خبرنامہ

میں نے خلائی مخلوق کا سراغ لگا لیا….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میں نے خلائی مخلوق کا سراغ لگا لیا….اسد اللہ غالب

میاں نواز شریف نے شاید جگت کسی کہ اگلے الیکشن خلائی مخلوق کروائے گی۔ اس سے ایک بحث چھڑگئی کہ یہ خلائی مخلوق کیا بلا ہے۔ظاہر ہے سبھی انگلیاں فوج کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔ ہم سویلین کا جب بھی دماغ گھوم جائے تو ساری غلطیوں اور کوتاہیوں کے لئے فوج کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں، فوج ایک آسان ہدف ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے بول نہیں سکتی۔ وہ ایک ہی زبان بول سکتی ہے اور وہ ہے گولی کی زبان مگر یہ زبان صرف دشمنوں کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ میں نے فوج کی طرف داری کر دی۔ وہ تو میںنے کرنا ہی تھی مگر سوال اپنی جگہ پر ہے کہ پھر خلائی مخلوق سے کیا مراد ہے۔ یہ جو یکم جولائی کو پٹرول کا ایٹم بم چلا تو مجھے فوری پتہ چل گیا کہ نگران حکومت ہی خلائی مخلوق ہے۔ میںحلفیہ کہتا ہوں کہ اگر نگرانوں میں سے کوئی ایک بھی اس زمین کا باشندہ ہوتا تو ملک کے عوام کے ساتھ یہ بدترین سلوک روا نہ رکھتا۔ نگرانوں نے پٹرول بم ایک ماہ میں دو مرتبہ چلایا۔ یوں چلایا جیسے وہ خود کسی بم پروف زمین دوز بنکر میں بیٹھے ہوں اور اس نادر شاہی حکم سے ان کی زندگیوںمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ملکہ فرانس نے پوچھا تھا کہ لوگ جلوس کیوں نکال رہے ہیں ، انہیں بتایا گیا کہ وہ بھوکے ہیں اور روٹی دستیاب نہیں ہے ، ملکہ نے معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ وہ کیک کھائیں،پیسٹری کھائیں۔ آئس کریم کھائیں اور بھوک مٹا لیں۔بھٹو کو اوکاڑہ کے ایک جلسے میںجوتے دکھائے گئے۔ بھٹو بڑا چالاک تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ جوتے عید کی وجہ سے مہنگے ہو گئے ہیں۔ بھٹو کا نواسا اپنے نانا سے زیادہ ہوشیار نکلا۔ اس نے دیکھا کہ سابق حکمرانوں اور لوٹوں کو گلی بازاروں میں جوتے اور ڈنڈے پڑ رہے ہیں اور خود اس کی گاڑی لیاری کے جیالوں کے پتھراﺅ کی زد میں آئی توا س نے جھٹ پٹ بوسے لینے والا اسکواڈ کھڑا کر لیا، اب پی پی پی کا جلسہ ہوتا ہے تو لوگ بے اختیار ہو کر کبھی بلاول کا بوسہ لیتے ہیں اور کبھی خورشید شاہ کا۔ مگر بلاول کو پتہ نہیں کہ بھٹو کے لئے پانی پیرس سے آنے والی فلائٹوںکے ذریعے منگوایا جاتا تھا۔ ہمارے ہر چھوٹے بڑے حکمران کا علاج بیرون ملک ہوتا ہے۔ ان کے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں جبکہ غریب کا بچہ ٹاٹ اسکول میں جانے کے لئے مجبور ہے۔ حکمرانوں کی اولاد کے محلات بیرون ملک ہیں ، ان کا بزنس باہر کے ملکوںمیں ہے۔بیرونی بنک ان کے اکاﺅنٹوں سے لبا لب بھرے پڑے ہیں۔ ان حالات میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ صرف نگران حکومت ہی نہیں ، ہمارا ہر حکمران خلائی مخلوق کا سگا رشتے دار ہے۔ میںنے کسی سے سنا ہے کہ نگران وزیر اعظم ناصر الملک نے حکم دیا ہے کہ کسی کے لئے پی ایم ہاﺅس میں کھانا نہیں پکے گا، سب اپنے گھروں سے کھا کر آئیں۔ قائد اعظم سے ایک میٹنگ میں کہا گیا کہ چائے تو منگوا لی جائے توقائد نے جواب میں پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کو گھر سے چائے نہیں ملتی۔