خبرنامہ

مال روڈ جلوسوں کے لئے نہیں بنی تھی۔۔اسداللہ غالب

میرا پکا ارادہ تھا کہ جمعہ کی نماز کے بعد لوگوں کو قائل کروں کہ ہم پاک عرب سوسائٹی والوں کو اپنے حقوق کے لئے مال روڈ پر جا کر دھرنا دینا چاہئے۔اگر چند نرسیں اور نابینا لڑکے ٹریفک کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں تو ہم تو بیس پچیس ہزارا فراد ہیں، شہر کا ناطقہ بند کر دیں گے، مگر ادھر ایسے ارادے باندھ رہا تھا کہ ادھر لاہور ایڈیٹرز کلب کے سیکرٹری جنرل ور سابق سینیٹر سید سجاد بخاری کا فون آیا کہ شام کو مال روڈ ایسوسی ایشن کے صدر سہیل بٹ راڈو والے نے سی پی این ای اور اے پی این ایس کے نو منتخب عہدیداروں کے لئے ایک افطاری کا اہتمام کیا ہے جس میں وہ مال روڈ کو جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے معاف رکھنے کی اپیل کریں گے ا ور ا س نیک مقصد کے لئے میڈیاکاتعاون مانگیں گے۔سو میرے ارادوں کی تو ہوا ہی نکل گئی۔
اب میں جلوس یا دھرنے کے لئے مال روڈ تو نہیں جاسکتا اور نہ کسی ا ور کو اس کا رخ کرنے کی حمائت کروں گا، مگر میں اپنی آبادی کے مسائل کے حل کی طرف کس طرح توجہ دلاؤں، یہ مسائل بھی کوئی بڑے نہیں مگر بنیادی نوعیت کے ہیں۔پانی چلا جائے تو کئی روز تک ندادرد، بجلی کی ٹرپنگ ہو جائے توحمزہ ٹاؤن کا ایس ڈی ا و تک فون تک نہیں اٹھاتا، پانی کا مسئلہ تو مقامی انتظامیہ نے حل کرناہے ، اس کے دفتر میں جنرل ، بریگیڈیئر ، کرنل اور میجر بیٹھے ہیں، اور ان کے نیچے ایسے تکڑے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر کوئی کسی سے شکائت کر کے ہمارے بچوں کی روزی چھینے تو ایسے شخص کو ہم زمین کے ا وپر نہیں رہنے دیتے، میں اس دھمکی کو مذاق نہیں سمجھتا۔سوسائٹی کے مالکان سے دوستی تو نہیں ، ان کے والد سے تو تھی، سینیٹر گلزار احمد سے میری گاڑھی چھنتی تھی، اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے کئی ملاقاتیں انہی کے گھر میں ہوتی تھیں، ان کے بیٹے بھی سنیٹر بنے، سینیٹر وقارا ور سنیٹر عمار، کبھی مل جائیں تو بات سن لیتے ہیں مگر ہر معاملہ تو وہ نہیں دیکھ سکتے۔آبادی بڑھ رہی ہے،ا سکے حساب سے ٹیوب ویل نا کافی ہیں اور جو ہیں ، ان کا بور بیٹھ جاتا ہے یا لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پورا ٹائم موٹر نہیں چل سکتی۔کل میرے دوست احمد وقاص ریاض جو اس سوسائٹی میں کام کرتے ہیں اور لکھنے لکھانے سے شغف رکھتے ہیں، مجھے ملنے آئے تو میں نے پانی کی کمیابی کی شکایت دور کرنے کی درخواست کی ، کہنے لگے ، پانی کا حال بہت برا ہے، مگر پھر بھی لوگون کے گھروں پر ٹینکروں کے ذریعے سپلائی کر رہے ہیں۔ اس دعوے کے باوجود میں نے فجرا ور جمعہ کی نماز بغیر وضو کے پڑھی ۔یہ تو ہوا پانی کا رونادھونا، بجلی کا دکھڑا کسے سنائیں۔ خواجہ آصف وزیر دفاع بھی ہیں اور وزیر بجلی بھی، لوگ کہتے ہیں کہ وہ وزیر دفاع کے طور پر بے اختیار ہیں مگر پرسوں وہ ایک ایسی میٹنگ میں شریک ہوئے جس میں وہ جنرل راحیل شریف کے سامنے بیٹھے تھے،اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ پڑوسی ممالک کی دہشت گرد ایجنسیوں کا مکو ٹھپہ جائے اور ڈرون کو بھی مار گرایا جائے۔ یہ فیصلہ کوئی بے اختیار وزیر نہیں کر سکتا مگر بجلی کے شعبے میں کوئی جنرل راحیل ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں، واپڈا کو سفید ہاتھی کہا جاتا تھا مگراس کے پاس بجلی کا انتظام نہیں رہا، یہ بات واپڈا کے چیئر مین نے لاہورکے ایڈیٹروں کے منہ پر دے ماری تھی، یہ کہہ کر وہ اسکردو چلے گئے ا ور پھر پشاور، یہاں ہوتے بھی تو انہوں نے کیا مدد کرنا تھی، بیورو کریسی سے کسی نیکی کی توقع کم ہی کی جاتی ہے۔
