خبرنامہ

مالیاتی دہشت گردی کے خلاف ضرب اسحق ڈار۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ… وفاقی وزیر خزانہ اسحق دار نے دو اتنے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ اب عمران خان کو ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جائے گا۔ اسحق ڈار بہر حال عمران خان کے توصیفی کلمات کے محتاج نہیں، انہیں تو اپنے فریضے کی ادائیگی سے لگاؤ ہے اور پاکستان کی جو لوٹ مار شروع ہے، وہ اس کا راستہ روکنے کے لئے عزم مصمم رکھتے ہیں۔پاکستان کوکس نے نہیں لوٹا، ہر ایک نے قومی خزانے کو شیرمادر کی طرح ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ٹیکس چوری ا ور منی لانڈرنگ کے خلاف جو شخص لٹھ اٹھائے ہوئے ہے، اسی کو عمران خان اینڈ کمپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اور مشرف کے آمرانہ فوجی دور میں سیف ہاؤسں میں ہونے والے مظالم اور جبر کے نتیجے میں انہوں نے جو بیان حلفی دے کر جان چھڑوائی، اس کی آڑ میں انہیں مجرم ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، عمران خان کی زبان تو اتنی دراز ہے کہ سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد چمن بھی ا سکی لپیٹ میں آجاتے ہیں جبکہ میں نے ہمیشہ چیلنج کیا ہے کہ ڈارا ور سعید کی بے گناہی کا حلف میں خانہ کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر اٹھانے کو تیار ہوں۔ مشرف کا دور تو فوجی جبر کا زمانہ تھا مگر عمران خان تو پنجاب یونیورسٹی گئے ا ور طلبہ کے ایک جتھے کے ہتھے چڑھ گئے، ا ن کی وہ مرمت ہوئی کہ انہوں نے ان طلبہ کو اپنی خود نوشت کتاب کے آغاز میں ہی لعن طعن کی ہے۔
اسحق ڈار ایک محب طون وزیر خزانہ ہیں ، وہ قومی دولت کی لوٹ مار کے سخت خلاف ہیں اور جو لوگ جائز یا ناجائز طریقے سے کمائی کر کے اسے بیرونی بنکوں میں جمع کر چکے ہیں ، ان کے خلاف سخت ایکشن ان کی اولیں ترجیحات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ برس او ای سی ڈی کے معاہدے میں پاکستان کو شریک کر چکے ہیں، پاکستان ا س معاہدے کا ایک سو چارواں رکن ہے، ا س معاہدے میں شریک ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیرونی ا کاؤنٹس کی تفصیلات شیئر کرنے کے پابند ہیں۔اس طرح اسحق ڈار نے مالیاتی دہشت گردوں کا تعاقب شروع کر دیا ہے۔ ہماری فوج اور سیکورٹی ایجنسیاں بے گناہوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف پہلے ضرب عضب کر چکی ہیں، اب آپریشن ردا لفساد کاآ غاز ہو گیا ہے، نیشنل ایکشن پلان کے پلیٹ فارم سے بھی دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف الگ محاذ کھلا ہوا ہے اورا سحق ڈار نے موقع پا کر مالیاتی دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ ملک کابچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان سے کما کما کر دولت کے ڈھیر بیرونی بنکوں میں جمع کئے جا رہے ہیں۔ ہم اس وقت ایک پانامہ کیس کو رو پیٹ رہے ہیں جبکہ یہاں ہر اینٹ اٹھانے سے ایک نئے اور ہوش ربا پانامہ کیس کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ہمارا ایف بی آر ریکارڈ پر ہے کہ اربوں روپیہ چوری کر کے باہر بھجوایا جا رہا ہے، مصیبت یہ ہے کہ ہم سب صرف رننگ کمنٹری کرتے ہیں اور اس چوری اور ڈاکہ زنی کی روک تھام کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے مگر اسحق ڈار نے بڑی ہی خاموشی سے ملک کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے اور اپنی وزارت کے حلف کے تقاضوں کے تحت او ای سی ڈی کے معاہدے میں شمولیت اختیار کر کے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے ۔
