خبرنامہ

ملین مارچ اوردھرنا سیاست کے آئن اسٹائن سے مکالمہ….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ملین مارچ اوردھرنا سیاست کے آئن اسٹائن سے مکالمہ….اسداللہ غالب
امیر العظیم شش جہات شخصیت ہیں، ان کے والد محترم فضل عظیم میرے ساتھ اردو ڈائجسٹ کے ایگزیکٹو منیجر تھے مگر یکایک وہ قلم کار اور تلخیص کار بن گئے۔ صدر نکسن کی یاداداشتیں شائع ہوئیں، میںنے ان سے فرمائش کی کہ وہ مجھے یہ کتاب کہیں سے منگوا دیں۔ میں تو یہ کہہ کر بھول ہی گیا مگر مہینے بعد انہوں نے اس کی تلخیص کی کئی قسطیں اشاعت کے لئے میرے حوالے کر دیں۔ اتنی موٹی کتاب دیکھ کر ڈر لگتا تھا مگر انہوں نے اس کا ایسا خلاصہ کیا کہ امریکہ اور عالمی تاریخ کے پرت کھلتے چلے گئے۔
جیسا باپ ویسا بیٹا۔ مگر امیر العظیم والد سے دو ہاتھ آگے نکلے، میری ان سے پہلی ملاقات کوٹ لکھپت جیل کی قصوری چکی میں ہوئی، وہ وہاں بھی اسی طرح مسکرا رہے تھے جیسے آج ان سے ملیں تو وہ ایک ہلکی سی مسکان سے ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
مگر منگل کی ٹھٹھری ہوئی سہ پہر کو میں ان پر برس رہا تھا۔ میں نے ان پر فرد جرم عائد کی کہ یہ جو دھرنے اور لانگ مارچ ہو رہے ہیں، یہ سب انہی کی اختراع ہیں اور اس وقت تو ان کی وجہ سے ملک اور ریاست مفلوج ہو چکی ہے۔
امیر العظیم نے ایک قہقہہ لگایا اور جواب دیا کہ اس بد حالی کی وجہ دھرنا اور لانگ مارچ نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس سے لوگ مایوس ہو کر سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔
امیر العظیم نے پہلے ملین مارچ کا سلوگن ایسا رکھا کہ یہ زبان زد عام ہو گیا، اس پر سینکڑوں کارٹون بنائے گئے اور کالم لکھے گئے۔ یہ سلوگن آفتاب آمد دلیل آفتاب کے مصداق تھا۔ سلوگن یہ تھا کہ ظالمو! قاضی آ رہا ہے، مجھے اس پر ایک کارٹون ابھی تک یاد ہے کہ ایک باتھ روم کے باہر لکھا تھا کہ ظالمو! قاضی ابھی نہا رہا ہے۔
قاضی حسین احمد خود بھی سیماب صفت، اوپر سے امیر العظیم کی جولانی طبع، ایک کریلا، دوسرے نیم چڑھا والی کیفیت دیکھنے میں آئی، قاضی حسین احمد ایک انقلابی راہنما کے طور پر عوام کی نظروں میں مقبول ہوتے چلے گئے۔
میں نے امیر العظیم کو یاد دلایا کہ انقلاب فرانس میں عوام تو گھروں سے ضرور نکلے تو پھر یہ ناکامی پر منتج کیوں ہوا۔ دانش مند امیر العظیم نے جواب دیا کہ عوام کو قیادت میسر نہ ہو تو مطلوبہ نتائج نہیں ملتے، فرانسیسی عوام کی بھی قیادت کرنے ولا کوئی نہ تھا ا سلئے عوام مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ انہوںنے دوسری مثال دی کہ عراق جنگ کے خلاف دنیا بھر میں کروڑوں عوام سڑکوں پر آئے، ٹوکیو سے لے کر پیرس تک اور لندن سے لے کر لاس اینجلس تک سڑکوں پر سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ دنیا کا کوئی ذی ہوش اور عاقل بالغ شخص عراق پر امریکی جارحیت کے حق میں نہیں تھا مگر یہ سب لوگ ایک فرد کی حیثیت سے باہر نکلے تھے اس لئے امریکی صدر بش ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امیر العظیم نے کہا کہ بعض اوقات قیادت تو موجود ہوتی ہے مگر اس کے سامنے کوئی قابل عمل ایجنڈہ نہیں ہوتا۔ اس لئے بڑے بڑے دھرنے بھی ناکام ہو جاتے ہیں، عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بہت بڑا اور طویل ترین دھرنا دیا مگر یہ دھرنا ایک کھیل تماشے کی حیثیت اختیار کر گیا، اس میں لوگ شامل ہوئے، بڑی تعداد میں شامل ہوئے مگر دل بہلانے، ناچنے گانے اور ڈھول بجانے سے آگے ان کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا اور عمران خان بھی صرف مجمع باز ثابت ہوا۔جب وہ دھرنے کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کا اعلان کر چکا تھا تو پشاور میں بچوں کی شہادت کا المیہ پیش آگیا جس کی وجہ سے عمران خان کا دھرنا دھرا رہ گیا۔ اور عمران خان ساری چوکڑی بھول گئے اور اپناکوئی مطالبہ منوائے بغیر گھر چلے گئے، اس سے ان کے پیرو کاروںکو شدید مایوسی ہوئی۔