مجھے بے چاری مال روڈ کا رونا دھونا کرنا تھا، یہ شہر کی ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھی، چھٹے عشرے میں لاہور آئے تو ہم اس سڑک پر شام کے بعد بلا وجہ چکر پہ چکر کاٹتے، اورخنک جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے، دل مچلتا تو کسی ٹانگے پر بیٹھ جاتے اور اپر مال کی سیر بھی کر لیتے۔مال روڈ پر ہر طرح کے لوگ مل جاتے، مولانا صلاح الدین احمد ، احمدندیم قاسمی،شہزاد احمد،انتظار حسین،اور وزیرآغا بھی، یہ لوگ اپنے دفتروں سے نکلتے تو اس سڑک پر ٹہلنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے، مال روڈ توتھی ہی ٹھنڈی سڑک مگرا س سے ملحقہ سڑکوں پر بھی کوئی پولیوشن نہیں تھا، نوائے و قت کے بانی محترم حمید نظامی نے اپنی آخری شب ٹمپل روڈ پر شورش کاشمیری کے ساتھ بحث مباحثے میں گزاری۔
مگر صاحبو! اب تو یہ مال روڈ اورا س کے ارد گرد کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی، کہیں ٹکا ٹن کا شور ہے اور کہیں مردہ باد، زندہ باد کے نعرے۔چیئرنگ کراس کو تو سیاسی جماعتوں نے موچی دروازہ سمجھ رکھا ہے ، جو منہ اٹھاتا ہے،چند درجن دیہاڑی داروں کے ساتھ اس چوک کو بلاک کر دیتا ہے اور پھر کوئی شہر کا رخ نہیں کر سکتا،کہ ہر سڑک پر اژدہام کی کیفیت ہوجاتی ہے۔ہمارے زمانے میں صرف انارکلی ایسی جگہ تھی جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا مگر کوئی کسی سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا تھا، اب جلوسوں اور دھرنے والوں کو لوگ صلواتیں سناتے ہیں اور کلیجہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر چھیاسی میں جلاوطنی سے واپس آئیں تو انہوں نے بھی مال روڈ کا روٹ ہی جلوس کے لئے منتخب کیا، واقعی سے یہ جلوس بہت بڑا تھا مگر اتنا بھی بڑا نہیں تھا کہ محترمہ نے جیسے کہا کہ میں چاہتی تو لاہور چھاؤنی کو آگ لگا دیتی اور گورنر ہاؤس پر قبضہ کر لیتی۔ستر کی دہائی میں پی این اے نے بھی مال روڈ پر اودھم مچایا تھا۔
مجھے ایک بندہ یا دآتا ہے، وہ مال روڈ کے درمیانی ڈیوائڈر پر کھڑا تھا،اس نے کھڑاؤں جوتے پہن رکھے تھے ا ور جسم پر کسی مردے کی اترن تھی، اس نے جھولی پھیلا رکھی تھی ا ور تیزی سے گزرتی ہوئی کاریں ہلکی سی بریک لگاتیں اورا س کی جھولی چشم زدن مں بھر جاتی، یہ نیک روح عبدالستار ایدھی کی تھی، لوگ اسے صدقہ خیرات بھی دیتے ا ور دعائیں بھی دیتے مگر ان کے علاوہ جس کسی نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے مال روڈ کا رخ کیا، اسے پہلے تو دکانداروں کی لعنت پھٹکار کا سامنا کرناپڑتا، پھر ان لوگوں نے جی بھر کے کوسا جو ارد گرد کی سڑکوں پر ٹریفک میں پھنس کر رہ جاتے یا جن کے مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے۔
ما ل روڈ اگر ایسی ہی ہوالشافی قسم کی سڑک ہوتی تو مسلمانان ہند نے قرارداد پاکستان کی منظوری کے لئے ا س سڑک پر اجتماع کیوں نہیں کیا ، وہ شہر سے باہر گندم کے کھیتوں کوصاف کر کے ایک کھلے میدان میں کیوں جمع ہوئے۔آپ کہیں گے کہ اگر قائد اعظم نے مال روڈ کا ناطقہ بند کیا ہوتا تو پاکستان 1940 میں ہی بن چکا ہوتا، مگر یہ قائد اعظم تھے، آج کے سیاستدانوں کی طرح لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنانا ان کا مقصد قطعی نہیں تھا۔ اب تو مولویوں نے کسی کا غائبانہ جنازہ ادا کرنا ہو تو وہ بھی ہال روڈ چوک پر صفیں باندھ لیتے ہیں ، بھائی ، بادشاہی مسجد خالی پڑی آپ کو بد دعائیں دیتی ہے، اس سے کیا کام لینا ہے، کیا خدا نخواستہ پھر کسی رنجیت سنگھ کا انتظار ہے جو اس بادشاہی مسجد کے صحن میں ہاتھی اور گھوڑے باندھے۔
ایک مال روڈ اسلام آباد میں تلاش کر لی گئی ہے، اس کا نام ڈی چوک ہے، یہاں دھرنا دینے کے لئے کینیڈا سے ایک مولوی کو امپورٹ کیا گیا ور ایک کرکٹر چند روز کے لئے لندن سے آ گیا اور وہ تماشہ لگا کہ خدا کی پناہ !!۔ یہ تماشہ تو ایسالگا کہ بیوروکریٹوں کو چھٹی کا دودھ یادآگیا ، وہ چھٹی کر کے گھر بیٹھ رہے، بڑے بڑے ججوں کا عصائے عدل بھی مضمحل ہو گیا، ان کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے جاتے تھے، چین اپنے آپ کو سپر طاقت سمجھتا ہے مگرا سکے صدر ایک دھرنے سے خائف ہو کرپاکستان آنے کی ہمت نہ کر سکے۔
پاکستان میں طاقت کا راج ہے۔ جنگل کا یہ قانون رائج ہے کہ جس کی لاٹھی،اس کی بھینس۔سو بے چاری مال روڈ کے تاجروں کے نئے نویلے صدر سہیل بٹ جتنی مرضی افطاریاں کھلا لیں ، ان کی کون سنے گا، سوائے میرے۔