خبرنامہ

قومی سلامتی کی پہلی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قومی سلامتی کی پہلی

قومی سلامتی کے نام پر ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی، اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ حکومت پاکستان کی سرکاری ویب سائیٹ سے میں نے رجوع کیا۔ اس پر وفاقی محتسب تک شکایت پہنچانے کا طریقہ درج ہے۔ محکمہ اطلاعات کی ویب سائیٹ پر چین میں متعین سفیر کے ایک بیان کا خلاصہ ہے۔ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر جی ایچ کیو کی ایک میٹنگ کا تذکرہ ہے جس میں پولیومہم کی سکیوریٹی پر غور کیا گیا۔ پی آئی ڈی کی ویب سائیٹ پر صدر مملکت کی بارہ اپریل کی ایک تقریرکالنک دیا گیا ہے۔ اور بس سرکاری ذرائع خاموش۔
میرے نزدیک اس اجلاس میں اگر کوئی نئی بات ہوئی ہے تو وہ یہی کہ اداروں کا وقار مقدم رکھا جائے گا۔ یہ بات کرنے کے لئے اتنا بڑا جرگہ بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر تو ملک میں جمہوری منتخب حکومت ہے اور نواز،زرداری جمہوریت کی بالا دستی کے لیے متحد ہیں اور پارلیمنٹ سپریم ہے تو آرمی چیف کے اعلان تربیلا پر قانون کی رو سے وزیر دفاع ان سے تحریری وضاحت طلب کر سکتے تھے۔ اگر جواب تسلی بخش ہوتا تو یہ قصہ نبٹ جاتا اور حکومت اپنے اگلے اقدام کے لیے آزادتھی۔ جنرل جہانگیر کرامت نے ایک بیان دیا تھا۔ وزیراعظم کو یہ بیان پسند نہیں آیا تھا، انہوں نے آرمی چیف سے استعفا لے لیا۔
میں جمہوریت کا دلدادہ ہوں۔ صرف اس لئے کہ زمانے کا دستور ہی ہے۔ مجھے بی بی سی کے اس تبصرے سے سخت صدمہ پہنچا ہے کہ میٹنگ کے شرکاء کے چہرے تنے ہوئے تھے۔ اور وزیر دفاع اور فوجی افسروں کے مابین پہلے والی گرم جوشی نظرنہیں آئی۔ ٹی وی فوٹیج کو میں نے بھی غور سے دیکھا ہے اور ہر ایک نے دیکھا ہے کہ سبھی ایک دوسرے سے نظریں چرارہے ہیں بلکہ نظریں جھکائے بیٹھے ہیں۔ تو کیا دنیا کو یہی تماشہ دکھانا تھا یہ تماشہ کیوں لگا۔ صرف اس لیئے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے لندن میں ایک میثاق جمہوریت پر دستخط کیئے۔ جب اس معاہدے پرعمل در آمد کا وقت آیا تو زرداری نے کہا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ اب ایک بار پھر سنیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ درپیش ہوا تو ہم ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ماضی کے تلخ تجربے کے پیش نظر اس اعلان پرکون اعتبار کرے گا۔
خواجہ آصف نے اگر یہ کہا تھا تو درست کہا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے مگر پہلے تو اس ادارے کو جمہوری خطوط پر استوار کیا جائے۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے تو وزیر اعظم سارے فیصلے اس ایوان میں کیوں نہیں کرتے، وہ بمشکل قومی اسمبلی میں آئے مگر سینیٹ کا رخ ابھی انہوں نے نہیں کیا۔ وہاں قواعد میں ترمیم کر کے وزیراعظم سے کہا گیا ہے کہ وہ سوالوں کے جواب دینے کے لیے آیا کریں مگر اس کی تشریح یہ سامنے آئی ہے کہ وزیر اعظم اپنے نمائندے کو سینیٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ دہشت گردی پر مذاکرات کا فیصلہ پارلیمینٹ سے باہر بیٹھ کر ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اور پھر جو کمیٹیاں بنیں، ان کا حشر بھی سب نے دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن فیصلوں کے پیچھے پارلیمینٹ کی قوت نہ ہو، وہ کمزور ہوتے ہیں، تار عنکبوت کی طرح۔
