خبرنامہ

مسلم لیگ ن کے اآشیانے کو بکھرنے سے بچایئے….اسداللہ غالب

پاکستان کے استحکام کی ضمانت سیاسی جمہوری پارٹیوں کے استحکام ہی سے مل سکتی ہے۔

سینتالیس میں مسلمانان برصغیر آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد تھے اور پاکستان کے قیام کامعجزہ عمل میں آ گیا۔
ستر میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔
آج کا منظر نامہ انتہائی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شریف فیملی کو دیوار سے لگا دیا گیاہے،اس لئے ملک کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں ۔
نوعمر بلاول کہتا ہے کہ نواز شریف فون کریں گے تو نہیں سنوں گا۔
زراداری کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ملنے کی درخواست کی تو مسترد کر دوں گا۔
پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف پر بُرا وقت آیا ہے تو انہیں میثاق جمہوریت یاد آیا ہے ورنہ وہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کے لئے خود کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پیش ہو گئے تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری تو برسوں سے نواز شریف کے خون کے پیاسے ہیں۔ انہوں نے حکومت گرانے کے لئے دھرنے دیئے، ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کیا اور انگلی نہ اٹھی تو بھاگم بھاگ جی ایچ کیو میں جنرل راحیل کے پاس فریادی بن کر پہنچ گئے۔
حریف سیاستدان تو ہمیشہ موقع کی تاک میں ہوتے ہیں مگر مسلم لیگ ن کو توکم از کم اپنے گھر کی دیکھ بھال کرنی چاہئے تھی، پہلی اینٹ ڈان لیکس کی وجہ سے اکھڑی اور ایک تجربہ کار، منجھے ہوئے سیاسی لیڈر سے مسلم لیگ ن محروم ہو گئی کیونکہ کسی نامعلوم دبائو پر پرویز رشید کو کابینہ سے نکال د یا گیا، اس کے بعد یہی شاخسانہ پرنسپل آفیسر رائو تحسین اور مشیر خارجہ طارق فاطمی صاحب کو لے ڈوبا۔ کوئی کسر رہ گئی تھی تو جے آئی ٹی نے پوری کر دی۔اس میں شریف فیملی کااس طرح ٹرائل ہوا جیسے بھارتی را کے دہشت گرد حاضر سروس افسر کل بھوشن کا بھی نہیں ہوا۔
جے آئی ٹی کی کاروائی سے اندھے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ مسئلہ احتساب کا نہیں ، بس کسی بہانے نواز شریف کو نااہل کرنا ہے اورا سکے بعد پورے خاندان کو ملکی سیاست اور کاروبار سے بے دخل کرناہے، یہ سب کچھ ہو چکا، جے آئی ٹی کے بارے میں دعوے کئے گئے کہ یہ وائٹ کالر کرائم کی تفتیش میں مہارت تامہ رکھتی ہے مگر ڈیڑھ برس کی رد و قدح کے بعد شریف خاندان کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا اور نہ نام نہاد کرپشن اور منی لانڈرنگ کاایک دھیلہ تک واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کرایا جاسکا ہے، تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ احتساب کا نہیں صرف انتقام کا ہے اور یہ نیک کام پاکستان میں برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جنرل ضیا نے بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا۔ احتساب یہ ہوا کہ بھٹوکو پھانسی چڑھا دیا گیا، اس کے خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کو کوڑے مارے گئے اور ٹکٹکیوں پر چڑھایا گیا۔احتساب کا نعرہ معین قریشی نے بھی لگایا۔مگر تین ماہ کے بعد وہ جس طرح آئے تھے ، اسی طرح واپس واشنگٹن روانہ ہوگئے، احتساب کا نعرہ ملک معراج خالد نے بھی لگایا مگر ان کے سایہ عاطفت کے نیچے کرپشن کے مگر مچھ پلتے رہے۔ احتساب کا ایک بڑا نعرہ فاروق لغاری نے لگایا، گورنر ہائوس لاہور سے زرداری کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا،اس شخص پر اگلے گیارہ برس تک مقدمے چلتے رہے، مگر نہ سوئس اکاؤنٹوں کا سراغ لگایا جا سکا، نہ قیمتی ہار واپس لیا جاسکا، نہ فرانسییسی محلات کی نیلامی کی جاسکی اور نہ سرے محل کو چھونے کی کسی کو جرات ہوئی۔احتساب ہی کی خاطر جنرل مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان ا ور قریبی ساتھیوں کو قلعوں میں بند کیا، مگر پھر ایک اچھے بچے کی طرح انہیں ایک ہوائی جہاز میں بٹھا کر جدہ بھجوا دیا گیااحتساب تو جنرل کیانی کے بھائی کا بھی کرنے کااعلان ہوا مگر وہ ابھی تک کسی محتسب کے ہتھے نہیں چڑھا ، اگر کوئی ہتھے چڑھا ہے تو وہ صرف شریف خاندان ہے۔ باقی سب ڈکارتے پھرتے ہیں، کیا سیاستدان ، کیا جرنیل ، کیاجرنلسٹ، کیا صنعتکار کسی ایک کو بھی پنجرے میںبند نہیںکیا جاسکا۔ کرپشن کا کھلا کاروبار تو نیب کا ادارہ خود کر رہا ہے اور جو چند فیصد وصولی دکھاتا ہے اور باقی سب کچھ نیک پاک قانونی کما ئی قرار دے دیتا ہے۔کرپشن تو تھا نے کچہر ی، کلرک بادشاہ ہسپتال کی ڈسپنسری، گھوسٹ اسکول کی شکل میں بھی کھلے عام ہو رہی ہے ، کرپشن کو روکنے اور اس پر قابو پانے اور لوٹی دولت واپس لینے کا کسی کا ارادہ ہی نہیں ، صرف کسی بہانے نوازشریف کی حکومت توڑنی تھی، وہ ٹوٹ گئی ، اب کوئی نیا نظام لانے کی کسی نے ٹھان رکھی ہے اور حیرت یہ ہے کہ یہ کام اس دور میں ہو رہا ہے جب ٹی وی چینل لمحہ لمحہ کی کوریج ڈرون کیمروں سے کر رہے ہیں مگر جمہوریت کو اتھل پتھل کرنے والے ہاتھ ان ڈرون کیمروں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں جیسے کسی جیمنگ سسٹم نے ان کو اندھا کر دیا ہو۔
