خبرنامہ

نریندر مودی اپنی ریاست عمران خان کے حوالے کر دیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نریندر مودی اپنی ریاست عمران خان کے حوالے کر دیں

عمران خان نے بھارت کے دورے میں کہا تھا کہ اگر بھارتی عوام اگلے الیکشن میں نریندر مودی کو وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں تو وہ بھی انہیں خوش آمدید کہیں گے، اس کی دلیل کے طور پر عمران خان نے واجپائی کا حوالہ دیا، جن کا تعلق بھی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا مگر بقول عمران، انہوں نے واہگہ کے راستے بس میں لاہور کا سفر کر کے خطے میں قیام امن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
واجپائی کا دورہ لاہور، امن کی آشا کے سفر میں پہلا قدم تھا مگر بدقسمتی سے یہ سفر طویل تر ہوتا جارہا ہے۔ اور منزل ہے کہ اس کا نشان نہیں ملتا۔
امن کے ایک ادنیٰ پجاری کے طور پر میرا فرض ہے کہ میں اس میں کوئی کردار ادا کروں اور ظاہر ہے میرے پاس مشورے کے سوا ہے کیا۔ نریندر مودی نے اپنی ریاست میں بڑی طویل اننگ کھیلی ہے، وہ جب سے چیف منسٹر بنے ہیں، یہ بھول ہی گئے ہیں کہ ان کی ٹرم بھی ختم بھی ہوگی یانہیں۔ بارہ تیرہ برس سے وہ چیف منسٹری سے چپکے ہوئے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ عمران خان کی بات سچی نکلے اور بھارتی عوام گجرات کو ان سے چھٹکارا دلوانے کے لئے وزیراعظم بنوا دیں تو میری تجویز یہ ہے کہ وہ جاتے جاتے اپنی ریاست کا کنٹرول عمران خان کے سپرد کر دیں۔ اگر عمران خان کو ایک بھارتی ریاست حکمرانی کے لیے مل جائے تو یہ خطے میں دوستی کے بڑھاوے کے لئے اہم پیش رفت ہوگی۔ گجرات کی شہرت ایک خون آشام ریاست کی ہے، یہاں گودھرا ریل سانحے کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو انتظام کی بھٹی میں کوئلہ بنادیا گیا اور عمران کی پارٹی کوبھی ایسے ہی ایک سلگتے صوبے میں حکومت کا کچھ کچھ تجربہ تو ہو گیا ہے۔
مگر عمران کی غیرت کو کیا ہوا کہ نریندر مودی کے گن گانے لگا۔ غیرت مند تو قائداعظم تھے جنہوں نے انگریز کی غلامی کے خلاف جدوجہد کی اور ہندو کی غلامی میں تو جانے سے انکارہی کردیا اور مسلمانوں کے لیئے ایک آزاد ملک بنا کر دم لیا، یہ تھا غیرت کا تقاضا اور لگتا ہے کہ قائد کے ملک کے لیڈر غیرت کا سبق بھولتے جا رہے ہیں، پہلے ہندو کہتے تھے کہ یہ واہگہ کی لکیر کیا ہے، اس نے دلوں میں دراڑ ڈال دی ہے۔ اب ہم بھی کہتے ہیں کہ واہگہ ویز افری ہونا چاہئے۔ ایک دن وزیر اعظم نے کہا کہ واہگہ بارڈر چوبیس گھنٹے تجارت کے لیئے کھلا رہنا چاہیے، دوسرے دن چھوٹے میاں جی نے بھی رٹارٹایہ فقرہ اگل دیا۔
شریف برادران کی بھارت دوستی کی وجہ یہاں تک سمجھ میں آتی ہے کہ وہ کاروباری لوگ ہیں اور کاروبارکی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور مینوفیکچرنگ کا مرکز بھی، اس لیئے کونسا تا جر اور دکاندار ہو گا جو اسے نظر انداز کرے گا مگر یہ عمران خاں کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا۔ وہ اتنی چھوٹی عمرکا ضرور ہے کہ اس تقسیم کی خونریزی کا علم نہیں ہو گا لیکن بابری مسجد کا المیہ تو اس نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہوگا، بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کی بنیادیں تک اکھیڑ ڈالی تھیں۔ اور کیا عمران خان بھول گیا کہ ہندو انتہا پسندوں نے کتنی مرتبہ پاک بھارت کرکٹ میچوں کو شعلوں کی نذر کیا کر کٹ تو عمران خان کا مشغلہ رہا ہے۔ وہ اپنے دماغ کو حاضر کرے اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے غنڈوں کی حرکتوں کو یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اور اس روز عمران خان بھارت میں تھے جب تہلکہ کے ایڈ یٹر کو دفتر میں ایک ملازمہ کے ساتھ زیادتی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر ارون دھتی رائے سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اس کے تاریخی الفاظ عمران خان نے کیوں نہیں سنے کہ جو بھارتی شہری نئی دہلی میں ایک نوعمر بچی اور دوسری خواتین کے ساتھ زیادتیوں پر پھنکار رہے ہیں، وہ کشمیر میں عصمت دری کے المیے پرکیوں خاموش ہیں، عمران خان ایک غیرت مند پاکستانی ہیں اور ارون دھتی رائے کو جواب دیں کہ وہ کشمیری خواتین کی آبروریزی کو بھول کر پاک بھارت دوستی کے خوابوں میں کیوں مست رہنا چاہتے ہیں۔ بجلی بنانی ہے تو کشمیر واپس ما نگیں جس کی مسلم آبادی پر بھارت نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور جہاں سے وہ سارے دریا نکلتے ہیں جن پر بھارت نے بند باندھ لیئے ہیں اور ہمیں پانی اور بجلی سے محروم کر رکھا ہے۔ بھارت توان دریاوں سے سستی بجلی پیدا کرے اور ہمیں عمران خان مہنگے ایٹمی بجلی گھروں کی راہ پر لگا رہے ہیں، وہ بھی ہندو کے ساتھ مشترکہ کنٹرول میں۔ ہم پانی اور بجلی کی محروی کو بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن جس طرح کشمیر میں مسلم نسل کشی کی جارہی ہے اور کشمیر کی عفت مآب خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے، اس پرتو غیرت دکھائیں۔ عمران خان اور ان کے ہم نوا شریف برادران چند برس پہلے کے مسلم لیگی وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی دور کے معاہدوں پر ایک نظر ڈالیں جن میں پاکستان نے پیش کش کی تھی کہ اجتماعی آبرو ریزی کا شکار ہونے والی کشمیری خواتین کی نفسیاتی بحالی میں پاکستان مدد کرے گا۔ انہیں کس جگرے کے ساتھ بھارت سے امن کی پینگ جھولنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ میری باتیں انتہا پسندانہ پروپیگینڈ لگتی ہیں تو جناب عمران خان کوارون دھتی رائے کے تبصرے پر ہی غورفرمالینا چاہیے۔
Arundhati Roy: Indian Army using Rape as Weapon in Occupied K ashmir
NEW DELHI, INDIA : P rominent Indian writer and human rights activist, Arundhati Roy has said that Indian army and polic are using rape as a weapon against people in Occupied Kashmir and parts of India like Manipur.
Speaking on the issue of Delhi rape incident during a media interview in New Delhi, she said, “When rape is used as means of domination by the Upper Caste, army and police, it is not even punished. ” She said that rape was ‘legitimately being used as “there are laws which protect them when they do it. ” Arundhati Roy questioned why the Indians did not demand death punishment for the perpetrators of such crimes in Occupied Kashmir
یہ پڑھنے کے بعد بھی کسی غیرت مند کا ضمیر نہیں جاگتا تو وہ امن کی آشا کا علم بلند کرے اور ویزے کے بغیر اسے واہگہ پار دھکیل دیا جائے اور نریندر مودی اسے اپنی ریاست کی حکمرانی سونے کی طشتری میں رکھ کر پیش کر دیں۔ اور خود الیکشن کے بعد بھارت کی وزیراعظمی کریں۔ (13 دسمبر 2013ء)