خبرنامہ

مجھے یہ سزا سو بار منظور ہے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مجھے یہ سزا سو بار منظور ہے

پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے ایک کمرے میں میری ملاقات پیمرا کے بانی چیئرمین میاں محمد جاوید سے ہوئی۔ یہ کوئی بارہ برس پہلے کا واقعہ ہوگا۔ وہ نئے ادارے کے خدوخال تشکیل دے رہے تھے میں ان دنوں اپنی ایک ویب سائٹ شروع کر چکا تھا، میں نے میاں صاحب سے کہا کہ کہ آپ سوادارے بنالیں، میری ویب سائٹ پرکاٹھی ڈالنے کا کوئی طریقہ آپ کونہیں سوجھے گا۔ اس لیئے کہ نہ میں نے اس کا کوئی ڈیکلریشن حکومت سے لیا ہے۔ نہ وہ اسے کوئی اشتھار جاری کرتی ہے کہ کوئی پرویز رشید میرا معاشی گلاگھونٹ سکے، نہ اس کے لئے کوئی نیوز پرنٹ درکار ہوتا ہے جس کی سپلائی کو حکومت کا کوئی سیف الرحمن روک دے۔ جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگائی اور ٹی وی چینلز بند کیئے تو میں ڈیلی ایکسپریس کا کالم نگار تھا۔ میرا ذاتی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا تھا اور نہ اس اخباری ادارے کا جس سے میں منسلک تھامگر نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ میں نے ایک کالم میں حکومت کوچیلنج کیا کہ وہ جس ٹی وی کو بند کرے گی، میں اسے اپنی ویب سائٹ پر مسلسل دکھاؤں گا۔ ان دنوں کسی چینل کی اپنی ویب سائٹ نہ تھی اور نہ انٹرنیٹ پر لائیو دکھانے کا ان کے پاس کوئی انتظام تھا۔
کالم کی اشاعت کے دو روز بعد میرے گھر میں پانچ ڈاکو آئے، دن دیہاڑے مسلم ٹاؤن جیسی پوش بستی میں تین گھنٹے تک گن پوائنٹ پرانہوں نے میری بیگم اور تین بہوں کے زیورات لوٹے اور پھر مزے سے فرار ہو گئے۔
مجھے پتا چل چکا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی قانون اور ادارہ نہ بھی ہو تو وہ مجھے سبق سکھاسکتی ہے۔
اب پیمرا نے کسی کو سزا دینے یا نہ دینے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ پہلے اس کے پرائیویٹ ارکان نے ایک میڈیا ہاؤس کیخلاف فیصلہ سنایا مگر اس پرکئی ہفتے عمل نہیں ہوا۔ اس لیئے کہ پیمرا کے سرکاری ارکان دعویٰ کر رہے تھے کہ پرائیویٹ ارکان کا اجلاس غیر قانونی تھا۔ اب اچانک اس ادارے کے لیے ایک قائم مقام چیئرمین کا تقرر کیا گیا، اگلی ہی صبح تمام سرکاری ارکان جو پہلے ہر اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کرتے رہے، وہ سب اس کے اجلاس میں آئے اور انہوں نے مل کر اپنا فیصلہ سنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پرعمل بھی ہو گیا۔ یعنی میڈیاہاؤس کی نشریات بند ہوگئیں۔ اب صرف ایک کروڑ جرمانے کی وصولی باقی ہے۔
میری پیمرا سے درخواست ہے کہ وہ مجھے ایک نئے چینل کے لیئے لائسنس جاری کرے تا کہ میں پاکستان کے بعض سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی عزت افزائی کرسکوں، مجھے ہر عزت افزائی پر پندرہ دن کی بندش اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا ہنسی خوشی قبول ہوگی اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس سزا کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں کروں گا۔
پیمرا کے نئے چیئرمین اور ان کے ساتھی سرکاری ارکان مجھے یہ لائسنس نہیں دیں گے، اس لیے کہ نہ وہ اپنی عزت افزائی برداشت کریں گے، نہ ان اداروں کی جن کے اکاؤنٹ سے ان کے گھر چلتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر تو ایک رکن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کی نشریات یہ لوگ کیسے ہضم کر پائیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے پیمرا کے نئے فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے وقار کی قیمت ایک کروڑ روپے جبکہ میڈیا ہاؤس کے وقار کی قیمت بیس ارب روپے۔
