خبرنامہ

مسلم لیگ ن …. الیکشن تجزیوں کا سلسلہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مسلم لیگ ن …. الیکشن تجزیوں کا سلسلہ…اسد اللہ غالب

ترازو میں تولا جائے تو مسلم لیگ ن کو اس الیکشن میں چت کرنا ممکن نہیں۔ اس نے پنجاب میں دو بار مسلسل حکومت کی ہے اور مرکز میں ایک بار، پنجاب کی ٹرم کے دوران اس نے وہ کام کئے کہ جن کی بنیاد پراس نے نعرہ لگایا کہ بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان، اس نعرے پر انہیں ووٹ ملے اور نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزرات عظمی ملی۔ اس حکومت کو عوامی مسائل میں سے لوڈ شیڈنگ کا بڑا چیلنج درپیش تھا جس سے وہ کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہو چکی مگر پھر کچھ نہ سمجھ میں آنے والے واقعات رونما ہوئے، نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا، اب ان کو سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں ،ان مقدموں اور اپنی بیگم کی سنگین بیماری کے سبب نواز شریف کھل کر الیکشن مہم نہیں چلا سکے ،ا س اثنا میں لوٹے ان کو چھوڑ کر چلے گئے، ایک نقصان چودھری نثار کی علیحدگی کی وجہ سے بھی ہوا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ ن لیگ کو اقتدار میںنہیں آنے دیا جائے گا، اس کی وجہ کیا ہے، اسے سمجھنے سے میں تو قاصر ہوں۔
ن لیگ کے پا س متبادل قیادت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی شکل میںموجود ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے انہیں بے دست و پا بنا دیا گیا ہو۔ کس نے بنایا، میں بتانے سے قاصر ہوں، شاید مستقبل کا مورخ ان وجوہات کا تجزیہ اورتعین کر سکے۔شفیق الرحمن ایک ممتاز مزاح نگار ہیں مگر انہوںنے پتے کی باتیں کی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک افغان حملہ آور نے دلی پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور اپنے مشیروں سے پوچھا کہ کس بناپر حملہ کیا جائے۔ مشیروںنے وہ تمام وجوہات گنوائیں جن کے پیش نظر اس سے پہلے درجنوں مرتبہ یلغار کی گئی۔ مگر اب کسی کو نئی وجہ نہیں سوجھ رہی تھی۔ اس پر حملے کے شوقین سپاہ سالار نے کہا کہ چلو اس بار بلاوجہ چڑھائی کر دیتے ہیں، مسلم لیگ ن بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہے بلکہ پاکستان کی نحیف و نزار جمہوریت ہمیشہ انہی حالات کے شکنجے میں جکڑی رہی ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی ٹرم مکمل نہیں کر سکا۔ ایک وزیراعظم کو تو شہید کر دیا گیا۔ ایک کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ باقی کو کسی نہ کسی بہانے چلتا کر دیا گیا ، اگر کسی کی حکومت کو دوام حاصل ہوا تو وہ ایوب خان ، ضیاالحق اور مشرف تھے ، تینوں نے مارشل لا نافذ کر کے دس گیارہ برس تک حکومت چلائی، ایک جنرل یحیٰی خان بدقسمت نکلا کہ اسے صرف دو برس ملے مگر ان دو برسوں میں اس نے قائد اعظم کے پاکستان کا کام تما م کر دیا۔
