خبرنامہ

مودی نے جاتی عمرہ میں ایساکیا کھا لیا تھا۔۔اسداللہ غالب

ویسے تو مودی کے بیانات اورا سکی حرکتوں پر ہنسی ہی آتی ہے مگر یہ بھی سوچتا ہوں کی یہ بیٹھے بٹھائے اسے ہوا کیا۔ خدا نہ کرے، جب وہ جاتی عمرہ میں شادی کھانے آیا تھا تو وہاں کچھ کڑوی کسیلی چیز تو نہیں چکھ لی۔ وزیراعظم کے دسترخوان پر ایسی کوئی چیز غلطی سے بھی نہیں ہو سکتی، وہ تو انوع اقسام کی ڈشیں سجانے کی شہرت رکھتے ہیں، تو پھر ہو اکیا، شاید مودی کو یہ مزے مزے کے کھانے راس نہیں آئے یا ہضم نہیں ہوئے ، اور اس نے ہذیان بکنا شروع کر دیا ہے۔
مزاج کے لحاظ سے تو مودی ایسا ہی تھا،ا س نے گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلایا تھا، اسے ساری دنیانے دہشت گرد قرار دیا ،، امریکہ تک نے اس پر ویزہ بند کر دیا، وزارت عظمی کی مہم میں اس نے کڑوے کسیلے بیاناے دیئے، کشمیر کے بارے میں تو صاف اپنے منشور میں لکھا کہ اسے بھارت میں ضم کر لیں گے، یہ اٹوٹ انگ ہے تو بھارت ماتا کے بدن کا حصہ بنے گا۔وزیرا عظم بن کر اس نے پٹھانکوٹ کا ڈرامہ رچایااور پاکستان پر ا س کاالزام دھر دیا، کیا ستم ظریفی ہے کہ جو بھارتی افسرا س سانحے کی تحقیات پر مامور تھا،ا سے نصف شب کو شادی کی ایک تقریب سے لوٹتے قتل کر دیا،ا سکے ساتھ اس کی بیوی کی جان بھی چلی گئی۔
؂دنیا بھر کے حکمران اپنے یوم آزادی پر اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں مگر مودی نے لا ل قلعے پر کھڑے ہو کر پاکستان کو للکاراا ور بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت میں دہشت گردی تیز کرنے کی دھمکی دی۔بلوچستان تو برسوں سے جہنم بنا ہو اہے مگر یہ آزاد کشمیرا ور گلگت کو کیا ہوا، ہو سکتا ہے ،مودی کے دماغ میں کوئی طوفان پل رہا ہو جو ان خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
پاکستان کے خلاف منافرت ، تعصب اور دشمنی میں مودی نے دن رات ایک کر دیا ہے، امریکہ سے معاہدہ کر لیا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی دفاعی سہولتوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ بظاہر کہا جا رہا ہے کہ یہ معاہدہ چین کے خلاف ہے مگر آزادی کے بعد سے بھارت نے روس اور باقی ممالک سے اسلحہ چین کا ہوا دکھا کر بٹورا ورا سے استعمال، پاکستان کے خلاف ستمبر پینسٹھ میں کیا، یقین نہ آئے توانٹر نیٹ پرموجود فیلڈمارشل ایوب خان کی وہ تقریر سن لیجئے، جو اس نے بھارتی جارحیت کے روز ریڈیو پر کی تھی۔
مودی کی پروپیگنڈی مشینری کہتی ہے کہ پاکستان نے بلوچستان میں کیمیاوی اسلحہ استعمال کیا ہے،یہ وہ الزام ہے جو صدام حسین پر لگا، کرنل قذافی پر لگا، شام کے بشار الاسد پر لگا ا ور اس کی آڑ میں امریکی اور نیٹو افواج نے شام ، عراق ا ورلیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی۔
اب خیر سے مودی سرکار نے ریڈیو سے بلوچی نشریات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کامقصد بلوچستان کے عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانا ہے۔
مودی نے یہ سب کچھ کیا، وہ پاکستان کی نفرت میں اندھا ہو چکا، ابھی نجانے ا ور کیا کر گزرے ، مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس کے جواب میں کیا کر رہے ہیں۔
جواب ہے کچھ بھی نہیں، بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
نہیں، بہت کچھ کررہے ہیں، اور مودی کوتقویت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، الطاف حسین کی تقریریں دیکھ لیجئے، سانپ کے منہ میں اس قدر زہر نہیں ہوتا، جتنا الطاف حسین اپنے منہ سے اگل رہاہے، ہم جانتے ہیں کہ ایک برطانوی شہری کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے، مگر اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ برطانیہ کو ڈوسیئر بھیج دیئے۔ ہم جانتے ہیں کہ کراچی کے مصائب کا تنہا الطاف حسین ذمے دار نہیں مگر دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج یہ راگ الاپ رہی ہے کہ جب فاروق ستار نے الطاف سے ناطہ توڑ لیا تو پھر اسے موقع ملنا چاہئے۔ کیا خوب منطق ہے، ا سکا مطلب یہ ہو اکہ الطاف اکیلا، لندن میں بیٹھا کسی ریموٹ کنڑول سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا ، بھتہ کھاتا رہا، فیکٹریوں میں آگ لگاتا رہا،ا ور کراچی کو جب چاہتا بند کرتا رہا۔ یہ کون سا جادو ہے جو دنیا کے کسی اور لیڈر کے پاس نہیں۔کیا الطاف حسین کے ہاتھ میں الہ دین کا جن تھا۔
