خبرنامہ

نئے آرمی چیف کو کیا کرنا چاہیئے۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
سوال بڑا سادہ سا ہے مگر جواب بڑا مشکل ہے، سادگی سے جواب دینا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ انہیں پاکستانی، یا بھارتی یا امریکی میڈیا سے پوچھ پوچھ کر چلنا چاہئے، یہ کام ذرا پیچیدہ ہے تو وہ روزانہ اپنے وزیر دفاع سے پوچھ لیا کریں کہ آج کا دن کیسے گزارنا ہے، یہ صاحب دستیاب نہ ہوں یا جواب دینے کے موڈ میں نہ ہوں تو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر سے رجوع کرنا چاہئے۔ اگر بہت اچھا اچھا کرناہو تو اچکزئی صاحب سے بھاشن لینا مفید رہے گا۔کبھی کبھی خورشید شاہ سے بھی پوچھ لیا کریں کہ جمہوریت کو استحکام دینے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ مگر قبلہ زرداری صاحب کو کیسے مطمئن کیا جائے کہ ایک چیف تو تین سال بعد چلا گیا مگر دوسرا چیف ا س کی جگہ آ گیا ، چیف تو چیف ہوتا ہے، پراناہو یا نیا، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ منصب خالی رکھا جاتا ، اس سے زرداری صاحب تو مطمئن رہتے۔
نئے آرمی چیف کو کیا یہ توقع رکھنی چاہئے کہ اگر وہ وزیر اعظم سے ملنے جائیں تو انہیں جنرل راحیل کی طرح برابر میں کرسی پر بٹھایا جائے یا وہ ایک ماتحت کی طرح مؤدب ہو کر سامنے بیٹھا کریں گے۔
آرمی چیف کو جلدی جلدی کئی فیصلے کرنے ہیں، جنرل راحیل جن کاموں کی وجہ سے مقبول ہوئے، کیا انہیں یہ سب کام جاری رکھنے چاہیءں اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لینا چاہیئے۔ یا پھر وہ اپنے پیش رو کے ایجنڈے پر نظر ثانی فرمائیں اور نہ تو دہشت گردوں سے چھیڑ چھاڑ کریں ،نہ کراچی کے بھتہ خوروں اور ڈاکووں سے۔ایک بات طے ہے کہ انہیں پنجاب کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان کے پیش رو کو بھی یہ ا حتیاط برتنے کا حکم دیا گیا تھا، ورنہ کسی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وہی کچھ ہو سکتا ہے جو ڈان لیکس کے ذریعے سامنے آیا۔
کنٹرول لائن کا مسئلہ تو بڑی حد تک حل ہو چکا ہے، جنرل راحیل کے جانے کے بعد بھارت کی توپیں خاموش ہو گئی ہیں ، بلکہ جس روز جنرل راحیل جا رہے تھے، اس روز جموں چھاؤنی پر حملے میں سات بھارتی فوجیوں کو مجاہدین نے تہہ تیغ کر دیا تھا،اس پر بھی بھارت نے طیش نہیں کھایا۔کتنا اچھا بچہ ہے بھارت، یہ الگ بات ہے کہ ا سنے انکل سرتاج عزیز کی امرتسر میں دھلائی کر دی۔
افغانستان کا معاملہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ اگر تو وہاں سے کوئی غوری، ابدالی،غزنوی وغیرہ آئے تو وہ ہمارے لئے عزت کی جگہ پر ہیں ، گلبدینوں، حقانیوں،یونس خالصوں،مجددیوں ، پنج شیریوں کو بھی ہم نے گلے لگانا ہے، باقی سارے ہمارے لئے سردرد ہیں مگر بہتر ہے کہ امریکہ اور نیٹو یا ان کے قریبی حلیف ترکی سے پوچھ لیا جائے کہ ہم نے کس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرناہے، کس کو گلے لگانا ہے، کس سے گلاکٹوانا ہے۔
سی پیک پر تو کوئی سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ ہمارے عظیم دوست چین کی ضرورت ہے ، اس کی حفاظت کے لئے ایک دو ڈویژن ناکافی ہوں تو ایک دو ڈویژن مزید کھڑے کر لئے جائیں، چین کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی تو ہے نہیں، وہ تو ایک دوست ملک ہے، ہمسایہ ہے اور ہمسائے کے تو سو حق ہوتے ہیں۔چین کے تجارتی ٹرک سلک روٹ پر قطار اندر قطاردن رات، رواں دواں رہنے چاہیءں۔نیٹو کے ٹرکوں ، ٹرالوں اور کنٹینروں نے ہمیں کوئی راہداری نہیں دی تو ا س کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ چینی ٹرک، ٹرالے اور کنٹینرز بھی ہمیں انگوٹھا دکھائیں گے، انہی کی آمدنی پر تو ہم نے اپنی معیشت کو بلندیوں تک لے جانے کامنصوبہ بنایا ہے۔اس منصوبے کوناکام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی فائل احسن اقبال نے نکالی ہے۔ ان سے زیادہ ہونہار،جدید تعلیم یافتہ ،ماہر منصوبہ جات ہمیں کہاں سے دستیاب ہو سکتا ہے ۔