نواز زرداری ملاقات کی گلوکوز سے طاقت پکڑ کر حکومت نے دواعلی سرکاری ملازمین کو گھر بھیج دیا ہے۔ ایک تو چیئرمین واپڈا سید راغب عباس ہیں، دوسرے چیئر مین پیمرا چودھری رشید احمد راغب صاحب کو میں زیادہ نہیں جانتا، واپڈا کے ایک ہی اہل کار کو جانتا ہوں، وہ جو ہر مہینے پہلے سے زیادہ بل پھینک جاتا ہے۔ چودھری رشید احمد کو جانتے ایک زمانہ بیت گیا، وہ انفارمیشن سروسں کے تجربہ کار اور منجھے ہوئے افسر ہیں۔ دو سرکاری اہل کاروں کو نکالنے کے لیئے سابق صدر زرداری اور پھر سروسز چیفس کے ساتھ تصویرمیں کھینچوانے کا ترد دکا ہے کو کیا نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی طرح ان کی بیوی یا بیٹی کو دھمکا کر یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا۔ آگے شاید نظرکسی بڑے شکار پر ہے۔
نواز شریف تیسری مرتبہ حکومت میں ہیں۔ وہ تجربے سے مالا مال ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لوگ نعرہ لگایا کرتے تھے۔ نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر وقت آیا اور نواز شریف نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی ساتھ نظر نہ آیا۔ بھٹو پھانسی لگا تو اس پر ہمالیہ نہ رویا نواز شریف اس تجربے سے سیکھیں اور اپنے بل بوتے پر جو کر سکتے ہیں، کرگزریں کسی بیساکھی کا سہارا تلاش نہ کریں۔ میری یادداشت میں ایک برا وقت وہ تھاجب کلمہ چوک کے پاس بیگم کلثوم نواز کی کار کولفٹر سے اٹھالیا گیا تھا۔ میں نے بیگم صاحب کی آپ بیتی پڑھی ہے وہ بڑے دکھ سے لکھتی ہیں کہ مصیبت کے وقت، کوئی ان کا فون سننے کو تیارنہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقتدار کے دنگل میں اپنے ہی پٹھے کام آتے ہیں۔
زرداری نے اس چار اپریل کوبھی کہہ دیا کہ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کوئی خوش فہم اس کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے سامنے زرداری نواز کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ کوئی قنوطیت کا مارا، اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔ شیر بن شیر!
نواز اور جمہوریت کو کہیں سے خطرہ نہیں، اور ہوگا بھی کیوں مگر نواز شریف قوم کویہ تو سمجھائیں کہ امن کے لیئے ایک اور موقع، ایک اور موقع، ایک اور موقع۔ کی گردان سے قوم کی گردن مارنے والے کیسے رام ہو سکیں گے۔ انہیں تو صف بندی کے لیے وقت چاہیے، پہاڑوں سے جاڑا اترے تو وہ ان کی غاروں میں مور چہ لگا لیں گے۔
اپنی سلامتی کے بارے میں ہماری بے حسی کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہمارا انگ انگ زخمی ہے اور امت مسلمہ کی سلامتی سے بے حسی کا نتیجہ یہ ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کے لیئے مٹھی بھر فلسطینی لڑنے مرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ہماری بے عملی کی وجہ سے ہمارا موجودہ قبلہ بھی خطرے میں ہے (خاکم بدہن)
یقین جانیئے قومی سلامتی کی پیالی میں تو بوجھنے سے قاصر ہوں۔ یہ تو امت مسلمہ کی اجتماعی سلامتی کے لیئے بھی مضر لگتی ہے۔ بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دے دو۔ تو کیا تحریک خلافت کا ذکر اپنی تاریخ سے کھرچ دیں۔
(19 اپریل 2014ء)