خبرنامہ

میاں جی تو میاں جی، عمران خان سبحان اللہ!

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میاں جی تو میاں جی، عمران خان سبحان اللہ!

ہماری سیاسی قیادت الا ماشاء اللہ ایسے لگتی ہے جیسے بھارت یا امریکی روبوٹ فیکٹریوں سے تیار ہو کر آئی ہو، کیا شان ہے کہ جس کسی کو چند ووٹ مل جاتے ہیں، وہ کترینہ کیف اور جوہی چاولہ کی زبان کی چاشنی اور ان کے حسن کے جلووں سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔
عمران خان نے بھاشن دیا ہے کہ پاک بھارت سرحد پر دونوں ملکوں کو ایٹمی بجلی تیار کرنے کی فیکٹری لگانی چاہئے کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کو بات چیت سے حل کرنا چاہیے، پاکستان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ممبئی حملوں کے مجرموں کو سزا نہ دلوانا چاہتا ہو ایسے نیک خیالات کسی کرکٹر کے دماغ ہی میں آسکتے ہیں یا فیکٹریاں چلانے والے کسی سیاستدان کو، پتانہیں حضرت قائد اعظم نے پاکستان بناتے ہوئے حضرت نواز شریف اور چھکہ مار عمران خان سے مشورہ کیوں نہ کر لیا۔ ان میں سے ایک صاحب ویز افری سرحد چاہتے ہیں اور دوسرے صاحب مشتر کہ اپنی فیکٹری لگانے کے لیئے پر تول رہے ہیں، کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے سردخانے کی نذر کر دینا چاہتے ہیں لیکن ممبئی سانحے کے مجرموں کو ترت سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جو اس بات پر ناز کرتی ہے کہ ان کے بزرگ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کے بزرگوں کا وزن تحریک پاکستان کے دوران کس پلڑے میں تھا، اس پر تحقیق کے بعد ہی کوئی رائے دی جاسکتی ہے۔ میاں صاحبان نے تو بھارت سے ہجرت کا غم غلط کرنے کیلئے اپنا جاتی عمرہ، رائے ونڈ کے نواح میں آباد کر لیا۔ عمران کو بھی چاہئے کہ وہ نیوکلیئر ری ایکٹر تو بعد میں لگائیں، پہلے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کوچ بن جائیں تاکہ یہ ٹیم دنیا میں اپنا جاہ و جلال قائم رکھ سکے۔ کشمیرکی آزادی کیلئے انہیں فکر مند رہنے کی ضرورت نہیں، اس مسئلے کو ہم برسوں سے سرد خانے کی نذر کر چکے، کم از کم واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد تو ہم کشمیر کا نام نہیں لے سکتے۔ اور رہے ممبئی حملے کے مجرم تو پہلے عمران کو ان کے نام لینے چاہئیں اور ان کے خلاف پاکستان میں نئے سرے سے پرچہ درج کروانے چاہئیں، انکی پارٹی میں ایک سے ایک بڑھ کر وکیل ہے۔ ان میں سے کسی کی خدمات حاصل کریں تا کہ وہ اسے یہ بتائیں کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھارتی ڈوسیر ان کیمرہ پیش کیا گیا، حافظ سعید کے وکلاء کو بھی کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا، پھر بھی لاہور ہائی کورٹ نے بھارتی الزامات کو مسترد کر دیا، عمران کو اپنے وکلا سے بھی پتا چل جائے گا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی، وہاں بھی حافظ سعید کو بری کردیا گیا۔ اب عمران خان کن ملزموں کو سزا دلوانے کی بات کرتے ہیں۔
کوئی دن آئے گا جب بھارت میں سے کوئی شخص ممبئی سانحے کا پول کھول دے گا کہ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالی گاؤں قتل عام کی وارداتوں کی طرح یہ سانحہ بھی خود بھارت کا خانہ ساز ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ نائن الیون کی کارستانی کا الزام سی آئی اے کے کندھوں پر رکھتے ہیں، وہ بھی حملوں کی واردات کو آنکھیں بند کر کے پاکستانی ایجنسیوں اور ان کے کارندوں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ اگر امریکہ غیر معتبر ہے تو بھارت کیسے قابل اعتبار ٹھہرا۔
