خبرنامہ

مسلم لیگ ن کا تاج صدارت شہباز شریف کے سر پر…اسد اللہ غالب

لودھراں والوں

مسلم لیگ ن کا تاج صدارت شہباز شریف کے سر پر…اسد اللہ غالب

آخر وہ لمحہ آن پہنچا جس کا سبھی کوانتظار تھا۔
شہباز شریف کو سب سے پہلی مبارکباد ان کے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف نے بغل گیر ہو کر دی۔خود شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمر بھر کی سیاست کے دوران انہوںنے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ لیں گے مگر حالات کے تقاضوں نے انہیں مجبور کیا اور قائدمسلم لیگ نے بھی قانونی فیصلوں کے سامنے سر جھکایا مگر ہم ان کے لئے انصاف کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ حق بحق دار رسید کیونکہ حق لینے والا خود کہہ رہا ہے کہ وہ یہ حق لینے کا آرزو مند نہ تھا مگر قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے نواز شریف کو اپنا منصب صدارت چھوڑنا پڑا اور کسی کو ا س منصب پر بٹھانا بھی لازمی تھا، اس لئے شہباز شریف سے زیادہ بہتر کوئی چوائس اور ہو نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے تو رائے دی تھی کہ اٹھائیس جولائی کو جب نواز شریف معزول کئے گئے تو ان کی جگہ حلقہ ایک سو بیس سے شہباز شریف کو منتخب کروا کر وزیر اعظم بنوا دیا جاتا۔عارضی عرصے میں شاہد خاقان عباسی کو ہی وزیر اعظم چن لیا جاتا ۔ شہباز شریف بطورو زیر اعظم سینیٹ کے الیکشن کی سیاست اور بلوچستان کے بحران کے چیلنج سے بہتر طور پر نبٹ سکتے تھے۔ اور اگلے عام انتخابات کے بعد اکثریت ملنے کی صورت میں وہی پھر وزیر اعظم بن جاتے۔ اب بھی شہباز شریف ہی کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ بہر حال جو پارٹی نے بہتر سمجھا ، وہی کیا۔ اور اب نئے اور مستقل فیصلے کئے جا رہے ہیں۔
شہباز شریف کے الیکشن پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، مخالفین کا یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بھائی نے بھائی کو جگہ دے دی ، شہباز شریف بھائی تو ہے مگر اس کی گورننس کے تجربے اور انداز کاکوئی ا ور شخص مسلم لیگ ن میں نہیں ہے۔پنجاب میں جس قدر ترقیاتی کام کئے گئے ہیں، وہ صرف شہباز شریف کا ویژن ہو سکتا ہے۔ شہباز اسپیڈ کو تو چینی حکومت بھی تسلیم کرتی ہے اور اب سیاسی لغت میں یہ لفظ ایک محاورے کے طور پر استعمال ہوا کرے گا۔
لاہور کی میٹرو بس ہو یاا ورنج ٹرین کا منصوبہ یا پورے صوبے میں پھیلے ہوئے بجلی کی پیدا وار کے گوناں گوںمنصوبے، یہ سب شہباز شریف کی کارکردگی کا منہ بولتا اوربین ثبوت ہیں۔ملک کا کوئی دوسرا وزیراعلیٰ بھی ان کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی لئے شہباز شریف نے میری موجودگی میںایک میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ شہباز شریف کا مقابلہ شہباز شریف سے ہی ہے۔ وہ اس شہباز شریف کا ذکر کر رہے تھے جسے نناوے میںمعزول کیا گیا تھا مگر اب جو شہباز شریف سامنے آیا ہے، ا سکا مقابلہ کرنے کے لئے میری بھی دعا ہے کہ اللہ شہباز شریف کو ہمت دے، صحت دے، زندگی دے، توانائی دے، وہ بطور وزیر اعظم معجزے رقم کر سکتے ہیں اور ان کی راہنمائی میں سی پیک اپنے عروج پر پہنچ کر پاکستان کو اس قدر خوش حال ملک بنا دے گا کہ ایک عالم کی نگاہیں خیرہ ہو کر رہ جائیں گی۔
