خبرنامہ

مجرم کوئی اور ، احتساب کسی اور کا ۔۔۔اسداللہ غالب

پانامہ لیکس کی کہانی نے بدنام زمانہ کرپٹ فوجی حکمران اور ڈرگ لارڈ نوریگا کے ملک سے جنم لیا۔
یہ ملک دنیا سے نوریگا کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی کا انتقام لینے پر تلاہوا ہے۔ یہ کہانی میں آگے چل کر بیان کروں گا۔
شریف خاندان اسی انتقام کی لپیٹ میں ہے ۔
حقیقت میں اس خاندان کی معیشت کو ڈبونے کا ذمے دار کوئی اور ہے مگر احتساب کے کوڑے شریف خاندان پر برسائے جا رہے ہیں۔
میں بعض سیاسی اور دفاعی امور میں وزیر اعظم کا سخت تریں نقاد رہاہوں، اور میں نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا ہے ۔ ۔مگر جب میں دیکھ رہاہوں کہ شریف خاندان سراسر مظلوم ہے تو میں ان کے ساتھ اسی طرح کھڑا ہو جاؤں گا جیسے پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیر اعظنم پر تنقید ان کی برداشت سے باہر ہے۔ مجھے کوئی وزیر اعظم کا چمچہ کہنا چا ہے تو اس کی مرضی ورنہ میرے نوائے وقت کے کالم اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ میں نے وزیر اعظم کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔اس کا سبق میرے مرشد نظامی نے مجھے دیا۔مگر یہ جو کچھ ہو رہا ہے، میرے نزدیک یہ سب غلط ہے۔ جھوٹ ہے، افتر اپردازی ہے اور پاکستان کی سا لمیت پر کاری وار ہے، کس طرح،ذرا دل تھام کر سنیئے ۔
کچھ لوگ اپنے قد سے اونچی چھلانگیں لگا رہے ہیں کہ آئیس لینڈ کا وزیراعظم بھاگ گیا، میں کہتا ہوں کہ آئس لینڈ میں ہر روز ایک وزیر اعظم مستعفی ہو جائے ا ور اگلے روز نیا آ جائے تو اس برف زار خطے کی ویرانی میں ذرا بھر فرق نہیں پڑے گا ، مگر پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اس وقت دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آخری مرحلہ ہے، خون پینے والی بلائیں سر پٹ بھاگ کھڑی ہوئی ہیں اور پاکستان کو سکون کا سانس لینے کاایک وقفہ ملا ہے جس میں وہ ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔اس ملک میں فوجی ڈکٹیٹر ایوب خاں نے گیارہ سال حکومت کی، دوسرے فوجی ڈکٹیٹر یحی خاں نے ملک دو لخت کیا، تیسرے فوجی ڈکٹیٹر ضیاالحق بھی گیارہ برس تک سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے اور پھر مشرف بھی اتنے ہی برس وردی پوش صدر رہا،اسی پر بس نہیں زرداری کا کوئی دور پار کا کوئی تعلق پیپلزپارٹی سے نہیں تھامگر وہ پانچ سال تک اس ملک کے اعلی تریں منصب صدارت سے چمٹا رہا، ہم نے جنرل کیانی کو اس لئے توسیع دی کہ حالت جنگ میں سپاہ سالار نہیں بدلے جاتے ، آج لوگوں کاپر زور مطالبہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اپنے اعلان کے باوجود گھر نہ جانے دیا جائے اور جو شخص عوامی مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم ہے ا ورا س کابھائی بھی عوامی منیڈیٹ کے تحت وزیر اعلی پنجاب ہے اور ایک سے ایک بڑھ کر منصوبے مکمل کر رہا ہے، تو انہیں گھر بھجنے کی ہمیں جلدی کیوں پڑی ہوئی ہے، کیا محض اس لئے کہ ایک ایساملک جس کا آج تک کسی پاکستانی نے نام نہیں سناتھا اور اگر کسی نے سنا تھا تو شیطان صفت نوریگا کی وجہ سے جو کرپشن کا شہنشاہ تھا ، جسے امریکہ نے پکڑ کر اپنے ہاں ایک پنجرے میں برسہا برس کے لئے بند کیا، پھرا س نے فرانس کے خلاف جرائم کی سزا میں اس کی سرزمین پر برسوں کی قید کاٹی ،ا سی نوریگا کے ملک سے ایک رپورٹ جاری ہوتی ہے جس کی بنا پر ہم نے اپنے وزیر اعظم کے خاندان کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔
اس گھیراؤ کی داستان نصف صدی کے عرصے پر محیط ہے، سقوط ڈھاکہ کے ساتھ اس کی ایک اسٹیل فیکٹری شیخ مجیب الرحمن کے بنگلہ دیش نے ہڑپ کر لی ، دوسری فیکٹری لاہور میں تھی، ٹھیک بارہ دن بعد اسے بھٹو حکومت نے نگل لیا، شریف خاندان جو قیام پاکستان سے قبل اسٹیل کے کاروبار میں تھا، اسے سڑک سوار کر دیا گیا۔مگر خاندان کے سربراہ میاں شریف ہمت ہارنے و الے نہیں تھے۔ ا نہوں نے انتہائی مختصر عرصے میں نئی امپائر کھڑی کر لی،ا ن دنوں میاں نواز شریف ا ور میاں شہباز شریف ا ور اسحاق ڈار میرے ساتھ گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے اور تعلیم سے فراغت کے بعد والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے، ان کو کسی حکومت کا سہارا نہیں تھا۔ماڈل ٹاؤن میں اتفاق کی کوٹھیاں بھی انہی دنوں بن گئی تھیں۔