ایک الطاف پہ بس نہیں ، اچکزئی بھی خاموش نہیں رہے، انہوں نے نام تو سیکورٹی اداروں کے سربراہ کا لیا مگر کون نہیں جانتا کہ ا سوقت سیکورٹی کا سارا بوجھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے سر لے رکھا ہے۔زرداری زیادہ دلیر تھا جو اس نے براہ راست کہا کہ تم نے تین سال رہنا ہے ا ور ہم نے سدا سیاست میں رہنا ہے۔اور اب مودی سمیت بر صغیر میں سارا شورو غوغا شاید اسی وجہ سے ہے کہ جنرل راحیل جا رہا ہے، یار لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کمزور ہو چکا ،اس لئے ا س پر جتنا چاہو، برسو۔مگر یہ سوچ غلط ہے، میں بتاتا ہوں کی جب میاں نواز شریف کی حکومت توڑ دی جاتی تھی تو وہ آخری لمحات میں تین تین سو پلاٹوں کے آرڈر جاری کر دیتے تھے اور ان احکامات پر عمل ہو جاتا تھا، کیا ایک چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے ایک روز پہلے کسی کی موت کا فیصلہ سنائے تو کیا وہ لاگو نہیں ہوتا، کیا ایک سرجن اپنی نوکری کے آخری دن کسی کے دل یا دماغ کا آپریشن کرے تو کیا اس کے اوزار اس کے ہاتھ کی حرکتوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیں گے۔
مودی اور ا سکے پیادے پھنکار رہے ہیں ، انہیں مکمل آزادی ہے ،ا س لئے کہ ہم گونگے بنے بیٹھے ہیں، ہماری سرکار عمران کو بے نقط سنانے میں تو کوئی کمی نہیں چھوڑتی مگر الطاف اور مودی پر خاموش ہے۔عمران خان دھرنا دے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا جاتا ہے ا ور غیر مرئی قوتوں کو خبر دار کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو تلپٹ کرنے کی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ترکی میں لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹیں تو ہمارے وزیر اعظم ترک عوام کو سلام پیش کرتے ہیں ا ور ان کے برادر خورد ترکی جا کر یہی کلمات ارشاد فرماتے ہیں مگر یہ دونوں مودی کو کیوں نہیں للکارتے۔اور ان کے پاس تو ہیوی منیڈیٹ ہے، یہ اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر نکالیں جو مودی کو جتلائیں کہ پاکستان بے خصما نہیں ہے، مودی کے خلاف جلوس نکالنے کی ذمے داری صرف جماعت الدعوہ یا جماعت اسلامی یا دفاع پاکستان کونسل پر تو عائد نہیں ہوتی، ویسے وہ بھی شاید اس لئے خاموش ہیں کہ خود حکمران پارٹیاں جن میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی ا ور تحریک انصاف سبھی خاموش ہیں۔اچکزئی کی پارٹی بھی حکومت میں ہے، یہ بھی مودی کے خلاف خاموش ہے۔ہماری اپوزیشن اکٹھے مل کر تین ستمبر کو ایک دھرنا دینے کا پروگرام بنا رہی ہے مگر یہ مل کر مودی کو مکا دکھانے کی زحمت نہیں کرتے، بھارت کے ایک میگزین انڈیا ٹو ڈے نے جنرل راحیل کو تھپڑ دکھایا اور اس پر ہم سب خاموش رہے، یہ تھپڑ درحقیقت پاکستانی قوم کے منہ پہ تھا اور تاریخ خدا نخواستہ ثابت کرے گی کہ یہ تھپڑ ہمارے رخساروں پر رسید کیا گیا۔
کیاکوئی حکمران مسلم لیگ، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف کو خبر کرے گا کہ مودی کیا لکار رہا ہے، کس کو للکار رہا ہے، اور اس للکارکا جواب کس کو دینا ہے۔
ہم بغداد کے منطقیوں کی طرح یہ بحث کر رہے ہی کہ کوا حلال ہے یا حرام۔کیا قیامت ہے کہ ہر کوئی آف شور اکاؤنٹس میں لتھڑا ہو اہے اور ایک دوسرے کے خلاف شور مچا رہا ہے،یہ سارا شور تو مل کر مودی کے خلاف مچانے کی ضرورت ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم ایک بار پھرکسی بہانے مودی کوجاتی عمرہ مدعو کریں ا ور خود چکھ کر بعد میں اسے مزے مزے کے کھانے کھلائیں اور سمجھائیں کہ جو شور مچا رہے ہو، یہ اجتماعی خود کشی کی طرف لے جائے گا۔