کام تو نوازشریف نے بھی بہت کئے بلکہ موٹر وے کا خواب انہی نے دیکھا اور انہی کے ہاتھوں اس کی تکمیل بھی ہوئی۔ سی پیک کے لئے مذاکرات بھی انہی نے کئے اور شہباز شریف کو اعتماد میں لے کر کئے اور جب ضرورت پڑی تو چاروں صوبوں کے چیف منسٹرز کو چین لے جا کر سی پیک پر اتفاق رائے کے لئے قائل کیا۔ یوں چاروں صوبوں کو وہ سب کچھ مل گیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سی پیک کی مخالفت تو ان صوبوں کی طرف سے فیشن کے طور پر کی جا رہی تھی ۔ یا پھر ملک میں کچھ ایسے عناصر تھے جو بھارت کا مال بٹور کر سی پیک کی مخالفت میں دھواں دار تقریریں کر رہے تھے۔ مگر نوازشریف نے دل بڑا کر کے اور ملکی مفاد کی خاطر چاروں چیف منسٹرز کو ایک جہاز میں ساتھ بٹھایا اور چین جا کر انہیں منہ مانگی مراعات دلوائیں۔ اس اتفاق رائے میں شہباز شریف کی سوچ بھی شامل تھی۔کیونکہ وہ اس الزام کو دھونا چاہتے تھے کہ سی پیک پرصرف پنجاب نے ہاتھ صاف کیا ہے اور باقی ملک کو کچھ نہیں ملا۔مسئلہ تو یہ تھا کہ باقی صوبوں کی قیادت صرف اعتراضات کر رہی تھی، ان کے پا س کوئی منصوبہ بندی ہی نہ تھی مگر چین نے کہا کہ مانگو کیامانگتے ہو تو پھر باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے منہ سے رال ٹپکنے لگی۔
مسلم لیگ میں قائد اور صدر کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پیپلز پارٹی میں چیئر مین اور صدر کا ہے۔ قائد اور چیئر مین کے ہوتے ہوئے سارے فیصلے انہی کے ہاتھ میں ہیں، صدر صاحبان تو صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں ، نہ بیٹا باپ کے سامنے اکڑ فوں دکھا سکتا ہے، نہ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی سے کبھی سرتابی کی جرأت کی ہے تو آئندہ بھی یہی عمل جاری رہے گا۔ صرف قانونی کاغذوں پر دستخط کرنے کے لئے صدر صاحبان کو تکلیف دی جائے گی۔ایران میںبھی اصل اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں ، یہ سب کوپتہ ہے۔بس ایک سنگا پور میں الگ بات ہوئی کہ لی کوان یونے وزیر اعظم کا منصب چھوڑاا ور کابینہ میں سینیئر منسٹر کا درجہ قبول کیا تو وہ صرف سینیئر منسٹر ہی رہے، انہوںنے کسی پر اپنے فیصلے نہیں تھوپے،ہاں، کسی کو راہنمائی چاہیئے تھی تو وہ اس کے لئے دستیاب تھے۔ امریکہ میں پارٹی صدر کی وائٹ ہائوس کے سامنے دال نہیں گلتی لیکن برطانوی جمہوریت میں کوئی وزیر اعظم پارٹی پالیسیوں کے دائرے سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔بھارت میں من موہن سنگھ کی کیا مجال تھی کہ سونیا گاندھی کی نہ سنتا۔مگر پاکستان میں موقع آیا تو نواز اور شہباز ایک تال میل کے ساتھ چلتے دکھائی دیں گے۔
مجھے شہباز شریف کی مخصوص سوچ کے پیش نظر انہیں ایک مشورہ ضرور دینا ہے کہ اسوقت ان کی پارٹی کے عقابی لیڈر محاذ آرائی کی سیاست کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ عام مشہور ہے کہ شہباز شریف معتدل مزاج کے مالک ہیں اور خاص طور پر فوج کے ساتھ صلح جوئی ان کا وطیرہ رہی ہے،مگر جب ان کے بعض لیڈر عدلیہ کے خلاف بولتے ہیں تو بات کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے اور عدلیہ نے بھی اب کہہ دیا ہے کہ یہ ان کے سیاسی بیانات ہیں مگر جو لوگ فوج کو مطعون کر رہے ہیں ، اس کی کوئی منطق نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑا ہونا فوج کا آئینی فریضہ ہے ۔ خود ن لیگ نے عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کیا۔ اس لئے جب رانا ثنااللہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے تو ان کا اشارہ فوج کی طرف ہوتا ہے اور فوج کو کوئی بھی شخص خدا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ترے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے، اس میں بھی دربار کا اشارہ جی ایچ کیو کی طرف ہے جبکہ شعر میں دربار سے مراد اللہ کا دربار ہے۔ پورا شعر ملاحظہ ہو:
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
ترے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
ن لیگی لیڈر پہلے ہی ختم نبوت کے مسئلے پر مورد الزام ٹھہرائے جا رہے ہیں اور لاہور کے دینی مدرسے میں نوازشریف پر جوتا پھینکنے کے پیچھے ہر ایک کی یہی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔ مذہبی شعائر کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے میں بہتری ہے۔ فوج کے بارے میں کوئی کہے تو اس کااظہار ثبوت کے ساتھ لایا جائے، تبھی سول سو سائٹی کو آپ کی بات سمجھ میں آسکے گی۔ ویسے چالیس کے قریب صحافی گواہ ہیں کہ آرمی چیف نے ان سب کے سامنے کہاہے کہ وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ان کی ملاقات کبھی چیف جسٹس سے نہیں ہوئی تو مسلم لیگ ن کو بھی ان کی بات پر یقین کرنا چاہئے یا پھر وہ بھی اللہ ہی کو حاضر ناظر جان کر گواہی دیں کہ آرمی چیف کہاں ان کے خلاف کوئی کاروائی کرتے ہیں۔ بغیر ثبوت اس تکرار کے فیشن کو ترک کرنا ہو گا کہ سینٹ کے الیکشن میں کچھ لوگ بازو مروڑ رہے تھے یا گردن دبا کر ووٹ دینے کے لئے کہہ رہے تھے۔
فوج پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ حکومت کو دفاعی اور خارجہ پالیسی ڈکٹیٹ کرواتی ہے۔ مگر آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت کیا پالیسی بنانا چاہتی تھی ا ور فوج نے اس میں کیا تبدیلی کروائی۔
میں یہاں میڈیا کے سا منے ا ٓرمی چیف کا یہ قول بھی نقل کر رہا ہوں کہ وہ وزیراعظم کو بے حدپسند کرتے تھے۔ ان کے کہنے پر انہوںنے تین ملکوں کے دورے کئے۔اور وزیراعظم کے پیغامات بیرونی حکومتوں تک پہنچائے۔ اس طرح وہ وزیراعظم کے تمام ا حکامات بجا لائے مگر پانامہ لیکس میںانہوںنے وزیراعظم کا نام نہیں لکھوایا۔( یہاں آرمی چیف کے دو مزید ایسے ریمارکس ہیں جو میں احتیاط کے طور پر نہیں لکھ رہا)
آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایک پینل میں سے چنا گیا۔ وزیراعظم کسی کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ اس لئے یہ سمجھنا غلط ہو گاکہ وہ ان کے بندے ہیں، وہ کسی کے بندے نہیں ، صرف اپنے بندے ہیں۔
میںیہ باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ عام قارئین کو بھی فوج کی سوچ کا علم ہو جائے ورنہ چالیس صحافی ایک ایک کر کے اب تک خود ہی نواز اور شہباز کو اور اپنے حلقہ احباب کو یہ تمام گفتگو حرف بحرف سنا چکے ہوں گے ۔ ان صحافیوں میں سے کسی کا مقصد مزید غلط فہمیوں کو جنم دینا ہو سکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میاں شہباز شریف اپنی جماعت کو اس سوچ سے باہر نکالیں کہ فوج ان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ سیاسی اور انتخابی میدان میں عمران خان اور آصف زرداری کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ کے لئے کوئی اور خطرہ نہیں اور اگر مسلم لیگ ن ، فوج ہی کو اپنا مخالف سمجھتی رہی تووہ اس کبوتر کی طرح ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے یا شتر مرغ اپنا سر ریت میں دبا لیتا ہے۔ مسلم لیگ کو اپنے حقیقی مخالف کی پہچان ہو جائے تو تبھی وہ اس کا مقابلہ کر سکتی ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ یہ صفت شہباز شریف میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اپنے اصل حریفوںسے ہی مقابلے کی تیاری کریں۔