خبرنامہ

میاں جی ادب کے رکھو

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میاں جی ادب کے رکھو

اتوار کی صبح بھارتی وزیراعظم سے ناشتے کی میز پر ملاقات کے موقع پر میرا ایک ہی پیغام ہے کہ میاں یا اپنے آپ کو ایک ایٹمی طاقت کے سربراہ سمجھیں۔ یہ ملاقات ہماری نہیں، بھارت کی ضرورت ہے۔ اس نے میں ہر طرح سے آزما کے دیکھ لیا۔
من موہن جی کئی الزامات دہرائیں گے ممبئی کا قصہ بھی چھیڑیں گے اور جموں میں حالیہ فدائی حملے کارونا بھی روئیں گے۔ حافظ محمدسعید کا سرمانگیں گے اور آئی ایس آئی کے جبر کی دہائی دیں گے۔ آپ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش کرنے والے کرنل پروہت اور سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کو پاکستان کے حوالے کر دیں تا کہ ان پر مقدمات چلائے جا سکیں اور جو اعترافات اب تک وہ خود کر چکے ہیں، ان کی روشنی میں انہیں قرار واقعی سزادی جائے۔
جموں فدائی حملے کے ڈرامے کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیے کہ ادھر من موہن سنگھ کا جہاز ائیر انڈیا ون عازم پرواز ہوا، ادھر تین فدائی، کشمیر کی ایک چھاؤنی میں گھس گئے۔ اگر اس میں کشمیریوں کا ذرا بھی کردار ہوتا تو فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر من موہن یہ نہ کہتے کہ کچھ بھی ہو جائے، وہ امن مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم ذرا بھی غیرت اور حمیت کے مالک نہیں کہ ان کے تین فوجیوں سمیت بارہ افراد کو ہلاک کر دیا جائے اور وہ پھر بھی امن کی آشا سے سرشار دکھائی دیں۔
چند ہفتے پیچھے چلتے ہیں،کشمیر کی کنٹرول لائن پر ایک مبینہ جھڑپ میں پانچ بھارتی فوجی قتل ہوئے، ان کی موت پر بھارت میں کہرام مچ گیا، اپوزیشن تو خیر بی جے پی کے انتہا پسند ہاتھوں میں ہے خود کانگرس کے نوجوانوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کا گھیراؤ کرلیا۔ بھارت کی پارلیمنٹ میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگے۔ مگر یہ سب کچھ من موہن جی کیوں بھول گئے، انہوں نے اپنے فوجیوں کے خون سے غداری کیوں کی، یہ سوال ہے تو ٹیڑھا مگر اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ جب من موہن جی کو پتا ہو کہ یہ سب بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا تو وہ جعلی غیرت اور حمیت کے چکر میں کیسے پڑتے۔ یہ ڈرامے محض پاکستان کو بدنام کرنے کے لیئے تھے۔ اور پاکستان کے اندر بھارتی شردھالوں میں پیسہ بانٹ کر پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے تھے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک بھارتی فوجی کا سربھی کاٹا گیا۔ اس پر بھی بھارت میں بہت کہرام مچا تھا مگرمن موہن جی اسے بھی بھول گئے، کیسے، کیوں۔ اس لیئے کہ سب ناٹک تھا بھارت کا اپنارچایا ہوا۔
بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیئے سو سو جتن کیے۔ کبھی نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر حملہ کبھی سری نگر کی اسمبلی پر حملہ کبھی بھارتی طیارے کا اغواء اور غصے میں، بچھڑے ہوئے سانڈ کی طرح پاکستان پر جارحانہ یلغار کی خواہش پوری کرنے کی بار بار کوشش، اور بار بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ انیس سوستاسی کے اوائل میں اس کی فوجوں نے جنگی مشقوں کی آڑ میں پاکستان کی سرحد کا رخ کیا، جنرل ضیاالحق نے بھارت کے ایک کرکٹ میچ میں راجیو گاندھی کے کان میں اتنا کہا کہ مہاراج سوچ سمجھ کر گولی چلائیں، ہم ایٹم بم تیار کر چکے ہیں۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارت ساری چوکڑی بھول گیا اور اس کی فوجوں نے چھاؤنیوں کی راہ لی ممبئی سانحے کے بعد بھارت نے سوچا کہ اسے بھی امریکہ کی طرح سرجیکل اسٹرائیک کا حق حاصل ہے، اس سے قبل کہ اس کے بمبار طیارے کوئی کارروائی کر پاتے، پاک فضائیہ کے سرفروشوں نے چوبیس گھنٹے فضائی نگرانی شروع کر دی۔ اور ظاہر ہے یہ خالی ہاتھ نہیں تھے۔ بھارت کو بھی علم تھا کہ ان جہازوں میں کونسا اسلحہ ہے۔ اور اس نے ایک بار پھر امن کی آشا کا جھنڈا بلند کر دیا۔
