خبرنامہ

میڈیا ٹرائل یا عدالتی ٹرائل۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
پانامہ گیٹ کا مقدمہ کہاں طے ہو گا، عدالت میں یا میڈیا میں۔
آج مجھے میڈیا سے کچھ عرض کرنا ہے۔
جب عمران خان سڑکوں پر نکلا تھا،ا س نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا تو پھر میڈیا کے بڑ ے حصے نے اعتراض کیاا ور تجویز پیش کی کہ کرپشن کا ٖفیصلہ سڑکوں ، گلیوں، بازاروں اور موٹرویز پر نہیں ،عدالت میں ہونا چاہئے اور اب جبکہ عدالت نے اس کی سماعت شروع کر دی ہے تو کیا معزز جج صاحبان میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑیں ، وکیلوں کے سامنے ہاتھ جوڑیں اوردونوں طرف کے سیاسی ترجمانوں کے سامنے ہاتھ جوڑیں کہ بابا! معاف کرو ، جج ہم ہیں ، تم میں سے کوئی جج نہیں، فیصلہ آ جائے گا تو ا س پرمناسب تبصرہ کرنا آپ کا حق ہے، پھر سارے شوق پورے کر لیجیئے گا، ایک دوسرے کے لتے بھی لے لیجئے گا۔
مگر عدالت کسی کی منت سماجت نہیں کر سکتی اور اگر وہ حکم سنا دے تو اعتراض ہو گا کہ زبان بندی کر دی گئی ہے اور آزادی صحافت کو اورآزادی اظہار کو کچلا گیا ہے،اس پر قدغن عائد کی گئی ہے۔پیمرا کا فرض تھا کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کرتا، اپنا فرض پہچانتا، سی پی این ای کا فرض تھا کہ وہ لکھنے والوں کو لگام ڈالتی، کوئی صحافتی ضابطہ اخلاق مرتب کرتی، پریس کمیشن کاہے کو بنا ہے ، یہ خاموش تماشائی ہے، جب ڈان لیکس کا مسئلہ آیا تو اس پریس کمیشن کی رگ خود اختیاری پھڑکی تھی کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی انکوائری کمیشن یا کمیٹی کیوں تشکیل دی گئی ہے، چودھری نثار کون ہوتے ہیں ۔ اور جسٹس عامر رضا کون ہوتے ہیں اس کی شنوائی کرنے والے، اب سپریم کورٹ میں ملک کی مقتدر تریں اور معتبر تریں شخصیات پر مقدمہ چل رہا ہے،چل نہیں رہا،ا س کی تیاری ہو رہی ہے مگر اس کے بارے میں سارے فیصلے عدالت سے نکل کر وکلا صاحبان سنا رہے ہیں ،کوئی کسر رہ جاتی ہے تو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک شور قیامت برپا ہو جاتا ہے، کوئی اپنی تاریخ پیدائش کو بھی نہیں دیکھتا، اپنی ڈگریوں پر بھی نظر نہیں ڈالتا، اپنے تجربے کا موازنہ بھی نہیں کرتا، لیکن ہر کوئی جج بن کے بیٹھ جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے پہلے فیصلہ سنا دے، کیاان حالات میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو سکتے ہیں، کیا وہ اپنے ذہن سے فیصلہ کر سکتے ہیں،کیا وہ اپنے تجربے کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔میرا جواب ہے نہیں۔اس لئے میری مؤدبانہ گزارش ہے فریقین کے وکلا سے، فریقین کے سیاسی ترجمانوں سے ا ور فریق بننے والے اینکرز اور تجزیہ کاروں سے کہ وہ ا س شوق سے باز رہیں، ورنہ اس ملک میں کبھی انصاف نہیں ہو سکے گا، بلکہ انصاف کا خون ہوتا رہے گا۔اور جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا ، وہ معاشرہ ا پنی آزادی ، اپنی خود مختاری اور اپنا اقتدارا علی کھو بیٹھتا ہے، ایسا معاشرہ جنگل کے قانون کی مثال ہے جس کی لاٹھی، اس کی بھینس ، پھر عمران خان ہو یا کوئی اور ایرا، وغیرہ خان، وہ میڈیا کو بھی موقع نہیں دے گا اور عوامی طاقت، دھونس، ڈنڈے، ملین مارچ اور لاک ڈاؤن سے اپنے فیصلے تھوپے گا۔میڈیا کے دروازوں پر بھی تالے لگا دے گا۔ نہیں ، نہیں خدا ایسا وقت نہ لائے،ا سلئے خدا را ! احتیاط، خدا را حتیاط!
