خبرنامہ

مجھے بھارتی ایجنٹ تک رسائی چاہئے۔۔۔اسداللہ غالب

مجھے یہ کالم کل لکھنا تھا ، مگر یہ یکم اپریل کو شائع ہوتا تو کوئی اسے سنجیدگی سے نہ لیتا اور اپریل فول سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ، یہی سنتے چلا آرہا ہوں کہ بھارتی را ہمارے ہاں دخل ا ندازی کر رہی ہے۔اب تو اس بھارتی را کی شیطنت پر میراایمان پختہ ہو چکا ہے۔اور ملک میں پتہ بھی کھڑکے تو یقین سا ہو جاتا ہے کہ یہ بھارتی را کی سازش ہے۔
اخبار نویسی اردو ڈائجسٹ سے شروع کی تو جاسوسی کہانیوں کاترجمہ کیا۔اور آہستہ آہستہ میری اپنی عادتیں جاسوسوں والی ہوتی چلی گئیں۔جنرل ضیا کے باغی جنرل چشتی کا نوائے وقت کے لئے میں نے سب سے پہلے انٹرویو کیا، ان کے گھر سے نکلنے لگا تو انہوں نے وارننگ دی کہ ان کے ساتھ والا گھر ڈپٹی آرمی چیف جنرل کے ایم عارف کا ہے اور وہاں تمہارا یہ ٹیپ ریکارڈر چھین لیا جائے گا۔میں نے کہا کہ شوق سے چھین لیں، میں نے یہ ریکارڈنگ تین جگہ کی ہے، ایک بارجنرل جیلانی نے غازی گھاٹ کا پل بنوایا اور لاہور سے ایک میڈیا ٹیم مظفر گڑھ اور ڈی جی خان گئی، واپسی پر میں اور مجید میرا س ٹیم سے کھسک گئے ا ور صبح سویرے نوابزادہ نصراللہ خان کے گھر خان گڑھ پہنچ گئے جہاں وہ کئی برسوں سے نظر بند چلے آ رہے تھے، نوابزادہ کا انٹرویو مع تصویر چھپا تو ایک کھلبلی مچ گئی اور میری اور فوٹو گرافر کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو گئے ۔ مگر آج تک کسی نے پکڑا نہیں۔ شاید کسی دوسر ی حکومت کے ساتھ میری ان بن ہو گئی تواس مقدمے کی فائل کو جھاڑ پھونک کر کام میں لے آئیں اور میں دھر لیا جاؤں۔
ان حرکتوں کے باوجود مجھے کسی نے جاسوس نہیں سمجھا، جس کاکام اسی کو ساجھے، یہ فریضہ را کے ایجنٹ انجام دیتے رہتے ہیں اور ہمارے دوست سعید آسی نے میجرنذیر کے حوالے سے خوفناک ا نکشافات کئے ہیں کہ یہاں کشمیر سنگھ نے پاکستان کو دو لخت کیا، پھر بقیہ پاکستان میں دہشت گردی کی ، وہ پکڑا گیا، موت کی سزا ہو گئی مگر اسے کوئی سزا نہیں دے سکا ، ہمارے ایک نیک نام، انسانیت کے خدمت گزار انصار برنی اسے اپنی جھنڈے والی گاڑی میں ڈال کر واہگہ پار چھوڑآئے، ریمنڈ ڈیوس کا قصہ تو ہمارے بچے بھی دیکھ چکے کہ وہ کس طرح اڑنچھو ہو گیا،وہ آزادی سے جاسوسی کرتا رہا،آئی ایس آئی کے دو بے گناہ اہل کاروں اور ایک راہگیر کو ہلاک کر کے وہ جیل گیا اور وہاں سے امریکہ واپس، مگر ہماری عافیہ صدیقی امریکی جیلوں میں گل سڑ رہی ہے۔ایبٹ آباد میں امریکی جاسوس کمانڈوز نے ہمارے اقتدارا علی کو جس طرح روندا، اسے سقوط ڈھاکہ کہیں یا سقوط بغداد، یہ زخم کبھی بھولنے نہیں پائے گا۔
اب را کا ایک ایجنٹ سچ مچ ہمارے ہاتھ آ گیا ہے، اسلام آباد کا میڈیا خوش قسمت ہے کہ اس نے اس جاسوس کے اعترافی بیان کی وڈیو آنکھوں سے دیکھ لی ،ا سے جنرل باجوہ نے اسکرین پر چلایا، مگر اس کی جو وڈیو سرکاری طور پر جاری کی گئی ہے، اس میں صرف چند جھلکیاں ہیں، انہیں دیکھ کر جاسوس کو دیکھنے اوراس سے ملنے کا شوق فراواں ہو گیا۔
