سے بھی بات کرنا پڑے گی۔
قد کاٹھ اور وزن کا مرض ہمارے دوست عطالحق قاسمی کو بھی لاحق ہو گیا ہے، انہوں نے کہیں وزیراعظم کو بلایا اور ہر کالم نویس اور اینکر پرسن کو مدعو کیا مگر اس میں نوائے وقت اورنیشن کے کسی کالم نگار اور وقت ٹی وی کے کسی اینکر پرسن کو یادنہیں فرمایا۔ خبریں کے ضیاشاہد اپنی جگہ پر تڑپ رہے ہیں کہ ان کے ادارے کا بھی بلیک آوٹ کیا گیا۔ اب کیا پتا یہاں بھی مسئلہ قد کاٹھ اور وزن کا آن پڑا ہو۔ ظاہر ہے جن لوگوں کو دربار شاہی کی قربت میسر نہیں، ان کا قد کاٹھ اور وزن کیا ہوگا۔ ہمارے بڑے بھائی عبد القادرحسن نے ایک اور رکاوٹ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ میل ملاپ کا یہ سلسلہ جاری رکھیں اس لیئے کہ ہمارے صحافی پاکستان کے صحافی ہیں سوائے ان دوچار کے جو پاکستان کے علاوہ بھی کسی کے صحافی ہیں۔
میں تو حسن ظن سے کام لینے کا عادی ہوں اور سوچ بھی نہیں سکتا کہ قادرحسن نے نوائے وقت اور نیشن کے دو چار صحافیوں کی طرف اشارہ کیا ہو۔ اور ہمیں پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے صحافی سمجھ لیا ہو۔
عجیب زمانہ آ گیا ہے کہ جو لوگ ساری زندگی نوائے وقت میں لکھتے رہے اور یہیں سے اپنے قد کاٹھ اور وزن میں اضافہ کر کے دوسرے اخباروں میں جا بیٹھے، اب انہیں وزیراعظم کی محفلوں میں ہماری موجودگی گوارا نہیں۔
یہ بات وزیراعظم کے سوچنے کی ہے، کہ وہ پورے میڈیا کے وزیراعظم ہیں یا ایک مخصوص ٹولے کے وزیراعظم ہیں۔ ایک ایسا دور جب اطلاعات تک رسائی کے حق پر قانون سازی ہو چکی ہو، اس وقت چند اخبارات یا صحافیوں کو اطلاعات کے حق سے محروم رکھنا کون سی آزادی صحافت ہے۔ کیا اس رویئے کو جمہوری اقتدار کی رو سے جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیا فوجی آمر جنرل مشرف کے دور میں میڈیا بریفنگز کی لسٹیں اسی طرح بنتی تھیں، کیا زرداری صاحب کے دور میں کسی میڈیا ہاؤس سے عناد اور تعصب کا مظاہرہ کیا گیا۔ کیا جنرل کیانی کے ساتھ صحافیوں کی ملاقاتوں میں کسی کا بلیک آوٹ کیا گیا۔ اگر نہیں تو اب ہم چندصحافیوں پر حکومتی بریفنگز کے دروازے کیوں بند کر دیئے گئے۔ اور کیا حکومت کی باقی ٹرم میں یہی رویہ اپنایا جا تارہیگا۔
حکومت کے پاس ایک ہمہ وقتی وزیر اطلاعات موجود ہیں، ان کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ وزیراعظم اور میڈیا کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کریں، وفاقی سیکرٹری اطلاعات بھی اسی کام کے لیئے موجود ہیں، اب تونئے پی آئی او بھی آگئے ہیں۔ صوبے میں ایک صاحب عرصے سے میڈیا ایڈوائزری فرما رہے ہیں، اتنی بڑی سرکاری اور حکومتی ٹیم کے ہوتے ہوئے وزیراعظم کی میڈیا بریفنگز کا ٹھیکہ نجی ہاتھوں میں کیسے اور کیوں دے دیا گیا، کیا اس حکومتی ٹیم پر عدم اعتماد کے مترادف نہیں۔
