خبرنامہ

میرا سلطان کے حرم کی نئی کنیز

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میرا سلطان کے حرم کی نئی کنیز

پاکستانیوں نے میرا سلطان کی قسطیں دیکھیں، اس قدر دل کو بھا گئیں کہ جھٹ ہم نے میرا سلطان کے حرم کی کنیز کا کردار اپنا لیا۔ اب میرا سلطان اور کنیز، ایک دوسرے کے کوچے کے طواف میں مصروف ہیں۔ حضوری باغ میں عشوہ و ادانے نگاہیں خیرہ کر دیں۔ اور تماشا دیکھنے والے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ ایک زمانے میں خلافت کے احیا کے لیئے مولا نامحمد علی، مولانا شوکت علی اور بی اماں نے سیاسی جدوجہد کی، خلافت کی بالادستی کے لیے ہمارے ہاں ایک نوجوان نوید چودھری بھی تحریک چلارہے ہیں جس پر قانون کی رو سے پابندی عائد ہے مگر عملی طور پر اس تنظیم کے بینرز ہرگلی کوچے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پتا نہیں، ان میں سے کسی کی جدوجہد ثمربار ثابت ہوئی، پاکستان کئی لحاظ سے خلافت عثمانی کا حصہ بن چکا۔
عمران خان کی برسوں سے ایک ہی کوشش ہے کہ نیٹوسپلائی کا راستہ روک دیا جائے مگر جس روز میرا سلطان کا پاکستان میں درود مسعود ہوا، عمران خان نے نیٹوکنٹینروں کو ذہن سے نکال دیا اور اچانک مہنگائی کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیا۔ کس کو پتا نہیں کہ افغانستان پر قابض نیٹومما لک میں تر کی بھی شامل ہے۔ اور اگلے برس کے آخر میں امریکی اور دیگر نیٹوممالک کی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی مگر ترک افواج استعمار کی باقیات کے طور پر مزید تین برس یہاں قیام کا ارادہ رکھتی ہیں۔ عمران خان بہت سیانا ہے، اس نے میرا سلطان کی خوشیوں میں کھنڈت نہیں ڈالی۔ اسرائیل کی ریاست فلسطینی مسلمانوں کی مقبوضہ زمینوں پر قائم کی گئی، اسرائیل نے محفوظ سرحدوں کے نظریے کے تحت اردن، لبنان، شام اور مصر کے مزید علاقوں پر قبضہ جمایا فلسطینی دنیا بھر کے مہاجر کیمپوں میں رلنے لگے اور پھر فلسطین کا مسئلہ اس حد تک سکڑ گیا کہ ان بے چارے مہاجروں کو بھی کہیں رہنے کا حق ملنا چاہئے، یہ حق ایک یونین کونسل کی سطح کے اختیارات کی مالک فلسطینی ریاست تک محدود کر دیا گیا۔ ترکی نے اس مسئلے کو مزید محدود کرنے کے لیے ایک بحری کشتی روانہ کرنے کا اعلان کیا جس میں فلسطینی بچوں کے لیئے دودھ کے فیڈر اور ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ کر مرنے والوں کے لیئے دواؤں کی تھیلیاں تھیں، اس بحری کشتی کی مہم کوعالمی میڈیا میں ترکوں کی بہادری اور دلیری کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسرائیل نے اس کشتی پر چند فائر کر کے اسے عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا، اس روز سے فلسطین کا مسئلہ اب کسی ریاست کا حصول نہیں، بلکہ ایک یونین کونسل کے بھوکے بچوں اور بیمار انسانوں کی بقا تک محدود کر دیا گیا، آزا فلسطین کے حصول کا خناس عالم اسلام کے ذہنوں سے نکال دیا گیا، میرا سلطان کے اس عظیم کارنامے نے اسے امریکی اور صہیونی رابی کا لاڈلا بنادیا۔
پاکستان پرکاٹھی ڈالنے کا شوق بھارت کو تو روز اول ہی سے لاحق ہے مگر ڈاکٹر مجید نظامی جیسے نظریاتی سپاہ سالار کے سامنے بھارت کی دال نہیں گلتی، یہ دیکھ کر عالی شاطروں نے میرا سلطان کو آگے کر دیا، اس کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ داؤ کام کر گیا ہے اور پاکستان اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ مشرف پر کیا اعتراض ہے کہ اس نے پاکستان کو امریکہ کی باندی بنا دیا اور اس نے اپنی افواج امریکی جنگ میں جھونک دیں۔ تر کی تو امریکی غلامی میں دو چار ہاتھ آگے ہے، پاک فوج کو اپنی سرحدوں کے اندرا یک جنگ لڑ رہی ہے مگر ترکی کی افواج عالمی محاذ پر امریکی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، وہ افغانستان کے اندر اس ملک کے حقیقی حکمران طالبان کے خلاف جنگ کر رہی ہیں۔ پاک فوج نے ابھی تک یہ حرکت نہیں کی۔ ترک فوج نے امریکی اشارے پرشام میں باغیوں کی مدد کے لیے اپنے ٹینک بھی چڑھائے اور فضائیہ بھی جھونک دی۔ بشار الااسد نے ترک ٹینکوں کا بھی بھرکس نکال دیا اور ترک جیٹ طیاروں کو بھی میزائلوں سے مارگرایا، پاکستان نے تو شام میں جا کر یہ گناہ نہیں کیا، ہم پھر بھی میرا سلطان کے وارے نیارے جارہے ہیں، اس کے گن گارہے ہیں، مشرف کو پھانسی پرلٹکانے کے مطالبے ہو رہے ہیں اور معزز مہمان اردوان کا ریڈ کارپٹ استقبال ہورہا ہے۔ امریکہ جو کام بھارت کے ذریعہ نہیں کر سکا، وہ ترکی کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ ہم میں سے کسی کو وار آن ٹیرر میں ترکی کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں۔ پاکستانی رائے عامہ اس حد تک تو نیوٹرلائز ہوگئی۔ میرا سلطان سے ہم کئی اور بھی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس نے جمہوریت کو مضبوط بنایا ہے، اپنے جرنیلوں پرمقدسے چلائے ہیں۔ ہم نے ابھی اس کام کی ابتدا کی ہے میرا سلطان کی راہنمائی میسر رہی تو ہم جمہوریت دشمنوں سے پورا پورا حساب لے لیں گے۔ میرا سلطان کے ملک نے تو قبروں سے لاشیں نکال کر پھانسیاں دیں، شاید ہم بھی ایسا کر سکیں۔
میرا سلطان نے ہماری مدد کے لیئے ایک بحری جہاز بھیجا جس سے بجلی پیدا ہوناتھی، اب یہ راز تو خواجہ آصف ہی کھول سکتے ہیں کہ اس جہاز سے بجلی کیوں نہیں نکلی لیکن میرا سلطان کی میٹرو بس لاہور میں فراٹے بھر رہی ہے، ہم نے اس کے لیئے ایک سڑک کو دن رات ایک کر کے چوڑا کیا، پھر اس کو جنگلہ لگا کر بند کیا، اپنی بسیں اور دیگنیں اس روٹ سے ہٹالیں، اس کے بعد بھی میٹروبس فراٹے نہ بھرتی تو کیا کرتی۔ اگر ہم کسی اور کو بھی اسی طرح کی کاروباری فضا فراہم کر دیں تو یقینی طور پر ساری دنیا پاکستان کا رخ کرے گی، اس کی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار کو جکڑ دیں اور بیرونی سرمایہ کارکو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کریں،نوٹی حکومت نے پچھلے دور میں یہی خدمت ڈائیوو کے لئے انجام دی، اسے لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے بنا کر دی، اسے بھی جنگلے میں بند کیا، اور اس پر ڈائیوونے کھل کر تجارت کی۔ پاکستان کے کس بل نکالنے کے لیے بھارت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، جبکہ تر کی یہی کام ہنستے مسکراتے، ناچتے گاتے انجام دیتا ہے۔ بھارت اور ترکی کا مشن ایک ہی ہے۔ پاکستان کو براہ راست نہیں تو بالواسط امریکی غلامی میں جکڑ دیا جائے، بھارت نے ثقافتی یلغار کر رکھی ہے اور ترکی نے تجارتی کرشمہ دکھایا ہے۔ بھارت اور ترکی جو کچھ چاہتے ہیں، ہمارے قومی لیڈر، زرداری نواز اور عمران بھی وہی چاہتے ہیں،فوج کا ایٹمی ڈنگ نکال دیا جائے، برصغیر کو یورپی ماڈل بنا کرویز افری بنا دیا جائے۔ کشمیر کو پس پشت چیک دیا جائے۔ قائد اعظم اور اقبال کی تعلیمات اور ان کے عظیم کردار کوفراموش کر دیا جائے۔ اس لیے ہماری جمہوری منتخب حکومت نے یوم قائد پرقوم کو ایک ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا تحفہ پیش کیا ہے۔ یہ مسیحی بھائیوں کے لیئے کرسمس گفٹ بھی ہے۔
میں دل کی گہرائیوں سے اردوان کے دورے کا خیر مقدم کرتا ہوں، ہم سب کو ان کے دورے پرطمانیت کا اظہار کرنا چاہئے، ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے اور میرا سلطان کا اقبال بلندر ہے۔ کنیز یہی دعا کر سکتی ہے۔ (26 دسمبر 2013ء)