میں میڈیا کو ا سکی کمزوری کے بارے میں ضرور آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔زرداری کے پانچ برسوں میں اس نے ہر تین ماہ بعد حکومت جانے کی پیش گوئیاں فرمائیں،کیا ان میں سے کوئی ایک بھی پوری ہو ئی، کیا میڈیا زرداری کو پانچ سال سے پہلے گھر بھجوا سکا، کیا میڈیا ریمنڈ ڈیوس کو کوٹ لکھپت جیل میں بند رکھنے میں کامیاب ہو سکا، کیا میڈیا کیر ی لوگر بل کے کسی شوشے تک کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہو سکا اور کیا یہ میڈیا میمو گیٹ میں کسی کا بال تک بیکا کرنے میں کامیاب ہو سکا۔
مجھے اپنے میڈیا کی کامیابی عزیز ہے، کہ میں اس کاحصہ ہوں لیکن مجھے اس میڈیا کی کمزوریوں کا علم ہے، ا سکی طاقت کا اندازہ ہے۔
ملکی میڈیا امریکی میڈیا سے تو زیادہ مؤثر نہیں، زیادہ بڑا بھی نہیں، زیادہ طرے خان نہیں،کیا امریکی میڈیا ٹرمپ کو شکست دلوا سکا، کیا امریکی میڈیا ہیلری کلنٹن کو جتوا سکا،کیا ٹرمپ کی جیت پر امریکی میڈیا کو سانپ نہیں سونگھ گیا تھا، کیا امریکی میڈیا کے ٹائیکون انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور نہیں ہو گئے تھے، کیاا مریکی میڈیا ، حیران و ششدر نہیں رہ گیا تھا۔
تو عبرت پکڑنی چاہئے اور ہمارے میڈیا کو اپنی حدودقیود کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرنی چاہیئے، اس میڈیا کے سامنے ایک ہی مثال ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے نکسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا مگر جناب! واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹروں نے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیا تھا، الزامات کو دہرانے پرا کتفا نہیں کیا تھا، صرف تجزیوں کی بین نہیں بجائی تھی، اور چیخ چیخ کر آسمان سر پہ نہیں اٹھایا تھا ۔ انہوں نے ایک سیاسی پارٹی کے دفتر کی جاسوسی کے الزام کو ثابت کرنے کی ذمے داری صرف اس سیاسی پارٹی پر نہیں ڈالی تھی بلکہ یہ کڑا فریضہ خود انجام دیا تھا، کڑی سے کڑی ملائی تھی، ایک ایک کردار کو ننگا کیا تھا، پیسہ کس نے دیا، کس بنک کے ذریعے دیا اوراس پیسے کو جس نے استعمال کیا، اسی کو جاسوسی میں ملوث بھی دکھایا اورا سکے ڈانڈے وائٹ ہاؤس سے ملائے ، آج ہمارا میڈیا کہہ رہا ہے کہ عمران خان الزام لگا رہا ہے تو ثبوت وہ لائے، کوئی کہہ رہا ہے بار ثبوت ملزم فریق پر ہے تو کیا یہ گردان کرنا ہی میڈیا کافریضہ ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ میڈیا اب تک سارے ثبوت عوام کے سامنے پیش کر چکا ہوتا یا یہ ثابت کر دکھاتا کہ سبھی الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں، بھائی، کسی نے اپنے حصے کا کام تو کیا نہیں مگر بنے بیٹھے ہیں منصف اور جج۔ کیا بدقستی ہے کہ ہمارے میڈیا کو تفتیشی رپورٹنگ کا سبق ہی بھول گیا۔
خدا را!ْ عدالت کو اپنا کام آزادانہ طور پر کرنے دیجیئے،اسے دباؤ کا شکار نہ بنایئے، اس کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کیجئے، اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کیجئے، پانامہ کے ساتھ انصاف عدالت کر دکھائے گی۔
مجھے بر ا لگا جب ایک معزز جج نے کہا ہے کہ اخبار میں وت اگلے روز پکوڑے بکتے ہیں، مجھیاو ر برا لگے گا جب کوئی جج ٹی وی چینلز کے بارے میں بھی ایسے ویسے ریمارکس دے ڈالے گا تو کیوں نہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔
پانامہ لیکس اگر ثبوت ہوتا تو عدالت کب کا فیصلہ سنا چکی ہوتی، پانامہ لیکس کو پایہ ثبوت تک پہنچانا یاا سے جھٹلانا،ہمارے میڈیا کا فرض بنتا تھا۔
کیا ہم میں سے کسی نے یہ فرض ادا کیا۔