خبرنامہ

میرے شہید الگ تیرے شہید الگ….. اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پہلے تو ہمارے وزیراعظم نے پارلیمنٹ ہاﺅس میںکسی جگہ یادگار شہدا پر پھول چڑھائے، پھر انڈونیشی صدر تشریف لائے تو انہیں بھی اس یادگار پر لے جایا گیا اور پھولوں کی چادر ان سے بھی چڑھوائی گئی۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ ان شہدا کی یاد گار ہے جو جمہوریت کی جدوجہد میں جان سے گزر گئے۔

میںنے ایک بھارتی ٹی وی پر ان کے یوم جمہوریہ کا منظر دیکھا، بھارتی صدر نے پریڈ شروع ہونے سے قبل امر شہید کی یاد گار پر پھول چڑھا کر یوم جمہوریہ کی تقریبات کا آغاز کیا۔ ٹی وی پر کمنٹری کرنے والے ایک بریگیڈیئر صاحب تھے جنہوںنے بتایا کہ اس جگہ ان شہدا کی یاد گار قائم کی گئی ہے جو افغان جنگ میں کام آئے، کوئی ایک لاکھ کے لشکر نے چڑھائی کی تھی جس میں سے ستر ہزار تو وہیں کھیت رہے، صرف تیس ہزار بچ بچا کر واپس آئے اور جو ستر ہزار مارے گئے، ان کے انجام سے بھی کوئی آگاہ نہیں تھا کہ ان کی لاشیں اور ہڈیاں کہاں گئیں چنانچہ ان سب کو گمنام شہیدوں کی فہرست میں درج کر دیا گیا، ان کے نام انڈیا گیٹ پر کندہ ہیں، بھارتی شہدا کی فہرست یہاں پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ یہ شاید انگریز سرکار نے تعمیر کی تھی۔ کومنٹری کرنے والے بریگیڈیئر نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ ہمیشہ کیا جاتا ہے کہ پینسٹھ، اکہتر اور کارگل کے شہدا کے ناموں کا بھی اس یادگار میں اضافہ کیا جائے مگر سرکار سنتی ہی نہیں، مطالبہ تو یہ ہے کہ ان کی الگ سے یادگار بنے اور بھارتی صدر بھلے اس کا سنگ بنیاد ہی رکھ دیں تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس پر کام ہوتا رہے مگر اس مطالبے کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
اگر میں یہ پریڈ نہ دیکھتا تو میرے لئے یہ نکتہ سمجھنا مشکل ہوتا کہ بھارت میں فوج اور ا س کے شہد اکے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ویسے تو پریڈ میں بھارتی صدر نے ایک کارپورل کو بعد از مرگ بہادری کاسب سے بڑا اعزاز بھی عطا کیا جو پچھلے دنوں کشمیر میں مجاہدین کے ساتھ ایک ٹاکرے میںمارا گیا۔ بھارتی سرکار اپنے فوجیوں کو لڑنے مرنے کے لئے بہادری کے تمغے تو دیتی ہے مگر ان کی یادگار قائم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔
پاکستان میں اب تک جتنے بھی غیر ملکی مہمان آتے رہے یا ہماری کوئی حکومتی شخصیت جی ایچ کیو کے دورے پر جاتی ہے تو وہاں ایک یادگار شہدا قائم ہے جس پر بڑی عقیدت سے پھول چڑھائے جاتے ہیں،۔ مجھے ایک تصویر یاد آ رہی ہے جس میں جان کیری نے اس یادگار شہدا پر پھول نچھاور کئے تھے۔
دنیا بھر میں شہدا کی یاد گاریں قائم ہیںا ور قومی سطح پر صرف اسی ایک یادگار پر ہی غیر ملکی مہمانوں کو لے جایا جاتا ہے جہاں وہ پھول چڑھاتے ہیں ۔
پاکستان میں اب شہدا کی دو یادگاریں بن گئی ہیں اور مستقبل میں نہیںمعلوم کہ کوئی غیر ملکی یا ملکی مہمان جی ایچ کیو کا بھی رخ کر پائے گا یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ نہیں کیونکہ اس کام کے لئے پارلیمنٹ نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ یادگار تعمیر کر لی ہے۔
فوجی شہدا پر یہ تنازعہ نہیں ہوتا کہ وہ کس پارٹی کے شہید ہیں یا کس کے نہیں، وہ قوم کے ہیرو ہوتے ہیں جو اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ اس لئے ان پر کوئی تنازعہ کیسا مگر یارو! ضرب عضب شروع ہونے سے قبل ہم نے فوجی شہدا کو بھی متنازعہ بنا دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ڈرون حملے میں کتا بھی مر جائے تو وہ شہید ہو گا۔ منور حسن نے کہا کہ امریکی جنگ لڑتے ہوئے ہمارا کوئی فوجی جاں بحق ہو جائے توا سے شہید نہیں مانیں گے، اس پر فوج نے مطالبہ کیا کہ جماعت اپنے بیان پر معذرت کرے مگر جماعت نے معذرت سے انکار کر دیا۔اور معاملہ اس سے آ ٓگے تنازعے کی شکل اختیار نہ کر سکا۔