اب وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے براہ راست سوئس حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت پاکستان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ ٹیکس چوروں کے خلاف کاروائی کر سکے اور چوری شدہ ٹیکس وصول کر سکے،یہ معاہدہ پاکستاننے اپنی شرائط پر طے کیا ہے مگر ابھی اس میں پاکستانم کو لوٹ مار کی کمائی واپس ملنے میں کامیابی نہیں ہو سکے گی مگر چوری شدہ ٹیکس کی وصولی ممکن بنائی جا سکے گی،ا س مقصد کے لئے پاکستان کو مشکوک افراد کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمہ درج کرانا ہو گااور اگر یہ ثابت ہو گیا کہ کسی شخص نے ٹیکس چوری کر کے رقم باہر بھجوائی ہے تواس پر عائد ٹیکس کی وصولی کا حق پاکستان کو مل جائے گا۔
میں نے وزیر خزانہ سے وعدہ تو لیا تھا کہ وہ اس معاہدے کی تفصیلات سے سب سے پہلے مجھے اعتماد میں لیں گے تاکہ میں ایک ایکس کلوسو کالم لکھ سکوں مگر میں جانتا ہوں کہ کہ وفاقی وزیر ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں ،ا سلئے انہوں نے مناسب یہی سمجھا کہ وہ پارلیمان کے سامنے ان ا قدامات کی تفصیل بیان کریں جس کی شہہ سرخیاں اخبارات کے ذریعے قارئین تک پہنچ چکی ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر کوئی شخص خود ٹیکس چور ی یا منی لانڈرنگ میں ملوث ہو تو وہ کیسے کہے گا کہ آ بیل مجھے مار، اور وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اوکھلی میں سر کیوں دے گا، میں تو پہلے ہی شرح صدر کے ساتھ ان کی بے گناہی کا قائل ہوں مگر اب مذکورہ بالا دو معاہدوں کی بنا پر اسحق ڈار کے کٹر حریف بھی ان کے گن گائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
کرپشن صرف تیسری دنیا ہی کا روگ نہیں بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں میں توکمیشن خوری سکہ رائج الوقت ہے۔کوئی شخص بیرون ملک کوئی معاہدہ یا سودا کرنے جائے تو کمیشن کی رقم کا ڈھیر اس کی نذر کر دیا جاتا ہے، اب کون ہے اس قدر دیانت دار کہ وہ اتنی بڑی رقم کو ٹھوکر مار سکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی ممالک پانامہ لیکس کر کے تیسری دنیا کے ممالک کو رسوا کرنے کا ا ہتمام بھی کرتے ہیں۔ ویسے آج کی دنیا انتہائی غیر محفوظ ہوگئی ، آپ کے ہاتھ میں جو اسمارٹ فون ہے یا دیوار پر جواسمارٹ وڈیو اسکرین نصب ہے، یہ آپ کے خلاف مواد اکٹھا کرنے کے ایسے آلات ہیں جن سے اب تک ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔پاکستان میں ہم لوگ تو مکمل طور پر بے آسرا بھی ہیں کیونکہ پی ٹی ا ے جیسے ادارے بڑے دھڑلے سے سپریم کورٹ کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ اس نظام کی روک تھام کے قابل نہیں ہیں۔ عجیب بات ہے کہ پی ٹی اے جب ایسی بات کرتا ہے تو قوم ا س سے یہ کیوں نہیں پو چھتی کہ اگر آپ کے پاس صلاحیت کی کمی ہے تو آپ اپنے عہدے چھوڑ کیوں نہیں دیتے تاکہ نوجوان نسل آگے آ سکے جو جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ہے ، پی ٹی ا ے اور پی ٹی سی ا یل کے تار بابو تو اس ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہونے کا خود ہی اعتراف کر رہے ہیں اورسپریم کورٹ کو ہمیشہ ایسے ہی جواب دیں گے۔
اس پس منظر میں داد دیں وفاقی وزیر خزانہ کوجنہوں نے اپنی بے بسی کا رونا نہیں رویا اور یہ نہیں کہا کہ وہ مالیاتی دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے اپنے فرض کی پکار پر لبیک کہی اور ایسے اقدامات شروع کر دیئے ہیں جو ماضی کی لوٹ مار کاا حتساب کر سکیں گے اور آئندہ کی لوٹ مار، کرپشن، منی لانڈرنگ جیسے سنگین اور بھیانک قومی جرائم کے راستے میں دیوار بن جائیں گے۔ویل ڈن!! اسحق ڈار، خدا کرے کہ آپ کی ضرب کاری سے مالیاتی لٹیروں کا ناطقہ بند ہو جائے۔