میں ایک عام پاکستانی ہوں ، ایساپاکستانی جو بھارت کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے، اوپر سے میں ایک اخبار نویس ہوں، یعنی ایک کریلا اور دوسرے نیم چڑھا، میں اس جاسوس سے ملنا چاہتا ہوں مگر کیا پتہ کہ مجھے اس مردود تک رسائی ملے یا نہ ملے، ابھی تک بھارتی سفارتکاروں کو تو نہیں ملی۔شاید ایران والے بھی رسائی مانگ رہے ہوں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ یہ شخص واقعی ایران سے آیا ہے یا وہ ویسے ہی ایران کو بدنام کر رہا ہے ، ایران کو اپنی بدنامی کا بہت خیال ہے، وہ سٹپٹا اٹھا ہے کیونکہ پاکستان نے بھارتی جاسوس کے باقی ساتھیوں تک رسائی مانگ لی ہے جو چاہ بہار میں بہار منا رہے ہیں۔ایرانی صدر پہلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑا، ایک زمانے میں جب ایران پر بادشاہت تھی تو ہر کسی کے سانس لینے کی رپورٹ بھی ایرانی ایجنسیوں کے پاس ہوتی تھی، انقلاب کے بعد یہ ایجنسیاں کیوں سو گئیں اور انہیں را کے نیٹ ورک کا پتہ کیوں نہ چل سکا، اب ایران پاکستانی میڈیا کوکوس رہا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کر رہا ہے۔میڈیا کیوں تعلقات خراب کرے گا، ایک ہی تو ہمارا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ ہمارے دوستانہ،برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور کبھی کبھار کی ٹھوں ٹھاں کے باوجود ہماری یہ سرحد ٹھنڈی ہے، ہماری دعا یہ ہے کہ یہ تعلقات اور مضبوط ہوں۔ اس کے لئے ایران کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہو گااور بھارتی را کے نیٹ ورک کی پکڑ دھکڑ میں سرگرمی دکھانا ہو گی۔
مجھے حیرت ہے کہ بھارتی جاسوس سے ہمارے بعض کالم نگاروں کو بڑی ہمدردی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ جاسوس تو ہر ملک کے دوسرے ملک میں ہوتے ہیں مگرا ن پر شور نہیں مچایا جاتا اور بڑی خاموشی سے تفتیش جاری رکھی جاتی ہے ، حتی کہ پورے نیٹ ورک کو نیٹ میں لانا ممکن ہو جاتا ہے۔
کوئی یہ کہتا ہے کہ ہماری حکومت خاموش ہے، اسی حکومت کے وزیرا طلاعات اور پی آئی او نے جنرل باجوہ کے ساتھ بیٹھ کر بھارتی جاسوس کا سیاپا کیا، اب ا س سے زیادہ حکومت اور کیا سرگرمی دکھائے، چلئے حکومت خاموش ہے تو اس جاسوس کو میرے حوالے کیا جائے، پہلے تو میں ا س کی ٹنڈ کی مزید حجامت کروں اور پھر دن رات جاگ کرا سکی باتیں سن سن کر چند ماہ کے ا ندر تہلکہ خیز کتاب چھاپ دوں گا، یہ کتاب دوسری جنگ عظیم کے جاسوسی ناولوں سے زیادہ بیسٹ سیلر ثابت ہوگی۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ ا یسے ایسے راز فاش کروں گا کہ دنیا وکی لیکس کے انکشافات کو بھول جائے گی۔
مگر میں کیا اور میری اوقات کیا، مجھے کون ا س جاسوس کے سائے کو بھی چھونے دے گا۔اور کچھ مزید دنوں تک اس جاسوس کا مشکل سا نام اخباروں میں اچھالا جائے گا ، پھر یہ تذکرہ اپنی موت آپ مر جائے گا، ہاں ، اگر پاکستان کا کوئی جاسوس بھارت میں پکڑا گیا ہوتا اورا سکا تعلق لشکر طیبہ سے ہوتاا ورا س کا نام حافظ محمدسعید ہوتا تو پھر ہمارے میڈیا کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتیں ۔ہمارے میڈیا کے کمالات تو اب بھی دیکھنے والے ہیں ، ایک طرف تو ہمارے نیوز چینلز پر گلشن پارک کے نوحے پڑھے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی بھارتی جاسوس کی جوتم پیزار جاری رہتی ہے مگر انہی نیوز چینلز کے تفریحی چینلز پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے دکھائے جا رہے ہوتے ہیں، ہمارے میڈیا کو ایک فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پاکستانی میڈیا ہے یا بھارتی بھونپو۔
یہ ساری بحث ایک طرف، مگر میں اپنے اس ارادے پر قائم ہوں کہ مجھے بھارتی جاسوس سے ملنا ہے، میں نے زندگی بھر کوئی جاسوس نہیں دیکھا ، مجھے بچہ سمجھ لیں اور میری یہ خواہش پوری کر دی جائے۔جنرل باجوہ لاہور بھی آئیں اور جاسوس کی وڈیونہیں ،ا س شخص کو زندہ یا مردہ حالت میں ساتھ لائیں تاکہ ہم اس کے نفرت انگیز چہرے کو دیکھ تو سکیں۔اورا س پر پھٹکار ڈال سکیں۔