خبرنامہ

ماڈل ٹاؤن میں آپریشن غیظ وغضب…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ماڈل ٹاؤن میں آپریشن غیظ وغضب…اسد اللہ غالب

نریندر مودی کی بربریت نے جلوہ دکھانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستانی پنجاب کے چیف منسٹر شہبازشریف نے کہا ہے کہ وہ ماڈل ٹاؤن آپریشن سے لاعلم تھے کوئی وجہ نہیں کہ ان کے دعوے پر یقین نہ کیا جائے۔ تو پھر شک پڑتا ہے کہ لاہور پولیس کو سرحد پار سے احکامات دیئے جارہے تھے۔
نریندر مودی ہی وہ واحد شخص ہیں جنہیں پاک فوج کے آپریشن عضب سے بیر ہے اور انہوں نے اسے ناکام بنانے کے لیئے آپریشن غیظ وغضب کا آغاز کر دیا ہے۔ ہر وہ سیاسی یا مذہبی جماعت جو پاک فوج کے ساتھ آپریشن عضب کے لیئے اظہار یک جہتی کر چکی ہے، وہ نریندر مودی کی وحشی طاقت کا نشانہ بن سکتی ہے۔ آج منہاج القرآن کی باری آئی ہے کل کو چوبرجی میں حافظ محمد سعید کے مرکز قادسیہ کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پراسرار قوتیں آپریشن کر سکتی ہیں۔ اور پھر لاہور چھاؤنی میں داخلی راستوں سے ناکے ہٹا دیئے جائیں گے۔
جوشخص سکیورٹی کی ابجد سے بھی واقف نہیں، وہ بخوبی جانتا ہے کہ شاہداللہ شاہد کی اس دھمکی کہ طالبان لاہور میں بچوں کی تکا بوٹی کر دیں گے۔ اس کے بعد حکومت پاکستان کو اعلان کر دینا چاہئے تھا کہ پاک فوج کی محاذ جنگ میں مصروفیت کی وجہ سے ہر شہری اپنے گھر کے سامنے مورچے کھودے تا کہ کسی ممکنہ دہشت گردی سے بچا جا سکے مگر یہاں الٹی گنگا بہ نکلی، ایک شخص جس کا نام ڈاکٹر طاہر القادری ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف دوسو صفحات کا ایک فتوی جاری کر رکھا ہے اور جس کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہو چکا ہے، اس شخص کوکس قدرسنگین سکیوریٹی خطرات لاحق ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک مرنجاں مرنج انسان ڈاکٹر سرفرازی نے دہشت گردی کے خلاف فتوی جاری کیا اور اسے کس قدر بہیمانہ انداز میں اس کے مدرسے میں شہید کر دیا گیا۔ میرا قلم اس بہادر انسان کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہے۔
دہشت گردوں کے نشانے سے وہ سب محفوظ ہیں جو اول تو گرگٹ ہیں، دوم، وہ دہشت گردوں کے کھلے سرپرست ہیں، سوم، وہ اس قدر طاقت وحشمت کے مالک ہیں کہ طالبان کو حکم دے سکتے ہیں کہ بھائی پنجاب کو معاف رکھو۔ چہارم، وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد نام کی کسی چڑیا کا وجود ہی نہیں۔ آخری قبیل میں رانا ثناء اللہ کا شمار ہوتا ہے میں نے انہیں کتنی بار یاد دلایا ہے کہ کامرہ میں اواکس طیارے کو جن دہشت گردوں نے تباہ کیا۔ ان میں لاہور قصور روڈ کے آخری سرے پر واقع گاؤں برج کلاں کا ایک نوجوان بھی شامل تھا، یہ گاؤں سرحد پار نہیں، جنوبی پنجاب نہیں، ازبکستان نہیں، لاہور کے قلب میں واقع ہے۔ میں رانا ثناء اللہ کو یہ بھی بتاتا چلوں کے اواکس طیارے کی تباہی بھارت کے فائدے کی بات ہے۔ جس طرح لاہور پولیس نے سیدھے فائر کیے ہیں، میں بھی سیدھی بات کروں گا کہ ماڈل ٹاؤن سانحے کو نوائے وقت نے اپنے ادارتی تبصرے میں بر بریت کی بدترین مثال قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کہتے ہیں کہ انہیں پاک فوج کے آپریشن کی حمایت کی سزا دی گئی ہے۔ ایک زمانے میں منظور وٹو نے بھی ماڈل ٹاؤن ہی میں رکاوٹیں ہٹانے کے لیئے آپریشن کیا تھا، اس کی بھی کسی نے تائید و تحسین نہیں کی تھی مگر اس آپریشن میں علاقے کے کسی مکین کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے پیرو کار کس قدر خطرناک ہوں گے، اس کا اندازہ اس دھرنے سے کیا جاسکتا ہے جو پچھلے برس شدید سردی میں اسلام آباد میں دیا گیا، کئی روز تک جاری رہنے والا لاکھوں مردوزن اور بچوں پر مشتمل یہ دھرنا اس قدر پرامن تھا کہ کوئی گملا تک نہیں ٹوٹا جبکہ گزشتہ روز پولیس کی وحشت تو رہی ایک طرف، اکیلے گلو بٹ کی پہلوانی دیکھنے کے لائق تھی جس نے ایک ڈنڈے سے درجنوں نئی نویلی گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے اور وہ بھی اعلی ترین پولیس افسر کی پشت پناہی میں۔
میں اس لاہور کی بات کر رہا ہوں جہاں اکیاسی میں نواز شریف وزیر خزانہ بنے، پچاسی میں وزیر اعلی بنے، اٹھاسی میں پھر وزیراعلی بنے اور ستانوے میں شہباز شریف وزیراعلی بنے، پچھلے الیکشن میں بھی شہباز شریف نے وزارت اعلی سنبھالی اور اب پھر وہی اس تخت پر براجمان ہیں، ان کا اپنا کوئی ہے کہ ان جیسا کوئی منتظم پنجاب میں نہیں آیا، وہ اپنے وزیر اعظم بھائی کے کئی محکمے بھی چلا رہے ہیں مگر افسوس کہ چراغ تلے اندھیرے کا عالم ہے۔ اور لاہور خون میں لت پت کراہ رہا ہے، دوخواتین کا خون ہوا، میں نہیں کہنا چاہتا کہ مجھے کر بلا یاد آگئی گر کربلا میں بھی یہ ظلم نہیں ہوا تھا۔
شریف حکومت نے اپنے ساتھ وہی کیا ہے جو ایک میڈیا گروپ اپنے ساتھ کر چکا ہے۔ اس میڈیا ہاؤس نے دعویٰ تو نہیں کیا تھا مگر وہ خدا بنا ہوا تھا مگر اس نے ایسی فاش غلطیاں کیں کہ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا، اب شریف خاندان بھی اسی کڑکی میں ہے۔ کسی میں مجال نہیں تھی کہ اس کی گرد کی طرف بھی نگاہ اٹھائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری پہلے صرف اپنے حلقہ مریدوں تک محدود تھے، اب ان کی مظلومیت نے انہیں پورے معاشرے کی اسپورٹ فراہم کر دی ہے۔ اکیلا میں نہیں، کوئی ایک اخبارنویسں بھی خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کی تاویل کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اور شہباز شریف تو بہت مصروف حکمران ہیں، انہیں تو سانحے کا علم ہی نہ ہو سکا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری وطن آجاتے، وہ قانون ہاتھ میں لیتے تو ان پر چاہے ٹینک چڑھادیئے جاتے۔ اب جتنے مرضی ٹربیونل بنا لیے جائیں کہیں سے قتل و غارت کا جواز مہیا نہیں ہو سکے گا۔
حکومت وقت کو علم ہے کہ فوج حالت جنگ میں ہے، اسے علم ہے کہ پوری قوم اپنی بہادر فوج کے ساتھ کھڑی ہے حکومت کا فرض تھا کہ وہ قومی اتحاد و اتفاق کے لیے ہرممکن کوشش کرتی، وزیراعظم فون اٹھاتے اور ٹورنٹو میں کال ملا کر ڈاکٹر طاہر القادری سے کہتے کہ ویلکم! میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں، آئیے اکٹھے مل کر شمالی وزیرستان چلتے ہیں پاک فوج کو تھپکی دینے کے لیئے مگر غضب خدا کا مہر و محبت اور کشتی کے بجائے آپریشن غیظ وغضب شروع ہوگیا، غضب خدا کا!! (19 جون 2014ء)