بھارت اپنے آپ کو علاقے کی منی سپر پاور بنانا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہے کہ اس کے اردگرد سارے ملک، سکم اور بھوٹان کی طرح اس کی تابعداری کریں۔ مگر اس کے ان مذموم ارادوں کی تکمیل کی راہ میں ایک ملک جس کا نام پاکستان ہے مملکت خداداد، حائل ہے۔
امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے۔ اس نے نائن الیون کی آڑ میں افغانستان کو تاراج کیا، یہاں اپنی فوجیں اتار دیں، اس کے ساتھ پچاس دیگر ممالک کا لشکر بھی تھا، کیا ان کی منزل واقعی افغانستان کے بنجر، بے آب و گیاہ پہاڑ اور اس کی پتھر یلی وادیاں تھیں۔ ہرگز نہیں، اس نے جنگ کا تھیٹر افغانستان کے بجائے پاکستان کو بنایا اس پر ڈرون حملے ہوئے، اس کے شہر شب خونریزی کی گئی، جب یہ سطور لکھ رہوں ہوں تو پشاور کے نزدیک پھر دہشت گردی کی واردات ہوگئی ہے، نواز شریف امریکی دورے پر روانہ ہوئے تو ایک مسیحی عبادت گاہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، نواز شریف ذرانہیں گھبرائے، اس لیئے کہ انہیں علم تھا کہ ان کے پیچھے کون ہے اور پاکستان کو جھکا ناکس کامشن ہے۔ نواز شریف تان کر امریکہ اترے۔ انہوں نے امریکی صدر سے ہاتھ ملانے کے لیئے کسی بے تابی کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ اوبامہ کے کھانے میں نہیں گئے، ایرانی صدربھی وہاں نہیں گئے، ان کے پاس تو یہ بہانہ تھا کہ اس کھانے میں شراب بھی پیش کی جارہی ہے مگر نواز شریف کو جو اعتراضات ہو سکتے تھے، وہ زبان پرنہیں آ سکتے تھے، ان کا تو صرف ایک مخصوص رویئے سے ہی جواب دیا جا سکتا تھا،نواز شریف نے ایسا ہی کیا۔ اب انہیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری دورے کی باقاعدہ دعوت دے چکے ہیں۔ نواز شریف اس کے لیئے کوئی تڑپ ذنہیں رہے تھے۔ یہ دورہ اکتوبر میں ہوگا باقی ماندہ مدت میں دونوں ملک ڈاک بہت تیزی سے بھی نکالیں تو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی تقرری عمل میں نہیں آسکتی، نواز شریف نے ابھی وزیر خارجہ بھی نہیں لگایا اور اگر وہ کچھ عرصہ مزید حالات کو اسی طرح چلنے دیں تو پاکستان کو تر نوالہ کا ایک علامت سمجھنے والوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
نواز شریف کے سامنے اکڑ کر چلنے کی کئی اور مثالیں بھی ہیں۔ شام کے بشارالاسد کے خلاف اڑھائی برس سے شورش جاری ہے، امریکہ نے اسے براہ راست جارحیت کی دھمکی بھی دی مگر امریکہ کے دانے مک گئے ہیں، سلامتی کونسل شام کے خلاف ایک قرار داد منظور کر کے امریکہ کی عزت بچانے کو کوشش کررہی ہے۔ اس قرارداد کی خلاف ورزی پر شام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی۔ اسی امریکہ کو اسلامی جمہور یہ ایران نے بھی لوہے کے چنے چبوا دیئے۔ ایران شروع سے کہہ رہا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنانا چاہتا، کوئی اس موقف کو قبول کرنے کو تیارنہیں تھامگر اب نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے اسی اعلان پر یقین کرنا امریکہ کی مجبوری بن گیا ہے۔
میاں جی! تھوڑے لکھے کو بو ہتا جانیں اور دب کے رکھیں، پاکستان اللہ کی نعمت ہے، اس نے ایٹمی قوت سے نوازا ہے۔ اب نہ کسی سے ڈریں، نہ کسی کے سامنے جکھیں، نہ کسی سے ڈکٹیشن لیں، یہی تھا آپ کانعرہ اس پرعمل کا وقت آ گیا۔(28 ستمبر 2013ء)