خبرنامہ

مشر ف ا ور ق لیگ کو غاصب قرار دیا جائے۔۔اسداللہ غالب ۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ.. سپریم کورٹ میں پہلی بار مالی کرپشن کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے،ا سکے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہو جانا چاہئے کہ سیاسی کرپشن میں کون ملوث ہواا ورا سکی سزا کیا ہونی چاہئے۔
سیاسی کرپشن کو مہذب ممالک میں مالی کرپشن سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے ،ا سلئے کہ سیاسی کرپشن سے جمہوریت کا نام و نشان مٹ جاتا ہے ا ور ملک آمریت کے اندھیروں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
یہ خیال میرے دماغ میں کوڑے برسا رہا ہے، چند روز قبل میں نے چودھری پرویز الہی کے کارنامے گنوائے تو قارئین کی بڑی تعداد نے مجھے شب وستم کا نشانہ بنایا۔ اکثر کا کہنا تھا کہ انگریز نے بھی یہاں بہت سے کارنامے انجام دیئے، یو نیورسٹیاں بنائیں، سڑکوں کاجال بچھایا ، دنیا کا بہترین نہری نظام تشکیل دیا، ہسپتال قائم کئے ، بڑے بوڑھے آج بھی کہتے ہیں کہ وہ دور اچھا تھا مگر قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ یہ بد تریں غلامی کا نظام ہے، مسلمانان ہند اسے قبول نہیں کر سکتے اور یوں ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کر کے دم لیا۔یہ آزادی دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کے جبڑے توڑ کر حاصل کی گئی تھی،ا سکے لئے حسرت موہانی،محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ور ہزاروں دیگر مسلم رہنماؤں نے برسوں کی قیدو بند کاٹی، کئی لوگوں کو حبس عبور دریائے شور کی سزا ئیں سنائی گئیں اور وہ جلاوطن کر دیئے گئے۔ قارئین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ انگریز آقاؤں کے کارنامے گنوا نے پر فخر محسوس کریں گے، یقین مانئے اس دلیل کے سامنے میرا سر ندامت سے جھک گیا کیونکہ پرویز الہی نے جو بھی تیر مارے، ضرور مارے مگر وہ ایک غاصب کا ساتھی تھا، اس کی پارٹی ق لیگ بھی جمہوریت کو غصب کر کے اقتدار میں آئی تھی۔ظفراللہ جمالی ہوں، چودھری شجاعت ہوں یا شوکت عزیز سبھی ایک آمرا ور غاصب کے ساتھی تھے۔مشرف کسی لحاظ سے جمہوری ا ور سیاسی حکمران نہیں تھا، وہ وردی کو اپنی کھال قرار دیتا تھا ، چودھری برادران اسے وردی میں دس مرتبہ منتخب کرنے کی ڈینگ مار رہے تھے۔ مشرف نے ایک جمہوری ، منتخب اور دو تہائی سے زیادہ اکثریت رکھنے والی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ یہ آئین پاکستان کے تحت صریح غداری کا کیس تھا، اس نکتے پر کوئی بحث ہو ہی نہیں سکتی کہ ہماری عدلیہ نے کوئی نظریہ ضرورت ایجاد کر کے ان غاصب حکومتوں کو سند جواز عطا کر دی تھی، عدلیہ کے یہ فیصلے آئین کی کھلی خلاف ورزی تھے،ا سلئے جو غاصب ہے، اسے غاصب ہی سمجھنا چاہئے اور غاصب کے چیلے چانٹوں کو بھی غاصب ہی قراردینا چاہئے۔
چیف جسٹس افتخار چودھری نے این آر او کو وائڈ ایب نشو قرار دیا تھا۔ اس سے ملتا جلتا فیصلہ انہوں نے جسٹس ڈوگر کے بارے میں دیا تھا، اسی اصول پر مشرف ا ور اس کے دور کو وائڈ ایب نشو ہی کہنا چاہئے اور اس سارے دور کے اقدامات کو کوڑے کے ڈھیر کی نذر کر دینا چاہئے، ہم ایسا نہیں کریں گے تو تاریخ لا محالہ انہیں کوڑے دان میں ہی پھینکے گی۔
آئین پاکستان میں غاصب کی سزا موت ہے اور ہمیں اپنے غاصبوں کے ساتھ یہی سلوک کرنا چاہئے، کیا ترکی میں ایسا نہیں کیا جا رہا، وہاں ترک صدر اردوان نے ناکام بغاوت کے مجرموں اور ان کے ساتھیوں کو چن چن کر سزائیں سنائی ہیں۔ اور یہ لوگ سینکڑوں یا ہزاروں میں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ترک صدر اردوان نے ایسی عبرت ناک مثال قائم کی ہے کہ آئندہ کسی کو آئین توڑنے، منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے اور اقتدار غصب کرنے کی جرات نہیں ہو سکے گی۔
