خبرنامہ

مقبوضہ کشمیر میں یوم پاکستان کا ریفرنڈم…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مقبوضہ کشمیر میں یوم پاکستان کا ریفرنڈم…اسداللہ غالب

کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ دے دیا، کشمیری ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ سناتے ہیں، یوم پاکستان ہو، یوم آزادی ہو یا پاکستان کی کرکٹ ٹیم کہیں فتح پا لے خاص طور پر بھارتی کر کٹ ٹیم کو چت کر دے تو کشمیری خوشی سے لہلہا اٹھتے ہیں۔ وہ مٹھائیاں بانٹتے ہیں، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم گھروں کی چھتوں پر اور سر ی نگر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بلند کر دیتے ہیں، پورا کشمیر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔یہ ہے وہ استصواب جس کا عہد اقوام متحدہ نے کیا تھا مگر اس وعدے کی تکمیل کی اسے توفیق نہیں ہوتی، بھارت نے بھی خود استصواب کے فیصلے کو قبول کیا ، یہ اعلان نہرو نے کیا تھا۔ ستر سال بیت گئے مگر بھارت نے استصواب نہیں کروایا، اقوام متحدہ کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ الٹا بھارت یہ دعویٰ کرتا رہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بار بار یاستی الیکشن کرواتا ہے، اور کشمیری اس میں حصہ لیتے ہیں، لہذا اسی کو استصواب سمجھو، اگر یہ استصواب ہی ہوتا تو کشمیریوں کو دیوار برلن گرنے کے بعد سے اب تک چلائی جانے والی جنگ آزادی میں ایک لاکھ نوجوانوں کی شہادت دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ دن رات نعرے کیوں لگاتے ہیں ، کیا چاہیے ، آزادی، آزادی۔ وہاں برہان وانی جیسے نوجوانوں کا خون کیوں کیا جاتا ہے اور پیلٹ گولیوں سے کشمیر کے ننھے پھول جیسے بچوں کی بینائی بھی کیوں چھینی جاتی ہے۔
گزشتہ روز پاکستان نے یوم جمہوریہ منایا، اسلام ا ٓباد میں شکر پڑیاں کی نئی پریڈ گراﺅنڈ میں ایک عظیم الشا ن مظاہرہ ہوا، پاکستان کی جنگی صلاحیت کا بھر پور ڈسپلے کیا گیا، اسے دیکھنے کے لئے صرف پاکستانی شہری ہی نہ تھے، سری لنکا کے صدر بھی تھے اور بھارت سمیت ساری دنیا کے سفارتکار بھی تھے۔ہمارے تھنڈر طیاروں کی گھن گرج اور ایف سولہ طیاروں کے جھپٹنے پلٹنے کے مناظر نے سب کے دلوں کو گرمایا مگر دشمنوں پر لرزہ طاری کر دیا ، ہم نے شاہین میزائل بھی پیش کئے جو نو سو کلو میٹر سے با ئیس سو کلو میڑ تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، میں پریڈ کمانڈر ہوتا تو ایک خصوصی گاڑی پر پاکستان کے سارے ایٹم بموں کا ڈھیر بھی رکھ دیتا،۔ کسی میں ہمت ہوتی توو ہ اس طاقت کو ہتھیا کر دکھاتا، مگر ہمت کس میں ہے، آواز سے دگنی رفتار پر اڑنے والے طیارے یو ٹرن لے رہے تھے اور یکا یک زمین سے سیدھے فلک کی طرف اڑانیں بھر رہے تھے ، دس ہزار فٹ کی بلندی سے ہمارے کمانڈو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ ان میں نائیک سے لے کر میجر جنرل تک کے کمانڈو شامل تھے، کس دشمن کی مجال ہے کہ ان کے سامنے ٹھہر سکے، اسی لئے صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب میں خبر دار کیا کہ ہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے۔ پاکستان کو چیلنج کیا گیا تو وہ دشمن کو آن واحد میں موت کی نیند سلا دے گا۔
صدر ممنون حسین نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھارتی فوج کی آئے روز کی گولہ باری کو بھی شدید ہدف تنقید بنایا اور کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم پر بھی صدائے احتجاج بلند کی ، صدر نے واضح کیا کہ طاقت سے کسی قوم کو نہیں دبایا جا سکتا، نہ اس کے حق آزادی سے اغماض برتا جاسکتا ہے۔