مجھے آج یہ موازنہ نہیں کرنا تھا ۔ صرف اس الیکشن کو پیش نظر رکھ کر بات کرنا تھی ، مگر کچھ حقائق پس منظر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ شہباز شریف کے دلائل وزنی ہیں اور اعتراضات درست ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ووٹر ان کی باتوں کو درخور اعتنا سمجھے گا، میرا خیال ہے کہ نہیں، اس لئے کہ مسلم لیگ ن نے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ میں اسکی ایک مثال دیتا ہوں۔ مجھے ایک روز فون آیا کہ شہباز شریف پارٹی کا مشور پیش کرنے کے لئے آپ کو بلانا چاپتے ہیں ، کیاآ پ آ سکیں گے، میںنے اثبات میںجواب دیا ۔ فون کرنے والی خاتون نے کہا کہ تاریخ، وقت اور مقام آپ کو بعد میں بتایا جائے گا، مگرا سکی نوبت نہیں آئی،مسلم لیگ ن نے مجھے ضرب عضب کی حمائت کے جرم میں بلیک لسٹ کر رکھا ہے اور اب بھی اس کا شیوا یہی ہے۔
یہ درست ہے کہ اس پارٹی نے کارہائے نمایاں انجام دیئے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پارٹی کو اپنے وزراءاور ارکان اسمبلی کی تو ہین اور تضحیک کا لائسنس مل گیا۔ اورا سکا مطلب یہ بھی نہیں کہ عوام کی بنیادی حاجات سے صرف نظر کیا جائے، تعلیم، صحت، روز گار کے مسائل ہزار گنا زیادہ اہم مسائل ہیں جن کی طرف ن لیگ کی حکومت نے دھیان دینے کی زحمت ہی نہیں کی۔
بڑی بحث یہ ہے کہ کیا ن لیگ کی کمزوریوں کا فائدہ تحریک انصاف اٹھا سکے گی، اس کا تجزیہ میں بعد میں کسی کالم میں پیش کروں گا مگر مختصر اشارہ کرتا ہوں کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، ن لیگ کو کوئی دوسرا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ن لیگ کو جو نقصان ہو گا خود ا سکی غلطیوں کی وجہ سے ہوگا۔
کیا ن لیگ کسی فائدے میں بھی نظر آتی ہے، بالکل نظر آتی ہے، اس کے امیدوار وہی ہیں جو ہمیشہ میدان مارتے رہے ہیں اور انہیں الیکٹ ایبل کہا جاتا ہے۔ ن لیگ کی نشستیں ضائع تو ہوںگی مگر اتنی نہیں کہ یہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی طرح سکڑ کر رہ جائے مگر سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے میں اسے کوئی نئی کامیابی ملنے کی توقع نہیں کی جا رہی، ان تینوں صوبوں میںاسے مزید نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ن لیگ کو جو کچھ ملنا ہے، وسطی پنجاب سے ملنا ہے اور یہ علاقہ اسے قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں دلا سکتا۔ یہی تلخ حقائق شہباز شریف کے پیش نظر بھی ہیں اور اسی کے پیش نظر وہ قومی حکومت بنانے اور نئے معاہدہ عمرانی کی باتیں کر رہے ہیں۔ شہباز شریف شائد فرانسیسی مفکر روسو کی طرح تاریخ میں نام پیدا کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ نواز شریف کو نیلسن منڈیلا بننے کا شوق ہے۔ پنجاب کے پانی پت میں فیصلہ ن لیگ کے جیتنے والے امیدوار نہیں آزاد پنچھی کریں گے، سیاست کے بازار میں یہی سودا مہنگے داموں بکتا ہے۔
میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ فوج کے ترجمان کی بریفنگ نشر ہونے لگی۔ میرے نزدیک اس میں سے ایک ہی نکتہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ بیرونی طاقتیں الیکشن میں مداخلت کر رہی ہیں۔ میں اس خدشے پر پہلے ایک کالم میں تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ اور مجھے اب بھی خدشہ ہے کہ اگر امریکی الیکشن کو روس سبوتاژ کر سکتا ہے تو پاکستان کس باغ کی مولی ہے۔ مصر میں مرسی کوعوام نے منتخب کیا مگر بیرونی طاقتوں نے اسے جیل میں بند کروا دیا۔ پاکستان میں محمد علی بوگرا ، معین قریشی، شوکت عزیز کو ہم عوام نے نہیں مدعو کیا تھا، اس لئے اب بھی بیرونی فیکٹر ہی فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ مجھے ن لیگ پر صرف ترس ہی آتا ہے۔