خبرنامہ

لندن سے حوصلہ افزا خبریں۔۔۔اسداللہ غالب

ملک کے وزیر اعظم کے بارے میں باقاعدہ نیوز بلیٹن جاری ہونے چاہیءں تھے، وہ ایک ایٹمی طاقت کے چیف ایگزیکٹو ہیں ٹمبکٹو جیسی غیر اہم شہری ریاست کے کٹھ پتلی حکمران نہیں، اول توہسپتال کے ڈاکٹروں کا فرض بنتا تھا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو بریف کرتے، ورنہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا فرض بنتا تھا کہ وہ عوام کو لمحہ بہ لمحہ اعتماد میں لیتے۔
بہر حال زبانی طیور کی خبریں اڑتی ہیں، اور اب ایک تصویر نظر آئی ہے کہ وزیرا عظم لند ن کے ایک معروف شاپنگ سنٹر میں بیگم صاحبہ کے ہمراہ عید شاپنگ کرنے گئے، اس خبر پر منفی تبصرتے بہت سننے میں آئے، عمران کے منہ میں جو آتا ہے، بول دیتا ہے،ا سے اخلاق اور حیا نام کی کسی چیز سے کوئی واسطہ ہی نہیں لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزا ہے۔ خود شہباز شریف کی لندن سے واپسی کا مطلب بھی یہی تھا کہ وزیر اعظم کی صحت خطرے سے باہر ہے ا ور وہ تیزی سے رو بصحت ہو رہے ہیں۔میں پھر کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کی بیماری ایک خاندان کا نجی مسئلہ نہیں تھابلکہ قوم کی اجتماعی تشویش کا مسئلہ تھا،ا ورا س تشویش کا مداوا ساتھ ساتھ ہونا ضروری تھا۔دنیاکے مختلف حکمران، وزیر اعظم کے لیے نیک تمناؤں کاا ظہار کر رہے تھے، برطانوی شہزادہ چارلس تو بنفس نفیس وزیر اعظم کے گھر حاضر ہوئے۔ان کے بیٹے حسین نواز سے ملے ۔ یہ سب کچھ وزیر اعظم پاکستان کے لئے پروٹو کول کی حیثیت رکھتا تھا، ورنہ کوئی ہما شماپاکستانی لیڈر لندن کے ہسپتالوں میں گلتا سڑتا رہے، کسی کی بلا سے، پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر بھی تو لندن میں زیر علاج رہے ، ان کے پا س کون گیا، اپنی ذات میں ان کا بڑا نام تھا، زرداری صاحب بھی صدر ہوتے ہوئے دوبئی کے ہسپتال گئے تو وہاں کے سلطان نے خود ان کی عیادت کی۔مشرف صاحب ملک میں تھے تو سینکڑوں بیماریاں چڑیلوں کی طرح انہیں چمٹی ہوئی تھیں، اب بظاہر وہ علاج کے لئے باہر ہیں مگر کسی نے ان کے بارے میں پوچھا تک نہیں۔ وزیرا عظم پاکستان کی تو بات ہی اور ہے، ان کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن ہے، وہ ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جس نے سوویت رو س کو پارہ پارہ کرنے کے لیئے کامیاب جہاد کیا اور جس نے اب دہشت گردوی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جنر ل عاصم باجوہ کو شکائت لاحق ہے کہ دنیا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا، پتہ نہیں انہوں نے دنیا سے کیا کیا توقعات باندھ لی تھیں۔ مگر وزیر اعظم کی بیمار پرسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا نے پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا ، بھارتی وزیر اعظم سے زیادہ پاکستان کا بد خواہ کون ہو سکتا ہے، اس نے بھی بیمار پرسی کی۔پاکستان میں کچھ لوگ جنرل راحیل کو وزیر اعظم کے مقابل کھڑ اکر دیتے ہیں اور سروے کرنے والے جنرل راحیل کو مقبول تریں شخصیت بھی ڈیکلیئر کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود انہی جنرل راحیل نے ریکارڈ کے مطابق دو مرتبہ وزیر اعظم کی خیرت دریافت کرنے کے لئے فون کیا، میں اس حق میں تھا کہ خود جنرل راحیل وزیر اعظم کی خیریت دریافت کرنے جاتے،ا س سے ان کے قد کاٹھ میں اور اضافہ ہوتا۔اور وزیر اعظم کے مداحوں کی نظر میں آرمی چیف کی عزت دوبالا ہو جاتی ، وہ ایسے ہی سہمے رہتے ہیں۔