یوم پاکستان کی تقریبات دنیا بھر میں منعقد ہوئیں ۔ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی، فرانس۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، ملائشیا اور درجنوں ممالک میں یوم پاکستان کے رنگ سجائے گئے، اور سچے جذبوں کے پھول کھلے۔
آفرین ہے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر کہ ان کے سروں پر آٹھ لاکھ بھارتی فوج سنگینیں تانے کھڑی ہے مگر کشمیر کے چپے چپے پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں کا سایہ پھیلتا چلا گیا اور وادی کے پہاڑ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے۔ اگر کشمیریوں کی رائے دیکھنی ہو کہ وہ پاکستان ا ور بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو بھارت اور پاکستان کے قومی دنوں پر کشمیریوں کے ردعمل کو دیکھ لیا جائے، ابھی چند ہفتے قبل بھارت نے یوم جمہوریہ منایا تو کشمیر میں ہو کا عالم طاری تھا۔ سڑکیں اور گلیاں اور بازار سنسان، دکانوں پر تالے اور گھروں کے کواڑ بند،ایسی ہڑتال کہ بھارت کو شرم محسوس ہونی چاہئے کہ اس کے باوجودکشمیر کو غلام بنائے رکھنے پر تلا بیٹھا ہے۔اوراس کے لئے ظلم کی آخری حدیں عبور کر رہا ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کو کشمیریوں کے فیصلے کی ستائش کرنی چاہئے اور انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو بھی کشمیر کی آزادی کے لئے کھل کر زبان کھولنی چاہئے ، وہ یہ نہ کہیں کہ اب زمینی تقاضے بدل گئے ہیں ، اڑتالیس اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ مولانا یہ بتائیں کہ اڑتالیس سے ا ٓج تک بیسیوں ملک آزاد ہوئے مگر ایک کشمیر ہی کو آزادی نہیں ملی اور دوسرے بے چارے فلسطینی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو حافظ سعید کو کشمیر کے لئے مطعون کرتی ہیں تو بھلے حافظ سعید کو چپ کرا دیا جائے مگر قائد اعظم کے اس قول کو کیسے مٹایا جا سکے گا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور قائد کے اس حکم کو کون واپس لے سکتا ہے جو انہوںنے کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے افواج پاکستان کے نام جاری کیا تھا۔ قائد کو بھی اگرہم بھول گئے ہیں تو کم از کم آ ٓج ملک میں پیپلز پارٹی تو ہے جس کے قائد بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے۔اورا س لڑائی کی تیاری کے لئے انہوںنے ایٹم بم بنانے کا ارادہ کیا اور یہ کہا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بنائیں گے۔ اسی پیپلز پارٹی کی راہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورا قتدار میں مشرقی یورپ میں تبدیلیوں کے بعد آزادی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں تو کشمیریوںنے بھی حوصلہ پکڑا اور اپنے بل بوتے پر جنگ آزادی کاا ٓغاز کیا، اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو نے کنٹرول لائن پر جا کر ایک عالم وارفتگی میں اپنا دوپٹہ ہوا میں لہرایا اور نعرہ لگایا کہ کشمیر کے لئے ا ٓزادی !آزادی !یہی اعلان حافظ سعید کرتا ہے تو اس کے دفاتر پر تالے لگا دیئے جاتے ہیں ، اس کی زبان بندی کر دی جاتی ہے، اسے دہشت گردی کی لسٹ میں شامل کر کے چندہ تک مانگنے سے روک دیا جاتا ہے ، بھئی روک دو حافظ سعید کو مگر جو اعلان قائد اعظم نے کیا ، قائد عوام نے کیا ، دختر مشرق نے کیا، اس کی پابندی اور پاسداری تو کرو اور کشمیریوں کی آزادی کے لئے حافظ سعید سے بڑھ چڑھ کر جدو جہد کرو، کشمیر صرف یوم پاکستان پر ایک تقریر سے تو آزاد نہیں کرایا جا سکتا ، نہ یوم سیاہ منانے کی تقاریب کے انعقاد سے کشمیرآزاد ہو گا ، بھارت نے طاقت کے بل پر کشمیر کو غلام بنا رکھا ہے تو کشمیر کو اس غلامی سے نکالنے کے لئے ہمیںبھی طاقت استعمال کرنا ہو گی، ہماری طاقت کس کام کی اگر یہ کشمیریوں ہی کے کام نہ آئے!