اب جب کہ صدر ٹرمپ اور ان کے ہر اعلی ا ور ادنی اہل کار نے پاکستان کو جھوٹاا ور دغا باز کہا تو ہماری غیرت جاگی اور ہم نے من حیث القوم کہا کہ ہم اب تک امریکی جنگ ہی لڑتے رہے ہیں اور اب ہمیں اس سے نکل جانا چاہئے کیونکہ اس رزق سے موت ا چھی جس سے پرواز میں کوتاہی آئے۔
مگر جمہوریت کے شہیدوں کے لئے بھی کوئی متفقہ بیانیہ سامنے نہیں آیا، ہر پارٹی کے اپنے شہید ہیں جنہیں دوسری پارٹیاں شہید تسلیم نہیں کرتیں، پیپلز پارٹی بھٹو کو شہید کہتی ہے مگر باقی ملک انہیں ایک قاتل سمجھتاہے جسے احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے جرم میں ملوث ہونے پر پھانسی دی گئی، کچھ لوگ عدالت کے اس فیصلے کو قبول نہیں کرتے مگر اسی عدلیہ کے نواز شریف کے خلاف فیصلے پر بغلیں بجاتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی دوسری شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں مگر ان کی پارٹی ان کی شہادت کے بعد پانچ سال تک اقتدار میں رہی جس نے محترمہ کے قاتل کا کھوج لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی، اس طرح یہ شہادت بھی مشکوک ہو جاتی ہے اور کچھ لوگ اسے قتل عمد سے تعبیر کرتے ہیں پیپلزپارٹی ہی کے تیسرے شہید مرتضیٰ بھٹو ہیں جو اپنی بہن بے نظیر کے دورا قتدار میں ایک پولیس مقابلے میںمارے گئے، کیا ستم ظریفی ہے کہ بہن نے اپنے بھائی کے قاتل کو پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی، پیپلز پارٹی کے ایک شہید شاہ نواز بھٹو ہیں جو کسی سیاسی جدو جہد کا حصہ نہیں تھے اور فرانس میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ ان کی موت کی تحقیقات کے لئے پییلز پارٹی نے فرانس میں کیا تگ و دو کی، میں تو اس سے آگاہ نہیں ہوں، قارئیں میں سے کسی کے پا س معلومات ہوں تو ضرو ر مطلع فرمائیں۔
جمہوریت کی راہ میں پہلا شہید اسی ملک کا ایک وزیراعظم خان لیاقت علی خان تھا مگر قوم نے اس کی کیا قدر کی اورا سکے قاتل کا سراغ لگانے میں کیا دلچسپی لی۔
جمہوریت کی راہ میں شہید ہونےوالوں میں مجھے وہ تین نوجوان یاد آتے ہیں جو تحریک نظام مصطفی کے دوران بیڈن روڈ چوک اور داتا دربار چوک میں شہید ہوئے، انہیں بھٹو کی ایف ایس ایف نے گولیاںماریں یا فوج نے…. اس کا کبھی کھوج نہیں لگایا گیا مگر یہ امر طے ہے کہ یہ نوجوان بھٹو کی طرف سے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے اور سچی اور کھری جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد کر رہے تھے۔
جمہوریت کے لئے شہید ہونا اور ملکی سلامتی کے لئے شہد ہونا ایک ا عزاز کی بات ہے مگر وہ لاکھوں لوگ جو اس ملک کے قیام کی راہ میں شہید ہوئے۔ انہیں تقسیم ہند کے بعد اپنے پاک وطن تک پہنچنے ہی نہ دیا گیااور راستے ہی میں انہیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا، خواتیں کی عصمتیں لوٹی گئیں اور معصوم شیر خوار بچوں کو کر پانوں کی نوک پر اچھالا گیا، ان کی ایک یادگار قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس کا ایک ڈھانچہ بھی والٹن میں باب پاکستان کے نام سے کھڑا کیاگیا جو زمانے کی دست برد کا شکار ہو رہا ہے اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ہم نے من حیث القوم اپنے ان شہیدوں کو فراموش کر دیا، اس ملک میں جمہوریت کے شہیدوں کی یادگار تعمیر تو کر دی گئی ہے مگر یہ شہید کون ہیں، ان کے نام کیا ہیں۔ یہ کس پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، انہیں کس نے شہید کیا ، اس کا بھی تو کوئی پتہ چلے۔
٭٭٭٭٭