خبرنامہ

میں نے علی ڈار کی تعریف کیوں کی!۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ…علی ڈار ایک اوورسیز پاکستانی ہے۔لاکھوں کی تعداد میں اوورسیز پاکستانی تلاش روزگار میں اپنے پیارے وطن سے دور زندگی کے سردو گرم تھپیڑے کھانے پر مجبور ہیں ، ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہے۔وہ نہ صرف اپنی روزی روٹی کماتا ہے بلکہ وطن عزیز کے وقار میں بھی ا ضافے کا سبب بنتا ہے۔اوور سیز پاکستانیوں کو ملک کے اند ر اور باہر مشکلات ہی مشکلات در پیش ہیں ۔ پنجاب حکومت نے ان کی دستگیری کے لئے ایک خصوصی فاؤنڈیشن قائم کی ہے جسے کیپٹن شاہین بٹ چلا رہے ہیں، وفاقی سطح پر بھی اسی طرز کا ایک ادارہ اورو زارت پہلے سے موجود ہے، ہر اوور سیز پاکستانی کی اپنی ایک کہانی ہے، کوئی المئے سے دوچار ہے ا ور کسی نے نیاشاہنامہ تخلیق کیا ہوتاہے۔
علی ڈار پہلا اوور سیز پاکستانی نہیں، نہ آخری جس کی میں نے تعریف کی ہے، یہ سلسلہ گوجرانوا لہ کے موضع مان سے تعلق رکھنے والے بشیر مان سے شروع ہوا ، وہ بیرون وطن پہلے پاکستانی ہیں جنہیں مقامی بلدیاتی ا دارے میں منتخب ہونے کاا عزاز ملا۔ ان کے انتخاب پر اسکاٹش اخبارات نے سیاہ حاشیوں میں خبریں شائع کیں۔بشیر مان گلاسگو کی سٹی کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے، یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ پھر ایک لمبی قطار لگ گئی اور برطانیہ کے مختلف شہروں اورقصبوں میں پاکستانیوں نے اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر بلدیاتی اداروں کے الیکشن جیتے، ان میں سے اکثر ان اداروں کے میئر اور ڈپٹی میئر بھی بنے۔میں یہاں گلاسگو ہی کے شوکت بٹ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، وہ فلیٹس کے ایک کونے میں دکان چلاتا تھا مگر سٹی کونسل کے رکن کے طور پر بھی فرائض انجام دیتا رہا، پولیس اس کے علاقے میں کسی کا چالان کرتی تو چٹ پر دستخط کروانے اس کے پاس دکان پرآتی۔وہ سٹی کونسل کی ا س کمیٹی کا سربراہ بھی بنا جو شہر کی پلاننگ کو کنٹرول کرتی ہے، ایک بارا س کے پاس ایک فائل آئی، اس نے مجھے فائل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ فائل پاکستان میں کسی افسر کے پاس آتی تو وہ منہ مانگا نذرانہ وصول کرسکتا تھا، اور باقی زندگی عیاشی سے بسر کر سکتا تھا مگر یہاں ایساسوچنا بھی محال ہے ا ور اگر قواعد اجازت دیتے ہیں تو مجھے ہر حال میں اس پر دستخط کرنے ہیں، شوکت بٹ دو سال قبل دل کے عارضے سے چل بسا، وہ قتیل شفائی کا داماد تھا،ا سلئے ادبی ذوق اسے جہیز میں ملا تھا، اس نے پاکستان سے شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کو گلاسگو مدعو کیا، مشاعرے کروائے اورمحفلیں جمائیں ، اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہڈرز فیلڈ کے میاں وحید اختر نے بھی ادب کا میلہ لگایا، ایک میگزین بھی شائع کیا، مانچسٹرا ور بریڈ فورڈ کے علاقے میں وہ آج بھی سرگرم عمل ہے، وہ ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہے مگر اس نے معذوری کو اپنی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں بننے دیا، وہ پچھلے دو سال سے بہترین کاروباری افراد کو جمع کرتا ہے اور انہیں شیلڈیں اور اسناد عطا کرتا ہے،ا سکی کوشش ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی حوصلہ ا فزائی کی جائے۔ مانچسٹر میں چودھری غلام محی الدین نے پاکستانی سیاست میں نام کمایاا ور ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال کو برطانیہ اور باقی یورپ میں منظم کیا۔پاکستانی سیاست کی وبا پیپلپز پارٹی نے پھیلائی تھی اور بھٹو صاحب پہلے پاکستانی سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی پارٹی کی برانچیں برطانیہ میں کھولیں، دیکھا دیکھی ساری پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتیں برطانیہ میں پھیل گئیں۔