ٹرمپ کے آنے سے کئی گتھیاں خود بخود سلجھ جائیں گی، اس نے فون پر ہمارے وزیر اعظم سے کوئی وعدہ کیا یا نہیں لیکن ا سکے نائب صدر نے تو حتمی لہجے میں کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر کشمیر کا مسئلہ حل کر ادیں گے، یہ مسئلہ حل ہو گیا تو بر صغیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی کیونکہ دونوں ملکوں کی دولت اب تک اسلحے کی خریداری پر صرف ہوتی رہی ہے،، آئندہ اسے عوام کی خوشحالی پر صرف کیا جاسکے گا اور دنیا کے لیئے بر صغیر ایک مثالی خطہ بن جائے گا۔
رہ گئے چھوٹے چھوٹے جھگڑے، جو دہشت گردوں کیوجہ سے پیدا ہوں گے تو ان سے نمٹنا پاک فوج کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بارہ چودہ برس کی کامیاب مشق اور کس کام آئے گی مگر یہ مسئلہ ذرا نازک ہے کیونکہ ساری جماعتوں سے پر پوچھنا پڑے گا کہ آیا وہ نیشنل ایکشن پلان پر ابھی تک متفق ہیں یا نہیں، عمران درمیان میں ڈنڈی مارجاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تو فوج آپریشن کا پہلے بھی مخالف تھا، باقی مذہبی جماعتیں بھی شہادت کے مرتبے پر اپنا اپنا فتوی جاری کرتی رہی ہیں بلکہ ایک مولانا نے فرما دیا تھا کہ امریکی ڈرون سے کتا بھی مر جائے تووہ شہید تصور ہو گا، دوسرے مولانا نے کہا تھا کہ امریکیوں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے ہوئے پاک فوج کے شہید کو وہ شہید نہیں مانتے۔یہ ایسا مخمصہ ہے جسے طے کئے بغیر آگے کی طرف سفر جاری نہیں رکھا جا سکتا۔یہ بات بھی طے ہو جانی چاہئے کہ ہم اپنی جنگ لڑ رہے ہیں یا امریکیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔جنرل راحیل تو اس بحث میں نہیں پڑے تھے، اس لئے ان کی رخصتی پر کچھ لوگوں کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ دو سال تک ان کی زبان بند، نہ کوئی شہہ سرخی ، بس خاموشی مگر یہ کیا ، ان کی تصویر تو آج کے اخبارات میں شائع ہو گئی ہے، آخر میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر ان کے بھائی تھے اور ان کے یوم شہادت پر جنرل راحیل کی حاضری انسانی اعتبار سے ضروری تھی۔پتہ نہیں جن لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ جنرل راحیل کا قصہ تمام شد، وہ اس تصویر کو کیسے ہضم کر پائیں گے۔
ایک جھگڑا ٹویٹس کا بھی ہے، آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے اپنی ڈیوٹی تو نبھانی ہے۔ وہ ٹویٹ کریں گے تو شہہ سرخی تو لگے گی اور کچھ لوگوں کواس پر اعتراض ہو گا کہ فرد کی پبلسٹی کے بجائے ادارے کی پبلسٹی ہونی چاہئے، ان معترضین کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ سول پبلسٹی کے ادارے بھی تو ایک فرد ہی کی پبلسٹی کرنے میں مصروف ہیں۔وہ تو ٹرمپ کی کال کو بھی ایک فرد کی رطب اللسانی کے لئے استعمال کرنے سے باز نہیں آئے مگر وہ منتخب لوگ ہیں جو چاہیں کریں، آرمی چیف کو وہ نہیں کرنے دیتے، تو ا سکا حل یہ ہو سکتا ہے کہ آئی ا یس پی آر ٹویٹ نہ کرے، اپنے دفتر کے باہر ایک ڈیجیٹل بورڈ نصب کر د ے اورا س پرتازہ خبر لکھ دی جائے، مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ بھی شہہ سرخی تو بن ہی جائے گی۔ دعا ہے کہ اللہ اخبار والوں کو ہدائت دے کہ وہ آرمی چیف کی خبر کو شہہ سرخی بنانے سے اجتناب برتیں۔
میں ذاتی طور پر فوج اور اس کے سپاہ سالار کا مداح اور قصیدہ خواں ہوں، مجھ سے پہلے بھی کئی نسیم حجازی ہو گزرے ہیں، میں تو ان کی خاک کے برابر بھی نہیں مگرہزاراعتراضات کے باوجود میں تو شہیدوں ا ور غازیوں کی امانت دار فوج اور اس کے سپاہ سالا رکا حدی خواں بنارہوں گا۔ اور میری دعا ہے اور نئے آرمی چیف سے محض ایک چھوٹی سی تمنا بھی کہ وہ پاک فوج کو ترک فوج کے حشر سے بچائیں۔یہ پاکستانی فوج رہے، اسلامی فوج رہے، ریڈ کارپٹ بچھانے اور گارڈ آف آنر پیش کرنے کے کردار تک محدود نہ رہے۔