خبرنامہ

مستند راوی اور مستند روایات…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ضیا شاہد کی کتاب باتیں سیاستدانوں کی اپنی شہرت کی بلندیوں پر ہے۔ میں نے اس پر اپنی رائے کا جزوی اظہار کیااور دوبارہ لکھنے کا وعدہ بھی کیا تاکہ اس کتاب پر ایک تفصیلی اور ناقدانہ نظر ڈال سکوں۔ اگر چہ ضعف بصارت کے پیش نظر میںنے ایک ایسی مشین حاصل کر لی تھی جس کی مدد سے میں پڑھنے لکھنے کے قابل رہوں مگر جب نظر ہی کمزور سے کمزور تر ہوتی رہے تو بے چاری مشین کیا مدد کرے گی۔ پھر بھی اپنے خالق سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ جو یہ نعمت واپس لیتا ہے وہ دوبارہ بھی عنایت کر سکتا ہے۔
یہ سطورایک محفل کی روشنی میں لکھ رہا ہوں جو ضیا شاہد کی تازہ ترین کتاب کی مہورت کے ضمن میں برپا کی گئی، ضیا شاہد چاہتے تو بہت بڑا دربار سجا لیتے مگر انہوںنے چند دوستوں کی کہکشاں روشن کی جس میں ان کے ہر دوست نے کھل کر اظہار خیال کیا ۔
میری رائے میں یہ محفل ہمارے مشترکہ دوست ا ور بھائی مجیب الرحمن شامی نے لوٹ لی، انہوںنے کہا کہ ایک مستند راوی نے مستند روایات یکجا کر دی ہیں اور نام کمایا ہے۔اور انہیں تاریخ کے لئے محفوظ کر لیا ہے۔ امیر العظیم بھی دوستوں کے دوست ہیں ۔کہنے لگے کہ ضیا شاہد نے قومی تاریخ کے انجانے، ان دیکھے، ان چکھے اور فراموش شدہ گوشے نمایاں کر دیئے ہیں بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ کئی بجھے ہوئے دیئے جلا دیئے ہیں، اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان سے کیا سیکھتے ہیں یا کچھ بھی نہیں سیکھتے۔توصیف احمد خان طویل عرصے تک نوائے وقت کے نیوز ڈیسک سے وابستہ رہے، اب لگتا ہے کہ کالم نگارکے طور پر نام پیدا کرنا چاہتے ہیں،نیوز ایڈیٹر خود بھی کئی واقعات کا شاہد ہوتا ہے، ان میں سے کچھ اخبارات کی زینت نہیں بنتے، سمجھ لیجئے کچھ مجبوریاں حائل ہوتی ہیں، کچھ مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں،اس پس منظر میں توصیف احمد خان نئے شعبے میں ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں مگر ضیا شاہد کی تقریب میں انہوںنے یہ کیا کہہ دیا کہ اس کتاب کو پڑھ کر بعض شخصیات زیادہ بری لگنے لگ گئی ہیں اور بعض زیادہ اچھی، کیونکہ ضیا شاہد کے انکشافات حیران کن ہیں۔
ضیا شاہد انکشافاتی صحافت میں ید طولٰی رکھتے ہیں۔ ان کی ہر رپورٹ چشم کشا تھی، بھٹو کو پھانسی دینے والے تارا مسیح کاانٹرویو ہو یامختاراں مائی کا المیہ، ضیا شاہد نے ہمیشہ ہر روایتی خبر کو غیر روایتی نظرسے دیکھا اور اس کو چشم کشا بنا دیا۔ان کی تازہ کتاب انکے بڑھاپے اور بیماری زدہ دور کی تخلیق ہے مگر کتاب پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر قاری یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھلکڑ شخص کی تحریر پڑھ رہا ہے، اس لئے کہ ضیا شاہد نے جس کردار پر لکھا، اسے ہر زاویئے سے پرکھا اور پیش کیا ہے۔ اور لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے ،اس طرح اس کتاب کا ہر باب خصوصی اہمیت کی حیثیت رکھتا ہے۔
تذکرہ نویسی بجائے خود ایک آ رٹ ہے اور اس صنف کو نامی گرامی مصنفین نے استعمال کیا ہے۔میں یہاں تذکروں کا تقابل کر کے اپنے کالم کو بوجھل نہیں بنانا چاہتا ۔نہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں اردو ادب کا شناور ہوں۔ اپنی کم علمی کوجانتا ہوں۔ اس پر فخر کیسے کر سکتا ہوں۔