یہ کام اچھا بھی تھا اور برا بھی، برا اس لحاظ سے کہ ہمارے حریف بھارت نے بیرون ملک کوئی سیاسی جماعت منظم نہیں کی، ہر بھارتی اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہے، ان میں کوئی تقسیم نہیں۔اسرائیل کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس کے لوگ بھی صرف ملک کا نام لیتے ہیں،کسی ایک سیاسی جماعت سے وفا نہیں نبھاتے ، چنانچہ بھارتی ا ور اسرائیلی لابی بیرون ملک بے حد منظم ہے جبکہ پاکستانی مختلف تعصبات کا شکار ہیں ا ور ان میں وہی سر پھٹول جاری رہتی ہے جو پاکستان میں دیکھنے میں آتی ہے۔امریکہ میں جس پہلے پاکستانی سے شناسائی ہوئی ، وہ چودھری رشید تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کو وہاں منظم کیا تھا، چودھری رشید ہر لحاظ سے ایک کامیاب انسان ہیں، سیاست میں بھی اور بزنس میں بھی، واشنگٹن میں ان کے گھر پر بل کلنٹن، ایل گور اورہیلری کلنٹن کئی مرتبہ ضیافتوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں صغیرطاہر پہلے پاکستانی ہیں جو تین مرتبہ مسلسل ایک ریاستی کانگرس کے ممبر منتخب ہوئے۔پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیمیں بھی امریکہ میں اپنے جوہر دکھا چکی ہیں۔ ہمارے سائنسدان ا ور انجینیئرز بھی اپنا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چاند سے لائے گئے ٹکڑوں کے معائنہ کے لئے ناسا میں جو ٹیم تشکیل دی گئی ،اس میں برمنگھم یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر سعید اختر درانی بھی شامل تھے۔درانی فیملی کے تمام ارکان ملک و ملت کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے ابھی چودھری محمد سرور کا نام کیوں نہیں لیا جنہیں برطانوی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے کا پہلے پہل اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اپنوں کی سازشوں کا شکار ہوئے اور کئی برس تک مقدمات بھگتتے رہے۔انہیں گلاسگو میں سرور آنڈیاں والا کے نام سے جا ناجاتا ہے مگر ان کی شبانہ روز محنت سے ان کی کیش اینڈ کیری نے گوروں کے کاروبار کو ٹھس کرکے رکھ دیا تھا، ان سے بھی پہلے چودھری یعقوب کی کیش اینڈ کیری یورپ بھر میں سب سے بڑی شمار کی جاتی تھی، ملکہ برطانیہ نے اس کا افتتاح کیا۔ برطانیہ ہی سے یورپی پارلیمنٹ میں خالد محمود نے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پیرس کے فیشن ڈیزائنرمحمود بھٹی کا نام اب بچے بچے کی زبان پر ہے۔
میں شریف فیملی کو بھی کچھ عرصے کے لئے اوور سیز پاکستانی کا درجہ دینے کو تیار ہوں ، جدہ میں جلاوطنی کا زمانہ انہوں نے نہ صرف حوصلے سے کاٹا بلکہ اپنی کاروباری صلاحیتوں کو بھی چار چاند لگائے۔ منعم خان نے کہا تھا کہ وہ جہاں بھی خیمہ لگائے ، منعم خان ہی رہے گا، اسی طرح شریف برادران کے بارے میں یہ محاورہ رائج کیا جاسکتاہے کہ وہ بھی ہر جگہ شریف بردران ہی ہیں۔سعودی عرب ہو،قطر ہو، خلیجی ریاستیں ہوں یا برطانیہ ہو۔ان کا ہر جگہ کاروبار چمکا۔ انسانی صلاحیتوں کو سرحد پار کرنے سے زنگ نہیں لگ جاتا۔علی مصطفی ڈار بھی اوور سیز پاکستانیوں کی کامیابی کے شاہنامے کا ایک زریں باب ہے۔اسحق ڈار کا بیٹا ہونا اس کا گناہ نہیں ، ایک خوبی اور نیک نامی ہے۔اس کی مخالفت وہ کرے جس کی خواہش ہو کہ خلیجی ریاستوں پر بھارت حاوی رہے، معاف کیجئے کہ مجھ سے یہ گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔خلیج میں زبردست مقابلے کی فضا ہے۔ ہر موڑ اور ہر نکڑ پر بھارتی براجمان ہیں۔اس ماحول میں چند ٹکے کماناجان جوکھوں کا کام ہے۔ اور جو پاکستانی کہیں بھی محنت مشقت کر رہے ہیں ، وہ پاکستان کے لئے قوت کا باعث ہیں۔ ان سب کو میرے قلم کا سلام پہنچے۔ میری سب دعائیں ان کے لئے ہیں۔