میں تو شکر گزار ہوں پیمر اکا جس نے اس گئے گزرے دور میں فوج کے وقار کی ایک کروڑ روپے قیمت لگا دی ہے مصر کے بازار میں یوسف کی قیمت صرف سوت کی ایک اٹی لگی تھی۔ یوسف کم از کم خوبصورت تو تھا۔ ہماری فوج تو چار مارشل لا، بار بار بلوچستان میں آپریشن، مشرقی پاکستان کے عوام پر چڑھائی اور پھر بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر، بگتی آپریشن، لال مسجد آپریشن، لاپتا افراد اور سوات اور فاٹا کے اسلامی مجاہدین کے خلاف بارہ سالہ جارحیت کی وجہ سے اپنی عزت کھو چکی ہے۔ اس فوج کے خلاف تو عالمی اخبارات میں روگ آرمی کے اشتھار چھپ چکے ہیں۔ اس فوج کے ہاتھوں سی آئی اے نالاں ہے، بھارتی حکومت ہر وقت اس کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتی ہے۔ سوویت روس مرحوم ہو چکا لیکن پیوٹن صاحب کے جی بی کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس لیے پاک فوج کی دراز دستی سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اسرائیل اور اس کی موساد بھی آئی ایس آئی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں۔ یہ طاقتیں پاک فوج کی کیا خاک عزت کرتی ہوں گی۔ تو پیمرا پرکہاں لازم آتا ہے کہ وہ اس کے وقار کے تحفظ کے لیئے کوئی کردار ادا کرے، بس کہہ دیا نا!کہ دو ہفتے نشریات بند اور ایک کروڑ جرمانہ اور کیا کرتا، کوئی بجلی گرا دیتا۔
اور میں بھی کہتاہوں کہ مجھے بھی دو ناچینل کا ایک لائسنس تاکہ میں بھی ایک ایک کروڑ کے جرمانے بھروں اور کچھ لوگوں اور اداروں کے خلاف دل کی بھڑاس نکال لوں۔
میں سخت شرمندہ ہوں شہیدوں کی امانت دار پاک فوج سے جس کے بارے میں، میں سخت غیر سنجیدہ انداز میں تبصرہ کر رہا ہوں۔ مجھے تو اپنے قلم کوغوری میزائل بنالینا چاہئے اور پاک فوج کے سامنے ڈھال بن جانا چاہئے۔ جب شہیدوں کی بے حرمتی کرنے والے ذرا بھر نہیں ہچکچاتے اور ڈنکے کی چوٹ اس پر وار کرتے ہیں تو میں نے یہ ہچر مچر کیا لگارکھی ہے۔
میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے رہا، میں یقین سے کہتا ہوں کہ پاک فوج کے وقار پر حملے تو صرف ایک بہانہ ہیں، اصل میں تو اس مملکت خداداد کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں۔ اور ہر وہ شخص جو پاکستان کے وجود کو دل سے نہیں مانتا، نہ اس کے آباؤ اجداد نے اس کی تخلیق میں کوئی قربانی دی ہے، وہ اس کی بیخ کنی کے لیئے مورچہ بند نظر آتا ہے۔ میں نہیں جانتاحق کی خاطر پہلا معرکہ کب لڑا گیا لیکن آخری معرکہ سامنے ہے۔ یہ بقا اور فنا کی جنگ ہے، وجود اور عدم وجود کی لڑائی ہے۔ ہمارا غنیم پوری طرح اس کے لیئے تیار ہے، وہ دعوت مبارزت دے رہا ہے۔ پہلو بدل بدل کر حملہ آور ہورہا ہے۔
ملک دشمن اکیلے نہیں ہیں، پیسے کی ان پر بارش ہورہی ہے، دنیا بھر کے تخریب کار ایجنٹ ملک دشمنوں کی پشت پر ہیں۔ اور ملک کے چاروں طرف عالمی افواج بھی پرے باندھے کھڑی ہیں۔ ان کے راستے میں صرف پاک فوج واحد رکاوٹ ہے یا آئی ایس آئی ان کو ناکوں چنے چبوارہی ہے، اس لیے پہلا وارانہی پر ہے۔
ایک کروڑ جرمانہ تو کوئی مسئلہ نہیں، وہ آٹھ آٹھ گھنٹے کی نشریات کے عوض لاکھوں بار ایک کروڑ جرمانہ دینے کو تیار ہوں گے۔
اور میں بھی اس کام کے لیئے تیار ہوں، بس پیمرا سے التماس کرتا ہوں کہ وہ مجھے ایک چینل کھول لینے دے۔ میرا کیمرہ بارہ اکتوبر ننانوے کے وزیراعظم ہاؤس پر زوم ان ہو گا جب پاک فوج کے ایک سربراہ کو ہٹا کر ایک نئے جرنیل کو وردی پہنائی جارہی تھی، کیمرہ مین کی کوشش ہوگی کہ وہ باری باری ان تمام کرداروں کے چہرے دکھائے جو اس وقت وزیراعظم ہاؤس میں موجود تھے۔
کیا اسی سین پرتو مجھے پہلی سزا نہیں ہو جائے گی۔ ہوتی ہے تو ہو جائے۔ (9جون 2014ء)