میں بار بار کہتا ہوں کہ میں مسلم لیگ ن کا رکن نہیں، اس کا ہمدرد بھی نہیں ، اس کے کسی سیل سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں مگر مجھے نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو توڑنے کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے بخیئے ادھیڑنے کا بھی ارادہ ہے، اکہتر میں ہم نے صرف ایک پارٹی کے مینڈیٹ کو روندا تھا، آج بھی ایک پارٹی کے مینڈیٹ کو ہم روند چکے ہیں مگر اس پر بس نہیں، رہی سہی سیاسی قوتوںکوکچلنے کا اندیشہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے، خدا کرے میرے اندیشے غلط ہوں اور یہ میرا وہم ہی ہو مگر مسلم لیگ ن کی حد تک تو گیم ڈھکی چھپی نہیں، جس امیدوار نے حلقہ ایک سو بیس سے ضمنی الیکشن لڑنا ہے، وہ نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز ہیں مگر وہ عین کاغذات کی منظوری کے روز ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ میڈیا ان خبروں کوہوا دے رہا ہے کہ شہباز شریف ا ور حمزہ شہباز کلثوم نواز کی الیکشن مہم سے غائب ہیں۔ اسلا م ا ٓباد میں ایک پارٹی اجلاس ہوتا ہے جس میں نواز شریف ا ور شہباز شریف دونوں نہیں گئے اور وہاں سردار یعقوب ناصر کو قائم مقام صدر بنایا گیا اور چودھری نثار نے سوال پوچھا کہ ان کا نام کس نے تجویز کیا اور اگر یہ نام جاتی امرا سے آیا ہے تو پھراسلام آباد کے اجلاس کی ضرورت کیا تھی۔ چودھری نثار اور پرویز رشید کے حوالے سے ایک بحث میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے، مسلم لیگ کے اکثر لیڈروں کے سر پر نیب کی تلوار تنی ہوئی ہے جن میں اسحق ڈار کا نام نمایاں ہے۔
عام آدمی کی زبان پر یہ بات ہے کہ عمران اور زرداری کا نمدا بھی کساجائے گا، ایسا نہ بھی ہو تو کیا مسلم لیگ ن کی جگہ زرداری یا عمران کو مل سکتی ہے، آزادانہ انتخابات میں تو ہر گز نہیں، پیپلز پارٹی کی پنجاب بیس تہہ وبالا ہو چکی ہے، اس کا جیالا اب نوازشریف کا متوالا بن چکا ہے، اس لیے پیپلز پارٹی اس صوبے سے کوئی نتائج حاصل نہیں کر سکتی، سوال یہ ہے کہ کیا صرف اندرون سندھ کی پارٹی وفاق پاکستان کاکنٹرول سنھالنے کے قابل ہے، جواب ہے ہر گز نہیں، بھٹو نے پنجاب کی بیس پر اقتدار حاصل کیا، زرداری نے پنجاب سے دو وزرائے اعظم کے سہارے ٹرم مکمل کی۔ زرداری پنجاب سے الگ تھلگ ہو کر سندھو دیش چلا سکتے ہیں، ایک زمانہ تھا جب یہ نعرہ ڈراتا تھا مگر کراچی ا ور حیدر آباد میں مہاجر ووٹ نے اس نعرے کو پنکچر کر دیا ہے۔
ان حالات میں نوازشریف پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی شیرازہ بندی پر بھر پور توجہ دیں، سینیئر قیادت کو اعتماد میں لیں، یک طرفہ فیصلوں سے گریز کریں، وہ جو فیصلے کرنا چاہتے ہیں، مشاورت سے بھی یہی کئے جا سکتے ہیں مگر سولو فلائٹ کا تاثر نہ دیا جائے ا ور پارٹی کے جو عناصر یہ گلہ کرتے ہیں کہ کیا جاتی امرا کے فیصلے نافذ ہوں گے، جواب بڑا تلخ ہے مگر ہے حقیقت پسندانہ کہ جی ہاں ! فیصلے تو جاتی امرا کے ہی چلیں گے، پیپلز پارٹی کے فیصلے بھٹو خاندان کرتا رہا، اب بلاول ہائوس کر رہا ہے، تحریک انصاف کے فیصلے بنی گالہ کے فرشتے ہی نافذ کریں گے اور جو کچھ بھی کر لیں مہاجر ووٹ کی لگام لندن میںالطاف حسین ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔ اس لئے مسلم لیگ ن کے ناراض عناصر یہ شکوہ چھوڑ دیں کہ جاتی امرا سے فیصلے کیوں آتے ہیں اور جاتی امرا کے تاجدار کو بھی آسمانوں سے نیچے اتر کر اپنے روایتی ساتھیوں اور کارکنوں کا ہاتھ تھام لینا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کا اتحاد ملک کو متحدا ور مستحکم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اکہتر میں ہم نے شیخ مجیب کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ بھگت لیا، اب ایسے کسی انجام سے پناہ مانگنی چاہئے۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکیں گے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، اندھے کو بھی سب کچھ نظر آ رہا ہے۔مگر عقل کے اندھوں کو نہیں،ان کا کیا کریں۔