یہ درست ہے کہ نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ بنے ، پھر دو بار وزیراعلی بھی بنے مگرا س دوران بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر نے ان کے کاروبار پر کلہاڑا چلایا اور ان کے لئے سامان لانے والے جہاز جوناتھن کو کئی ماہ تک سامان اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بقول وزیر اعظم انہیں اس میں پچاس کروڑ کا نقصان ہو گیا جو آج کے حساب سے اربوں میں جا پہنچے گا۔نواز شریف دو بار وزیر اعظم بنے اور اگر اس دوران انہوں نے اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کاروبار میں کوئی اضافہ کیا بھی تو ایک نئے جنرل مشرف آن ٹپکے جنہوں نے پہلے تو ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا، پھر انہیں جیلوں، سیف ہاؤسوں اور قلعوں میں بند کیا ، جہاز کی سیٹوں سے باندھا ، انکے آبائی گھر پہ بھی قبضہ کر لیا اور آتش انتقام پھر بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تو انہیں بیک بینی و دوگوش ملک بدر کر دیا۔
میرے دلائل یہاں تمام ہوئے۔
اب مجھے یہ کہنا ہے کہ میں جو نواز شریف کے خلاف لکھتا رہا ہوں،آج صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کا حساب ہونا چاہئے تو وہ ہے شیخ مجیب جس نے بنگلہ دیش بنا کر نواز شریف کو پہلا نقصان پہنچایا ، دوسرا ہے بھٹو نے جس نے اتفاق فیکٹری کو اپنے قبضہ قدرت میں لے کر کھٹارے میں تبدیل کر دیا، تیسرا کردار محترمہ بے نظیر نے ادا کیا ور اورآخری و ار جنرل مشرف نے کیا جسے ایک منتخب عوامی منیڈیٹ کی حامل حکومت کو ہٹانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔یہ سب ظلم و ستم پاکستان کی سرز مین پر ڈھائے گئے ،اس لئے قصہ زمین بر سر زمیں ، ان کا حساب کتاب یہیں ہو جانا چاہئے ا ور پانامہ لیکس کی تحقیقات سے پہلے ہونا چاہئے۔پانامہ لیکس میں نواز شریف یا شہباز شریف کا نام تک شامل نہیں ، ایسے دو بچوں کا ہے جو اوور سیز پاکستانی ہیں، اس حیثیت سے انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو پنامہ لیکس کا ادارہ ان کے خلاف سعودی عر ب اور برطانیہ میں مقدمے دائر کرے ا ور احتساب کا شوق پورا کر تا پھرے۔ ہمارے ججوں یا سابق ججوں کا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔اور ہمارے میڈیا کو اس پر چیخنے چنگھاڑنے کی ضرورت کیا ہے، اسے تو ایک مظلوم خاندان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے، یہ میڈیا ور ہماری سول سوسائٹی اپنے تئیں، جمہوریت ا ور انسانی حقوق کے چیمپیئن بنتے ہیں تو پھر مجیب، بھٹو، بے نظیر اور مشرف کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کریں۔وزیرا عظم کی تقریر نے ان مجرموں کے چہرے سے نقاب نوچ پھینکا ہے مگر وہ اپنے ان مخالفوں سے انتقام لینے کا مطالبہ کرتے اچھے نہیں لگتے تھے، یہ مطالبہ ہماری سول سوسائٹی کو کرنا چاہئے کہ جن لوگوں نے ہر مرحلے پر شریف خاندان کو تباہی و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا، دراصل احتساب کے لائق تو وہ ہیں۔وزیر اعظم کے وہ بیٹے کیسے ہو گئے جن کے والدین کوچند سوٹ کیسوں کے ساتھ ایک جہاز میں بٹھا کر جدہ روانہ کر دیا گیا،اس کے بعد اس خاندان نے یا ان کے بچوں نے اپنی ہنر مندی کے جوہر دکھائے ا ور کچھ کمائی کر ہی لی توا س پر حکومت پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے، بیرونی حکومتیں جانیں اور یہ دو نوجوان بھائی جانیں۔مگر وزیر اعظم نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے، اب جسے احتساب کا شوق ہے وہ پانامہ کا ٹکٹ کٹوائے ، وہاں سے گواہیاں ا ور ثبوت اکٹھے کرے، پھر کوئی نتیجہ نکلے تو مجھے ضرور آگاہ کر دے تاکہ میں اپنی جہالت کا ماتم کر سکوں۔
مجھے کوئی یہ طعنہ نہ نے دے کہ میں نواز شریف کا جھولی چک بن گیا ہوں جبکہ میں نے ننانوے کے بعد سے اب تک ان پر کڑی تنقید کی ہے، مگرآج جو مسئلہ درپیش ہے،اس میں وزیر اعظم اوران کاخاندان رتی بھر مجرم تو کیا ملزم بھی نہیں بلکہ کہیں دور دور تک ملوث بھی نہیں تو پھر میں تنقید برائے تنقید کا شوق کیسے پورا کروں، حق کی بات کیوں نہ کروں۔پانامہ لیکس والے اگر عقل مند ہیں تو اپنے سابق فوجی ڈکٹیٹرا ور نوسر باز ڈرگ لارڈ نوریگا کی جاں بخشی کے لئے ہاتھ پیر ماریں، کرپشن کی غلاظت سے لتھڑے اس شخص کی خاطر وہ ساری دنیا کے کپڑوں پر گندگی کے چھینٹ کیوں اڑاتے ہیں۔