ضیا شاہد نے پاکستانی تاریخ کی نامور شخصیات پر قلم اٹھایا ہے، وہ ان میں سے ہر ایک کو ذاتی طور پر مل چکے ہیں اورسوائے ا یوب خان کے باقی سب کو بار بار مل چکے ہیں اس لئے ان کا تجزیہ کرنے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔کتاب کی فہرست پر نظر ڈالتے ہی قاری کا دل چاہتا ہے کہ وہ اس کتاب کو ایک نشست میں پڑھ ڈالے۔ ایوب خان سے آخری ملاقات۔ اس پر میں اظہار خیال کر چکا ہوں، اگلے ابواب کچھ یوں ہیں۔شیخ مجیب الرحمن سے انٹرویو، بھٹو صاحب کے آخری ایام،اصغر خان ایک معصوم سیاستدان،نوابزادہ نصراللہ خان کی یادیں، سید مودودی کی نصیحتیں،بزعم خود مرد حق ضیاا لحق،یحییٰ خان کے شب و روز، آپ کے لئے یہ باب انتہائی دلچسپی رکھتا ہے، میرے بھائی میرے دوست قاضی حسین احمد، ظاہر ہے کہ ہمارے بھائی امیرالعظیم نے سید مودودی اور قاضی صاحب کے تذکرے پرخوب واہ واہ کی اور کرنی ہی تھی ، ملک معراج خالد کی یاد میں۔ ملک صاحب سے زیادہ سادہ اور میری نظر میں پیچیدہ سیاستدان اور کوئی نہ تھا۔حنیف رامے فور ان ون، ایک نچلے طبقے کا شخص جس نے بڑا بن کر دکھایا۔بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک عظیم خاتون، اس تذکرے میں ان کی شمولیت کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن اگر آپ بیگم صاحبہ کا قصہ پڑھیں تو ان کی عظمت کے نقوش خود بخود آپ کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔میرا نشتر تمہارا نشتر ، یقین سے کہتا ہوں کہ بانیان پاکستان میں ان سے زیادہ قد آور لیڈر اور کوئی نہ تھا۔قائد کی تصویر کے ایچ خورشید، واحد کھراا ور سچا پاکستانی جس سے میں محبت کا دعویٰ کرتا ہوں، کاش، ضیا صاحب ان پر ایک الگ کتاب مرتب کرتے۔ ایسی بلند پایہ ہستیاں دنیا کی کئی اقوام کو میسر نہیں آسکیں۔زندہ باد خواجہ رفیق،بلند آہنگ سعد رفیق کے والد گرامی جنہیں انکی شہادت نے امر بنا دیا۔جے اے رحیم کاانجام ، اللہ ایسے انجام سے ہر بڑے سیاستدان کے حواریوں کو محفوظ رکھے۔ یہ تھا بھٹو کے زوال کا اصل سبب ، اس کا جواز پیپلز پارٹی ہمیشہ پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔بھٹو صاحب کے پہلے جانشین معراج محمد خان، یہ کہانی بھی جے اے رحیم سے ملتی جلتی ہے۔جنرل یعقوب علی خاں نے کہا تھا، یہ سرخی پڑھ کر آپ ضرور جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا کہا تھا۔آغا شاہی کی پیش گوئیاں۔ فارن افیئرز کا بقراط، میں اسے یہی خطاب دوں گا۔ آغا شاہی سے کچھ ملاقاتوں میں ضیا شاہد کے ساتھ میں بھی شامل تھا، ان کی دور اندیشی اور دوربینی کی صلاحیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔مقبول بٹ شہید کی یاد میں۔ یہ باب پاکستانی سیاست دانوں کے تذکرے میں کیسے در آیا، وہ تو ایک مرد حریت تھا ، پاکستانی سیاستدان تو کشمیر کی تحریک حریت کا نام لینے سے کپکپاتے ہیں کہ کہیں حافظ محمد سعید کے انجام سے دو چار نہ ہو جائیں۔
کتاب کا آخری باب عمران خان سب کی جان سب کا مان۔ یہ نعرہ تحریک انصاف کا ہے جو عظیم پاکستانی سیاستدانوں کے تذکرے میں کسی طور فٹ نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک عمران خان سے زیادہ متنازعہ سیاستدان نہ بھٹو تھا، نہ مجیب۔ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی بلکہ میں تو عمران خان کو سرے سے سیاستدان ہی نہیں سمجھتا ، میں یہ جانتا ہوں کہ عمران خان ایک زمانے میں ضیا صاحب کے قلب و ذہن پر حاوی رہا،اس کی سیاسی پیدائش میں بھی ضیا صاحب کا بڑا ہاتھ ہے مگر میں پھر کہوں گا کہ سردار عبد الرب نشتر اور جے اے رحیم اور ملک معراج خالد کی فہرست میں شامل ہونے کے لئے عمران خان کو ایک جنم اور درکار ہے۔
ضیا شاہد کی کتاب نے صحافیوں کو تحریک اور ترغیب دی ہے کہ وہ بھی اپنی یادیں قلم بند کریں، ضیا شاہد نے تو مجیب شامی سے فرمائش بھی کی کہ کم از کم وہ اپنے انڑویوز کا مجموعہ ہی شائع کر دیں۔ یہ معلومات کا انسا ئیکلو پیڈیا ثابت ہو گا۔ مگر شامی صاحب طرح دے گئے، وہ کسی کو پکڑائی نہیں دیتے۔ بس انہوںنے یہ کہہ کر محفل لوٹ لی کہ ضیا شاہد کی کتاب ایک مستند راوی ا ور مستند روایات کا مرقع ہے۔ دوست نوازی کا فن کوئی مجیب شامی سے سیکھے۔ان کی اس مہارت پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