خبرنامہ

لفظ شریف طعنہ کیوں بن گیا؟

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

لفظ شریف طعنہ کیوں بن گیا؟

جنرل راحیل شریف کو نیا آرمی چیف بنایا گیا تویہ پھبتی کسی گئی کہ ان کی خوبی یہ ہے کہ نام میں لفظ شریف آتا ہے۔ کسی نے خیال نہ کیا کہ وہ نشان حیدر میجر شبیر شریف کے بھائی ہیں۔ نشان حیدر کے رتبے پر پہنچنے کے لیے نام کا شریف ہونا ضروری نہیں، ایک جرات رندانہ کا مالک ہونا چاہئے۔ جنرل راحیل کے والد کا نام میجر شریف ہے۔ اور وزیراعظم کے والدکا نام بھی میاں شریف ہے۔ شکر ہے اس نسبت سے طعن و تشنیع نہیں کی گئی۔ نئے آرمی چیف کے لیئے آئین میں قوم نے جوشرط عائد کی ہے، اس کی رو سے وزیراعظم کو تین ناموں کے پینل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔اسی آئینی شرط کے تحت وزیراعظم کے پاس تین سینئر ترین ناموں کی ایک فہرست گئی جس میں سے وزیراعظم نے ایک نام چن لیا فہرست میں یہ نام اس لیئے نہیں رکھا گیا تھا کہ اس میں لفظ شریف آتا ہے اور وزیراعظم آنکھیں بند کر کے اس پر انگلی رکھ دیں گے۔
لفظ شریف کو طعنہ بنانے والوں کا اصل مقصد نئے آرمی چیف کی حقیر اور ان کے تقرر کو متنازعہ بنانا تھا۔ یہ کام ایک تو وہ لوگ کرتے ہیں جو گھر میں اپنی ماں اور اپنے باپ کی تذلیل کا بھی کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ دوسرے اس مہم میں وہ لوگ شامل تھے جو ہمیشہ فوج کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں، ان لوگوں کا حوصلہ فضل الرحمن اور منور حسن کے ان بیانات سے بھی بڑھا جن میں کتے کوشہید مانا گیا اور پاک فوج کے شہیدوں کے رتبے سے انکار کیا گیا تھا۔
پاک فوج کس کس کی راہ میں رکاوٹ ہے، سب سے پہلے انڈیا کی، پھر امریکہ اور اس کے تمام حواریوں کی۔ یہ درمیان میں آپ کو جوعناصر پاک فوج کے خلاف سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں، وہ بھارت اور امریکہ کے مذموم عزائم ہی کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔ سب نے دیکھا کہ انہوں نے لاہور میں نیول کا لج پر حملہ کیا، اسی لاہور میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولا۔ پنڈی میں جی ایچ کیو کا گھیراؤ کیا، کامرہ پر دو مرتبہ حملہ کیا اور آخری حملے میں اس سیب طیارے کو تباہ کیا جو فضاؤں میں پاکستان کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرتاہے۔ کراچی میں نیول بیس کو نشانہ بنایا اور یہاں اصل میں حملہ اورین طیاروں پر تھا جو سمندری حدود میں پاکستان کی رکھوالی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ان نقصانات سے پاکستان کی اس دفاعی قوت کو ضعف پہنچانا مقصودتھا جو بھارتی جارحیت کے مقابل ملک وقوم کے سامنے سینہ سپر ہوتی ہے۔ یہ تو بھارت کی پراکسی جنگ ہے جو پاکستان کے خلاف کلائمکس پر ہے۔
میں نے کوئی سازشی تھیوری پیش نہیں کی، آپ کے سامنے ایک حقیقت رکھی ہے، سیب طیارہ یا اورین طیارہ شمالی وزیرستان میں جاسوسی کے لیئے استعمال نہیں ہوتا، سیب طیارہ تو پاکستان کے پورے فضائی بیڑے کی راہنمائی کرتا ہے اور، اور ین طیارم ممبئی سے جارحیت کی نیت سے آنے والے بھارتی بحری بیڑے کی بو سونگھتا ہے اور پاک بحریہ کو ممکنہ خطرے سے خبردار کرتا ہے۔ ان طیاروں کا کوئی تعلق دہشت گردی کی جنگ سے نہیں بنتا، اس لیے ان کی تباہی کا مقصد صرف اور صرف بھارتی عزائم کی تکمیل ہے۔