وزیر اعظم کی عیادت کے لیے کچھ دوست بھی لندن گئے مگر وہ حسین نواز کی افطاریوں کے ذائقے سے باہر نہ نکل سکے، ان کی زبانی یہ پتہ چلنا چاہئے تھا کہ و زیر اعظم ملکی مسائل پر کیا موقف رکھتے ہیں۔ ان دنوں افغانستان سے جھڑپیں ہو رہی تھیں ۔ہمارے ایک میجر صاحب شہید ہوئے،افغانستان کی زبانیں شعلے اگل رہی تھیں، امریکی فوجی اور سول قائدین کے قافلوں کے قافلے پاکستان کا رخ کر رہے تھے، وہ کیا کہنے آتے تھے اورا س پر وزیر اعظم کی سوچ کیا تھی۔ ملک کون چلا رہا تھا، خود وزیر اعظم چلا رہے تھے تو اس کا میکنزم کیا تھا اور کیایہ تسلی بخش تھا ۔ ان سوالوں کا جواب کہیں سے نہ آیا۔مجھے افسوس ہے کہ اخبار نویس دوستوں نے عیادت کے بعد مجھے تو بے حد مایوس کیا۔
مجھے ذاتی طور پر اس دوران میں لاہور اپنے گھر بیٹھے ہوئے دو خبریں ملیں، ایک یہ کہ ڈاکٹرو نں نے تسلی دی ہے کہ وزیر اعظم ڈیڑھ میل پیدل چلنے کی مشق کریں ا ورا س دوران ان کاسانس بھی نہ پھولے تو اس کے بعد انہیں ہوائی سفر کی اجازت مل جائے گی، میں نے نوائے وقت کے ذریعے یہ خبر فوری طور پر اہل وطن تک پہنچائی،ا سکے ساتھ ہی مجھے ہائیڈ پارک میں وزیر اعظم اور ان کی بیگم صاحبہ کی چہل قدمی کی تصویر دستیاب ہوئی، میں نے اس تصویر کا تجزیہ اپنے کالم میں پیش کیا اور تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی جو وائرل ہو گئی، ملکی چینلز نے یہ تصویر دکھائی ا ور قومی اخبارات نے اسے صفحہ ا ول پر نمایاں طور پر شائع کیا۔ میرے اند ر ایک اخبار نویس بہر حال چھپا ہوا ہے۔ میں وزیر اعظم کا ترجمان ہر گز نہیں، نہ بننے کی خواہش ہے مگر میری صحافت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں خبر کی تلاش میں رہوں۔
ایک ا ور خبر کے مطابق وزیر اعظم دس جولائی کے بعد وطن لوٹ آئیں گے، اس سے اچھی بات اور کیاہو گی مگر میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کسی غیر ضروری عجلت کا مظاہرہ نہ کریں، پہلے اپنی صحت کے بارے میں اطمینان کر لیں ا ور پھر ہوائی جہاز میں بیٹھیں، اگر وطن واپسی پر بھی انہوں نے اپنی رہائش گاہ ہی پر قیام کرنا ہے تو پھر یہی قیام وہ لندن میں اپنے فلیٹ پر بھی کر سکتے ہیں جہاں انہیں بہترین میڈیکل ایڈوائس بھی دستیاب ہو گی۔یہاں تو نیم حکیموں سے واسطہ پڑے گا۔
چشم ما روشن ۔دلے ماشاد۔ وزیر اعظم جم جم واپس آئیں، خیر سے اپنی حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں۔ ان کے سواگت کے لئے خوب تیاریاں کی جا رہی ہیں، اور سیاسی مخالفین بھی لنگر لنگوٹ کس چکے ہیں، پانامہ کا مسئلہ ابھی لٹکا ہوا ہے، خطے کی صورت حال دگر گوں ہے۔برطانوی ریفرنڈم کے آفٹرشاکس بھی ہم تک پہنچ رہے ہیں۔دہشت گردی کی جیتی ہوئی جنگ پھر سے خطرے کے سگنل دے رہی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے چند ماہ باقی ہیں ا ور نئے چیف کی تقرری کا معاملہ بھی ٹیڑھی کھیر ہے، ان گوناں گوں مسائل سے نبٹنے کے لئے وزیرا عظم ایک تازہ دم دل کے ساتھ میدان میں ہو ں گے۔ اوریہ رن دیکھنے والا ہو گا۔