پاکستانی قوم حیران اور پریشان ہے کہ اسے کچھ سیاسی قیادت کب نصیب ہوگی جو پاکستانی مفادات کے مطابق زبان کھولے گی اور ہز ماسٹر وائس بن کر نہیں رہ جائے گی۔ آج کے فیس بک کی پیداوار بچوں کو قائد ملت خان لیاقت علی خان کا وہ مکہ کیسے یاد ہوگا جو انہوں نے بھارتی وزیراعظم نہر کو دکھایا تھا، نئی نسل کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ جو لاہور کے اردگرد بی آر بی بہتی ہے اسے کس نے اور کیوں کھدوایا تھا، اور آج کے بچوں کو کیا معلوم ہے کہ شہر لاہور پر مورچے کس نے تعمیر کروائے۔ ان میں سے ایک مورچہ میاں عامر محمود کے کالجوں کے سامنے مسلم ٹاؤن انڈر پاس بناتے وقت بڑی بڑی کرینوں کی مدد سے توڑا گیا۔ ان دنوں اخباروں میں میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کا تذکرہ ہوا، ان کے حوالے سے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا بھی ذکر ہوا، چند دنوں بعد میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر کا تذکرہ پڑھنے کو ملے گا۔ یہ کون لوگ تھے، انہوں نے کس مقصد کی خاطر جانیں قربان کیں، وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ جہاں انہوں نے اپنا لہو بہایا، وہاں پاک بھارت مشتر کہ سول نیوکلیر فیکٹریاں لگیں گی، اور دونوں طرف کے لوگ ویزے کی پابندیوں سے آزادگھومیں گے تو ان کی روح کو تکلیف پہنچتی ہوگی، کیا دنیا کی دوسری قومیں اپنے وار ویٹرنز کو اسی انداز میں خراج تحسین پیش کرتی ہیں، عمران خان اگلی مرتبہ واشنگٹن جائیں تو آرلنگٹن وار میمویل پر جا کر دیکھیں کہ امریکی قوم اپنے جنگی ہیروز کوکس عقیدت سے یاد کرتی ہے۔ اور ان کی روحوں کے سامنے کیسے سر جھکاتی ہے۔
عمران خان نے آج مشتر کہ سول نیوکلئیر پلانٹ کی تجویز دے دی، کل کو ان کی مبارک زبان پر یہ تجویز ہو گی کہ دونوں ملکوں کا ایٹمی اسلحہ ایک جگہ ڈھیر کر دیا جائے اور اس کی مشتر کہ کمان تشکیل دے دی جائے، ہوسکتا ہے وہ ایک مشترکہ دفاعی چیف کے تقرر کی تجویز ہی دے ڈالیں، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ عمران خان کو کچھ توجہ ان مشتر کہ فیکٹریوں پر بھی کرنی چاہئے جو ان کی پارٹی کے زیرحکومت صوبے کی سرحد کے آر پار قائم ہیں اور ان میں سے بعض کا کنٹرول مشترک ہاتھوں میں ہے۔
دی گریٹ خان نے مسلمانوں کا خون پینے والے نریندر مودی کو اگلے بھارتی وزیراعظم کے طور پرخوش آمدید کہا ہے۔ انہوں نے دلیل یہ دی ہے کہ بھارت جس کومنتخب کرے وہ ہمارے لیئے سر آنکھوں پر انہوں نے یاد دلایا ہے کہ بی جے پی کے ایک سابق وزیراعظم واجپائی نے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے لیئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس دلیل کے تحت عمران خان کا فرض یہ تھا کہ وہ اگلے چند ماہ بھارت میں قیام فرماتے اور خون آشام بلانریندر مودی کے حق میں انتخابی مہم چلاتے تا کہ اس کی کامیابی شک وشبہے سے بالاتر ہو جائے۔ ظاہر ہے مودی کے آنے سے واجپائی جی والا دوستی کا دور واپس آجائے گا اور دونوں طرف امن کی حامی قوتیں جو چاہے کر گزریں گیں۔ سرحد کو ویزا فری کر لیں یا مشترکہ ایٹمی بجلی پلانٹ لگالیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بھارت کے سلسلے میں ن لیگ اورتحر یک انصاف کی قیادت ایک دوسرے کے ہم زباں کیسے ہوگئی، ویسے تو وہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو دوڑتی ہیں لیکن بھارت کا مسئلہ آتا ہے توریشہ خطمی ہو جاتی ہیں اور دونوں گنگاجمنا کی طرح ایک دوسرے میں مدغم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
میاں نواز شریف خوش ہوں گے کہ انہیں اپوزیشن لیڈر تو ملا مگر زرداری کی طرح نفس اور مک مکا والا۔ ایسے اونچے نصیبوں والا وزیراعظم۔ اس کی قسمت پر رشک آتا ہے۔(9وسمبر 2013ء)