خبرنامہ

مہا بھارت کا جشن تخت نشینی، پاکستان بھارت کا پالتو نہیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مہا بھارت کا جشن تخت نشینی، پاکستان بھارت کا پالتو نہیں

نریندر مودی نے پیر کے روز ہونے والی اپنی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہوں کو اس انداز میں مدعو کیا ہے جیسے وہ سب مہا بھارت کے باجگزار ہوں۔ بھارت میں آج تک جتنے بھی وزرائے اعظم آئے، ان کی تقاریب حلف برداری میں کبھی کسی غیر ملکی سربراہ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ گزشتہ برس خطے میں پہلی بارنواز شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی حلف برداری کے موقع پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ ضرور تشریف لائیں۔ مگر بھارتی وزیراعظم جانتے تھے کہ وہ پاکستان کے لیئے امریکی صدر بش کے برطانوی پوڈل ٹونی بلیئر کی سی حیثیت نہیں رکھتے، اس لیئے وہ نہ آئے تو کیا بھارت کے نئے وزیراعظم نے سمجھ لیا ہے کہ سارک کے سربراہان حکومت ان کے پالتو ہیں جو دم ہلاتے ہوئے اس شہنشاہ کی تخت نشینی کا نظارہ کرنے کے لیئے کشاں کشاں نئی دہلی پہنچ جائیں گے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے مودی سے کہا تھا کہ وہ ان کے ملک کو بھی اپنا گھر ہی سمجھیں لیکن اب تک جس ایک لیڈر نے مودی کی دعوت کو مسترد کیا ہے، وہ یہی حسینہ واجد ہے جس کا عذر یہ ہے کہ وہ ان دنوں جاپان کے دورے پر ہوں گی۔ اور سب سے پہلے جس حکمران نے اس دعوت پر آمنا وصدقنا کہا ہے وہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی ہیں جن کی مدت صدارت صرف اس لیے طول پکڑ گئی ہے کہ نئے صدر کے الیکشن کاعمل ابھی ادھورا ہے۔
سفارتی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اصل میں تویہ دعوت نواز شریف کے لیئے ہے مگر اسے سارک کے مخملیں سات پردوں میں اس لیئے لپیٹا گیا ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ کو دھوکا دیا جا سکے۔ اگر صرف نواز شریف کو مدعو کیا جاتا تو پاکستان کے عوام وا بگہ فصیل بن کر کھڑے ہوجاتے اور اپنے وزیراعظم کا راستہ روک لیتے۔
لیکن نواز شریف اب بھی نئی دہلی نہیں جاسکتے بشرطیکہ انہیں یہ احساس ہو جائے کہ انہیں بھارت کے وزیر اعظم کی تقریب میں مدعو نہیں کیا جا رہا بلکہ مہا بھارت کے جشن تخت نشینی میں شرکت کا بلاوا آیا ہے۔ نریندر مودی سمجھتا ہے کہ اس نے حالیہ الیکشن میں ہندوا تا کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے اور وہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے رکن کے طور پر اس دیرینہ خواب کی تکمیل کرنا چاہتا ہے کہ خطے میں مہا بھارت کا علم لہرادیا جائے۔ ہندو بھارت کے اسی خناس کا مقابلہ کرنے کے لیے سارک کی بنیادرکھی گئی تھی۔ اور اب اسی سارک کو نریندر مودی نے اپنا باجگزار تصور کر لیا ہے۔ اگر اسے عزت افزائی مطلوب تھی تو وہ امریکی صدر اوبامہ کو بلاتا مگر اس نے اپنے اردگرد کے ان ممالک کے سربراہوں کو طلبی کا حکم نامہ جاری کیا ہے جیسے وہ ان کو مہا بھارت کا طفیلی اورپٹھو سمجھتاہے۔ بھارت کے اپنے سفارتی ماہرین نے بھی سارک حکمرانوں کو مدعو کرنے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کو جب اس اقدام کے لیے کہا گیا تو وہ بھی سٹپٹا کر رہ گئی کہ ایساتو بھارتی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تادم تقریر بھارتی وزارت خارجہ کو اس امر کا یقین نہیں ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اس تقریب میں شریک ہوسکیں گے۔ پورے بھارتی پریس نے مودی کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ جب کنٹرول لائن پر جھڑپیں ہورہی تھیں تو اس نے من موہن سنگھ حکومت کو ان الفاظ میں للکارا تھا کہ ہمارے فوجیوں کے سرکٹ رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم کے سر میں پاکستانی چکن بریانی کی خوشبور چی بسی ہے۔