میں نے پوچھا کہ فیض آباد کا دھرنا کیا اس لئے کامیاب نہیں ہوا کہ اس کے پیچھے فوج تھی۔ امیرالعظیم نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ اس دھرنے کے پیچھے فوج تھی یا نہیں لیکن فرض کر لیں کہ اس دھرنے کی سر پرستی فوج کر رہی تھی تو سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ فوج کو دیوار سے کیوںلگایا گیا کہ وہ بھی جوابی اقدام کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت حکومت کے لوگ کرپٹ ہیں، عدالتیں ثابت کر سکیں یا نہ کر سکیں، اس سے قطع نظر حکومتی ٹولے کی عمومی شہرت یہی ہے کہ یہ کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے۔ عوام شاید کرپشن کو بھی برداشت کر لیں مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے اور فٹ پاتھ پر سونے والے کی چادر بھی چوری کر لی جاتی ہے اور عوام کو کسی طرح کا ریلیف نہیں ملتا تووہ اس نظام سے بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں، ان کا خون کھول اٹھتا ہے۔ اور تبدیلی کی خواہش ان کے اندر مچلنے لگتی ہے، اس وقت صرف ایک چنگاری بھڑکنے کی دیر ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بھسم ہو جائے گا۔ ان حالات میں محب وطن پارٹیاں ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہی ہیں اور ریاست کو زمین بوس ہونے سے بچانے کا فریضہ ا دا کر رہی ہیں۔ اس نظام کو تو تبدیل ہونا ہی ہے مگر ایک حکمت اور دانائی کے ساتھ، دھیرے دھیرے جیسے چشمے پہاڑوں سے ابلتے ہیں اور میدانوں میں دریائوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
میں سوال پر سوال کر رہا تھا، امیر العظیم نے تنگ آ کر کہا کہ اگر کوئی سیاست دان کسی کے کندھے استعما ل کرے اور بام عروج پر پہنچنے کے بعد اپنے محسن ہی کو آنکھیں دکھانے لگ جائے تو اس روش کو کون برداشت کرے گا۔ ہاں، اگر آپ نے کوئی فلاحی نظام تشکیل دیا ہوتا، عام آدمی کی حالت بدلی ہوتی، اس کے گھروں میں چولھے ٹھنڈے نہ ہونے دیئے ہوتے، کارخانوں کی چمنیوں کا دھواں بند نہ ہونے دیا جاتا تو پھر آپ کسی طاقتور ریاستی ادارے کے سامنے قدم جما سکتے تھے، اس کی کھلی مثال ترکی ہے جہاں طیب اردوان نے ایک میئر کی حیثیت سے عوامی خدمت کا مشن شروع کیا، وزیراعظم اور صدر بننے تک اس نے ہر ترک شہری کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیا تو جب اس کے خلاف فوج نے بغاوت کی، سڑکوں پر ٹینک دندنانے لگے، فضائوں میں ہیلی کاپٹروں کا شور ہوا ور جیٹ طیاروںنے اڑان بھر لی تو اتنی بڑی طاقت کے سامنے نہتے عوام کھڑے ہو گئے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ یہ کام صرف اردوان ہی کر سکتا تھا، اس کی سحر انگیز شخصیت ہی یہ معجزہ دکھا سکتی تھی، اور اس کے مقابلے میں وہ شخص یا ٹولہ جو فوجی گملوں کی پیداوار ہو مگر حکومت میں آ کر سوائے لوٹ مار کے وہ عام آدمی کے مصائب کی پروا نہ کرے تو اس کے لئے پھر فیض آباد نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔
کیا دینی جماعتیں ایک متعین مقصد کے تحت اکٹھی ہو کر ملک میں صحت مند اور مثبت تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ یہ میرا آخری سوال تھا۔ امیر العظیم نے کہا کہ دینی جماعتوں کی طرف لوگ ضرور دیکھتے ہیں اس لئے کہ ان کے دامن پر کرپشن کے دھبے نہیں، خاص طور پرجماعت اسلامی پر آپ نظر ڈالیں ۔ ہمارا سربراہ توامیر جماعت کہلاتا ہے مگر ذاتی زندگی میں وہ فقیر جماعت ہوتا ہے، ہماری گاڑیوں کے آگے پیچھے کلاشنکوف بردار جتھے نہیں ہوتے، اس لئے نہیں ہوتے کہ نہ ہم نے کوئی لوٹ مار کی ہے، نہ اس لوٹ مار کی حفاظت کی ہمیں کوئی فکر لاحق ہے، سراج الحق ایک درویش صفت انسان ہیں۔ باقی دینی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کا بھی یہی حال ہے، ہم ایم ایم اے کا احیا کرنے میں مصروف ہیں مگر اس کے لئے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ ملک میں ایک نظام اور استحکام تو آئے ، الیکشن آئے گا تو ہم بھی اکٹھے ہو جائیں گے اور پھر حقیقی جمہوریت کے احیا کے لئے عملی اقدامات کریں گے، وہ جمہوریت جس میں عام آدمی بھی اپنے آپ کو اقتدار میں شریک سمجھے۔