غاصب کا ساتھ دینے پرماضی قریب میں بھی کڑی سزاؤں کی مثالیں موجود ہیں۔فرانس میں ہٹلر کا ساتھ دینے پر جنرل ڈیگال نے مارشل پیتان پر غدارہی کا مقدمہ چلایا، یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلا، ہر چند مارشل پیتان اورا سکے وکیلوں نے یہ دلیل دی کہ ڈیگال تو ملک سے فرار ہو گیا تھا جبکہ مارشل پیتان نے ملک میں موجودرہنے کو ترجیح دی ا ور فرانیسی جھنڈا بہر حال ہٹلر کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ لہراتا رہا مگر فرانس کی عدالت نے مارشل پیتان کو غداری کا مجرم قرار دیا، ا سے پھانسی کی سزا سنائی ، مگر عمر رسیدہ ہونے کے باعث اس سزا پر عمل نہ ہوااور مارشل پیتان عمر قید کاٹتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مر گیا، اس کی قبر بھی جیل کے اندر بنائی گئی ۔یوں مرنے کے بعد بھی اس کے جسد خاکی کو مردہ حالت میں بھی قید کی سزا بھگتنا پڑی۔
مشرف تو بہر حال غداری کا مرتکب ہوا ہی تھا، اس کا ساتھ دینے میں ق لیگ بھی اسی جرم میں شریک ہو گئی اور پھر برسوں تک اس ملک میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں چودھری برادران بھی مشرف کے ساتھ شریک جرم ہی تصور کئے جائیں گے۔ویسے ان کے بزرگ چودھری ظہور الہی نے بھی ایک ا ور غاصب جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا تھا، اور جب ایک منتخب وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی کی سزا پر جنرل ضیا نے دستخط کئے تو چودھری ظہور الہی نے وہ قلم تحفے میں مانگ لیا تھا، اس واقعے کے بعد المرتضی نے انہیں ٹارگٹ کر لیا۔اور اپنا بدلہ اتار لیا۔جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی ایک کوشش چودھری پرویز الہی نے میاں نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں کی جبکہ وہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے۔اس کوشش میں وہ منہ کے بل گر گئے اور میاں صاحب کو وہ عروج نصیب ہوا کہ آج وہ ملک کے تیسری مرتبہ وزیراعظم ہیں۔اس دوران میں جنرل ڈیگال کی طرح نواز شریف نے طویل جلاوطنی کا دور کاٹا مگر چودھری بردران نے ق لیگ کھڑی کر کے اپنے قائد سے بے وفائی کا ارتکاب کیا۔اقتدار کی خاطر چودھری پرویز الہی زرداری کے ڈپٹی وزیر اعظم بھی بن بیٹھے۔ ہم لوگ نواز شریف کو الزام دیتے ہیں کہ بھارت کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ ہے مگر جب تین ماہ کے لئے چودھری شجاعت نے وزارت عظمی کا حلالہ کیا تو وہ بھارت کے متعصب ہندو لیڈر ایڈوانی کو کٹاس مندر لے کر گئے۔ق لیگ کا مطلب تو قائد اعطم لیگ لیا جاتا تھا مگر کٹاس مندر پر ایڈوانی کی آؤ بھگت پر قائد اعظم کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔ کیا کسی پاکستانی حکمران کو بابری مسجد کے کھنڈرات پر بھارتی حکومت خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔
چودھری برادران کو ذرا بھر جمہوریت عزیز ہے تو انہیں اپنے سیاسی گناہوں کی قوم سے معافی مانگنی چاہئے ورنہ ہماری عدلیہ کرپشن پر تو اپنا فیصلہ سنائے گی ہی، اس کے ساتھ قوم کے اندر یہ سوچ ضرور پیدا ہو گی کہ سیاسی اور جمہوری کرپشن کرنے والوں کا کیا حشر کیا جانا چاہئے۔
میں اپنے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ پرویز الہی کے ظاہری کارناموں پر ان کا قصیدہ لکھ مارا۔میری یہ حرکت دانشورانہ کرپشن شمار کی جا سکتی ہے جس پر میں کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔
یہ سطور تحریر کرنے سے پہلے میں نے چودھری شجاعت ، اور چودھری پرویز کا نقطہ نظر جاننے کے لئے اپنی سی کوشش کر دیکھی ہے مگر وہ فون پر نہیں آئے، اس کے باجود، وہ اگر چاہیں تو ان کا نقطہ نظر پیش کرنا میر افرض بنتا ہے۔ان کے نظریاتی ساتھی بھی اپنے دفاع کے لئے کوئی دلیل رکھتے ہوں تو میں اسے سننے کے لئے حاضر ہوں۔