نریندر مودی ایک انتہا پسند ہندو ہے، وہ راشٹریہ سیوک سنگھ کارکن رکین ہے۔ ہندو کی ذہنیت نے مسلمان کے وجود کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ وہ انہیں ملیچھ اور اچھوت سے بھی بد تر درجہ دیتا ہے۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے لیئے بار بار فسادات کا راستہ اختیار کیا۔ مسلمانوں نے اپنے فلسفہ حیات کی حفاظت کے لیئے الگ ملک پاکستان بنا لیا تو روز اول سے اس کا جینا دوبھر کر دیا گیا، جونا گڑھ اور حیدر آباد پر بزور طاقت قبضہ جما لیا گیا اور کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیئے بھی فوج کشی کی گئی۔ پینسٹھ میں بھی پاکستان کو ننگی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا اور اکہتر میں بھارتی فوج نے جارحیت سے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ باقی ماندہ پاکستان کے بارے میں سونیا گاندھی کا خیال ہے کہ اسے ثقافتی محاذ پر سرنڈر پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ نئے وزیراعظم نریندر مودی نے علاقائی لیڈروں کو جو دعوت نامہ بھیجا ہے اس میں بھارت کے ساتھ وسیع تر معاشی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف پہلے ہی بھارت پرفریفتہ ہیں اور واہگہ بارڈرکو کھول کر تجارتی ٹرکوں کی دن رات قطاریں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ وہ تو مودی کی تجارتی تعلقات کی دعوت کو تہ دل سے قبول کریں گے۔ پاکستان کے تاجروں کا بھی کوئی دین ایمان نہیں، وہ تو مال کمانے سے غرض رکھتے ہیں، پاکستانی مال بیچ کر کمائیں یا بھارتی مال۔
نریندر مودی نے ایک دعوت نامے کے تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ دھوکا دے رہا ہے کہ وزیراعظم کے طور پر وہ ایک تبدیل شدہ شخص ہے، وہ نرم گفتار ہے صلح جو ہے، انتہا پسند ہیں، سفاک نہیں قصاب نہیں، مسلمانوں کا لہو پینے والا نہیں۔ ہمسایہ ما لک کو تاراج کرنے کی خواہش نہیں رکھتا، سازش نہیں کرتا ان سے دوستی اور قربت کے تعلقات قائم کرے گا۔ یہ وہی پالیسی ہے جو چھ عشروں سے کانگریس کی رہی ہے کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام مگر اب مودی نے بھی اسی منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اس نے تو امن کی بانسری بجانی شروع کر دی ہے۔ مگر اس بانسری کی تان پر کون نا چے گا۔ مودی کے اس سفاک تبصرے کوکون بھول سکتا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا اسے ہزاروں مسلمانوں کا خون کرنے پر کوئی پشیمانی نہیں تو اسنے جواب میں کہا تھا کہ گاڑی چلاتے ہوئے آپ کتے کو کچل دیں تو کیا اس پر پشیمان ہوتے رہیں گے۔
اسٹیفن کو ہن سے میں سن دو ہزار میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن میں ملا تھا۔ بظاہر شیریں زبان مگر ز ہر میں گھلا ہوا لہجہ۔ اس نے کہا ہے کہ نواز شریف کو اس کی فوج اجازت دے گی تو وہ بھارت جا پائے گا، میں کہتا ہوں کہ فوج تو بعد کی بات ہے، پوری پاکستانی قوم اپنے وزیراعظم سے کہ رہی ہے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے وزیراعظم ہیں، واحد مسلمان ایٹمی طاقت، دنیا میں ساتویں ایٹمی طاقت، وہ بھارت کے نئے وزیر اعظم کے پالتو نہ بنیں، اپنا اور اپنے ملک کا وقار ملحوظ رکھیں اور مودی کی دعوت پر تھوک دیں۔ (24 مئی 2014ء)