حکومت آزاد میڈیا سے شاید خوف زدہ ہے، وہ اس کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے، ویسے اس حکومت نے کتنے ہی کالم کاروں کو سرکاری نوکریوں پر فائز کردیا ہے، جو ظاہر ہے کوئی قصیدے لکھنے پر مجبور ہیں اور یہ سب ایک ہی میڈیاہاؤس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ ان کونت نیا روزگار عطا کرے، نجم سیٹھی، رؤف طاہر، عطا الحق قاسمی، عرفان صدیقی و غیرہ حکومتی مناصب پربھی ہیں اور کالم نگار اور اینکر پرسن بھی ہیں تو حکومت کو ان کی لیاقت اور صلاحیت پر اعتماد ہونا چاہئے اور ان کے مقابلے میں اگر کوئی اکا دکا کالم نویس یا اینکر پرسن حکومت کا وظیفہ خوار نہیں تو اس کا بائیکاٹ کرنے کی یہ تو کوئی معقول وجہ نہیں بنتی۔
چلیے حکومت اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لے، اس نے عرفان صدیقی کے قد کاٹھ اور وزن کے پیش نظر انہیں ایک اعلی اور ارفع قومی اور عالمی مشن سونپ دیا ہے تو وہ ڈیلیور کر کے دکھائیں۔ مگر افسوں کہ بھائی صاحب کا لکھا ہوا ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ ان کا آخری کالم مولانا سمیع الحق کی شان میں لکھا گیا، ان کے قلم نے مولانافضل الرحمن کی شان میں کئی مرتبہ جولانیاں دکھائیں اور عمران خان کی تواضع تو وہ ہمیشہ فرماتے رہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ روز قیامت انسان کا ایک ایک عضو اس کیخلاف گواہی دے گا۔ یہاں تو یہ تماشہ اسی دنیا میں دیکھنے کومل رہا ہے۔ سرکاری رابط کار کا لکھا ہوا ایک ایک حرف ان کے راستے میں پتھر بن گیا ہے۔ اور جب وہ مولانا سمیع الحق کی کمیٹی سے ملنے سے گھبرا رہے تھے تو اس کی وجہ سمجھنے کے لیئے ذہن پر زیادہ زور نہیں ڈالناپڑا۔ مولانا کے بارے میں ان کا اپنا ہی کالم ان کے راستے کی دیوار بن گیا۔
اگر عرفان صدیقی نے اب تک جو لکھا، وہ کسی کو مرچیں لگانے کے لیئے لکھا اور عطا قاسمی نے مجھے جیسے لوگوں کو وزیراعظم سے دور رکھ کر مرچیں لگانے کی کوشش کی تو ان صاحبان عالی شان کی یہ کوششیں کامیاب رہیں مگر ہم تو پھر بھی ان کے لیے دعا گو ہیں، اللہ عطا قاسمی کو وزیراعظم کے اور قریب کرے، میری تو خواہش اور دعا تھی کہ وزیر اعظم انہیں پنجاب کا گورنرلگاتے، مجیب شامی کے گھر ایک برنچ میں عطا قاسمی کی بذلہ سنجی سے میں بے حد محظوظ ہوا، اس سے پہلے صبح سویرے روز نامہ خبریں میں ان کی شان نزول پر ایک کالم نے بھی بے حد شادکام کیا۔ دعا یہ بھی ہے کہ عرفان صدیقی کے قد کاٹھ اور وزن میں اور اضافہ ہو۔ لیکن یہ اضافہ انہیں باقی حقیر مخلوق سے رابطے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ سفارت، سیاست، اور رابطہ کاری کے لیئے بہر حال ایک مخصوص مزاج درکار ہے، وہ ہم لکھنے والوں کو اللہ نے عطانہیں کیا تو ہمیں قلم گھسائی میں مگن رہنا چاہئے۔ اور سیاست کاروں اور مدبروں کے کام میں دخل در معقولات سے پرہیز کرنا چاہیے ورنہ خفت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ اللہ بچائے! (6فروری 2014)