میرا خیال ہے کہ منتخب حکمران پھر بھی کسی نہ کسی کے سامنے جواب دہ ہیں مگر یہ نگران واقعی خلا سے نازل ہوئے ہیں ،ان سے کوئی جواب نہیں مانگ سکتا،کلرکوں کی ایک تنظیم ہوا کرتی تھی ، وہ بات بے بات ہڑتال کیا کرتی تھی، اب وہ بھی خاموش ہے ۔ ۔وکیلوںنے جسٹس افتخار کے نکلنے پر مہینوں تک اودھم مچایا تھا مگر اب عام آدمی مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے ، کیا مجال کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ الیکشن میں کئی امیدوار ٹکٹ نہ ملنے پر رونا دھونا کر رہے ہیں مگر ان کے ضمیر نے بھی عام آدمی پر اس بڑے جبر و ستم پر لعنت ملامت نہیں کی۔ملک میں کوئی ایک تبادلہ ہو جاتا تھا تو لوگ ٹربیونل کا رخ کرتے تھے مگر نگران حکومت نے افسر شاہی کے وسیع پیمانے پر تبادلے کر دیئے اور کسی ملازم میں ہمت نہیں کہ کسی عدالت میں داد فریاد کر سکے۔ ابھی تو نگران حکومت دو ماہ کے لئے آئی ہے اور اس نے اس قدر اکھاڑ پچھاڑ کر دی ہے ، اسے سال دو سال اور مل جائیں تو یہ ساری افسر شاہی کے تبادلے کر کے اسے افغانستان یا نیپال میں بھجوا دیتی۔ نگرانوں کا رعب افسر شاہی ہی پر چلتا ہے سواس نے چلا لیا اور ایسا چلایا کہ ہا ہا کار مچ گئی۔نواز شریف کی منتخب حکومت بے چاری سندھ کے ایک آئی جی پولیس کو بدلنے سے قاصر تھی۔ آئی جی تو بڑی توپ چیز ہے، ایک راﺅ انوار ہی کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔بڑی طفل تسلی دی گئی تھی کہ نگرانوںنے تو آرام سے بیٹھنا ہی ہے، کچھ کرنا ورنا تو ہے نہیں ، اس لئے جو بھی آ جائے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ نگران ہیں یا اصلی حکمران کہ انہوں نے عوام کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ہے۔میںخوش ہوا کہ میرے ایک دوست وزیر اطلاعات بن گئے ہیں ، میںخود کو بھی وزیر اطلاعات سمجھ بیٹھا تھا مگر جیسے ہی انہوںنے حلف لیا، مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ نگران اتنے بڑے فیصلے کر رہے ہیں کہ سیکورٹی ایڈوائزر کو نکال باہر کیا ہے۔ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ کو بھی چلتا کر دیا ہے۔ نگرانوں کی دست برد سے کوئی محفوظ ہے تو وہ ہیں صدر مملکت اور چار صوبوںکے گورنرز۔ کیا معلوم کسی شب کسی کو خواب میں القا ہو کہ ان پانچوں کو نکالے بغیر الیکشن کے مثبت نتائج نہیں نکل سکتے اور ان کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے۔ آخر جنرل مشرف بھی زیادہ دیر تک صدر تارڑ کو برداشت نہیں کر سکے تھے۔ ان دنوںکئی فیصلے خوابوں کے نتیجے میں ہو رہے ہیں۔ووٹنگ کے ٹائم میں ایک گھنٹے کا اضافہ اسی میرٹ پر کیا گیا ہے۔ خواب تو تین گھنٹے کے اضافے کا تھا۔ ٹکٹوں کے حصول کے لئے بھی ایک دن کی توسیع کی گئی۔تحریک انصاف بڑی مشکل میں تھی کہ وہ ڈھیر سارے امیدواروں کے ٹکٹوں کا فیصلہ بسرعت تمام کیسے کرتی، چلئے اس کی سہولت کے لئے اسے ایک دن اور مل گیا۔ نگران حکومت جس کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے کہ آخر وہ خلائی مخلوق ٹھہری۔ اور تحریک انصاف والے بھی کسی خلائی مخلوق سے کم تو نہیں ہیں۔ان کااور نگرانوں کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے۔ واہ ! سبحان اللہ!!