پاک فوج کے خلاف ایک محاذ نظریاتی سیٹ پر کھلا ہوا ہے، ایک زمانے میں جنرل شیرعلی خاں نے اس محاذ پر دفاعی حصار قائم کیا تھا، اسی لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ مادر پدر آزادعناصر جنرل شیرعلی خان کو مغلظات سے نوازتے ہیں۔ ستر کی دہائی کے شروع میں پاکستان کی نظریاتی اساس پر تابڑ توڑ حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا، اس وقت صرف اندرا گاندھی ہی نے نہیں کہا کہ نظریہ پاکستان کوخلیج بنگال میں ڈبو دیا بلکہ ہمارے لبرل عناصر نے بھی بغلیں بجائیں کہ جنرل شیرعلی خاں کا نظریہ پاکستان کا واہمہ دور ہو گیا۔
نظریہ پاکستان کے مورچے پر اب ہر طرف سے گولہ باری ہورہی ہے۔ بھارت کی طرف سے دوستی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا، الٹا بھارتی لیڈر نفرت انگیز بیانات جاری کرتے ہیں، ابھی ابھی بھارتی وزیردفاع نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول لانے میں کوئی جلد بازی نہیں کریں گے مگر ہمارے وزیر اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ واہگہ بارڈر، آر پار تجارت کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہئے، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ یقین ہے کسٹم پوسٹ بند ہونے سے ٹرکوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ یہی وزیراعظم بڑی چاہت سے بھارتی وزیراعظم کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرنا چاہتے تھے، پھر انہوں نے اس معصوم سی خواہش کا اظہار کیا کہ برصغیرکو یورپی یونین کی طرح ویزا فری ہونا چاہیے، یہی خواہشات عمران خاں کے ہونٹوں پر بھی مچلنے لگی ہیں، ابھی تو انہوں نے دلی کا ایک پھیرا لگایا ہے، دو چار پھیرے لگ گئے تو خدشہ ہے کہ وہ وہیں کے ہو کر رہ جائیں اورتحر یک انصاف کو اپنے چیئر مین کی گمشدگی کا اشتہار دینا پڑے۔ عمران خان اپنی اس تجویز پربھی اڑے ہوئے ہیں کہ پاک بھارت سرحد پر مشترکہ ایٹمی بجلی گھر لگایا جائے۔ ہمارے امپورٹڈ گورنر پنجاب محمد سرور بھی یورپی یونین والا ماحول برصغیر میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیئے وہ یورپی یونین کے پھیروں پر پھیرے لگار ہے ہیں۔ بات لفظ شریف سے چلی تھی اور پاک فوج کے خلاف نفرت کی مہم سے ہوتی ہوئی بھارتی محبت سے سرشار عناصر کی طرف چلی گئی۔ مجھے لفظ شریف سے چڑھنے والوں سے کہنا ہے کہ وہ پاکپتن شریف، بھیرہ شریف گجرات شریف، کوٹ مٹھن شریف، اوچ شریف کی تراکیب پرمعترض ہونے سے پرہیز فرمائیں۔ دل کے آبگینوں کوٹھیس پہنچانا آپ کا مشغلہ ہوسکتا ہے لیکن اس حکایت کو اس قدرطول نہ دیں کہ ردعمل میں آپ کی شرافت کا دامن چاک ہوجائے۔ اب نادرا کے چیئر مین کا مسئلہ چل نکلا ہے تو سوشل میڈیا پر ایک اشتہار دیکھنے میں آیا ہے جس میں اس منصب کے لیئے پہلی شرط نام میں لفظ شریف کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے انتخاب سے جومہم شروع کی گئی، اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگوں نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ فوج خاموش رہنے پر مجبور ہے، اس لیے ان کی طرف سے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں مگر پاک فوج کو کوئی اس قدربھی گونگانہ سمجھے۔ ان کی حرمت اور عزت پر مر مٹنے والوں کی کمی نہیں، میں اپناقلم اس کے لیئے ڈھال بنادوں گا۔
ویسے لفظ شریف میں قباحت بھی کیا ہے۔ شریف برادران نام کے ہی نہیں، کردار کے بھی شریف ہیں۔ ان کے والد تو شرافت کا مجسم نمونہ تھے۔ اور اس خاندان کی شرافت اور تجارت کے مداح ان کے کٹرحریف بھی ہیں۔ میری جنرل راحیل شریف سے ایک گزارش ہے کہ وہ جنرل شیرعلی خان کے قائم کردہ نظریہ پاکستان سیل کو دوبارہ متحرک کریں، یہ میڈیا اور پروپیگنڈے کا دور ہے، یہ مورچہ بھی مستحکم کرنا ضروری ہے۔ جہاں اتنی ڈھیر ساری کوریں ہیں، ان میں ایک نظریاتی کور کا اضافہ ضرور ہونا چاہئے۔ اگلی لڑائی اسی کورکو لڑنا ہے۔ (یکم دسمبر 2013ء)