خبرنامہ

نشان حیدر کے جلو میں نیا آرمی چیف … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نشان حیدر کے جلو میں نیا آرمی چیف … اسد اللہ غالب

خون کی ایک طویل لکیر، بدر و احد اور کربلا کی شفق رنگوں رفعتوں کو چھوتی ہوئی، برکی اور سلیمانکی کے نئے رزم ناموں کا عنوان ٹھہری تو نشان حیدر کہلائی، ایک نہیں دو نشان حیدر جس کے ماتھے پر روشن ستارہ بن کر چمک رہے ہوں تو اس کے مقدر میں ارض پاک کا نیا آرمی چیف بننا لکھ دیا گیا تھا۔ اور تقدیر کا لکھا کون بدل سکتا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے ایک ایسے وقت میں دفاع وطن کی کمان سنبھالی ہے جب ملک میں ایک قوم کا وجود مکمل خطرے میں ہے، یہ ملک دوقومی نظریے کی بنیاد پر بناتھا اور اب اسی بنیاد پر کلہاڑا چلایا جاچکا، امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے باہمی گٹھ جوڑ نے ہماری قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر دیا، ان کے گماشتے، بھارتی را اور امریکی سی آئی اے کی داشتائیں مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں، ہمارے وزیراعظم فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ویزا فری برصغیر چاہتے ہیں۔ ہمارا میڈیا امن کی آشا کا راگ الاپ رہا ہے اور ہمارے قلمکار، شاعر، نقاد اور دانشور اس نظریے کو بڑھاوا دے رہے ہیں کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، وہ کئی کئی دونوں کی کانفرنسیں ایسے ہال میں کرتے ہیں جو الحمرا کے نام سے موسوم ہے، الحمرا ہماری تاریخ کا فخریہ باب تھا لیکن اسے ذلت کی علامت کے طور پرمحفوظ رکھا گیا ہے۔ ہمارے چینلز پر میرا سلطان کی ردا چاک کی جارہی ہے، یہ ہمارے زوال کی علامات ہیں جن کی نمائش سے نئی نسل کو اپنے اسلاف سے گمراہ کیا جارہا ہے۔ میں بھارتی فلموں اور ڈراموں اور کارٹونوں کی بات نہیں کرتا کیونکہ ان کے ذریعے جو بار یک کام کیا جانا تھا، وہ مکمل ہو چکا، اب کھیل اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
ہم خوش ہیں کہ امریکہ اس خطے سے شکست فاش کھا کر واپس جارہا ہے۔ مگر ہماری آنکھیں اس انجام کو دیکھنے سے قاصر ہیں جو ہماری نظریاتی پژمردگی کی وجہ سے ہمارے گلے کا طوق بننے والا ہے۔ ایک خدا، ایک کتاب ایک رسول پر ایمان رکھنے والے نئے خداؤں نئی کتابوں اور نئے فرقوں کے حوالے سے تقسیم ہو چکے ہیں اور اس بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، جس کے ذہن میں دین کی جوتشریح آتی ہے، وہ اس کو نافذ کرنے کے لیے لٹھ اٹھا لیتا ہے، جہاد کا پرچم لہرا دیتا ہے۔ صدحیف! جن قوتوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی، وہ آج برہنہ ہو کر ملک کا خدانخواستہ کر یا کرم کرنے میں سرگرم ہیں۔
نئے سپہ سالارکوآنے والی جنگ کسی سومنات یا پلاسی یا وزیرستان کے میدان میں نہیں، لوگوں کے ذہنوں میں لڑنی ہے اور جیت کر دکھانی ہے۔ میجر شبیر شریف نشان حیدر نے دشمن کو ا سکے مورچے کے سامنے للکارا اور میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے دشمن پر وار کرنے کے لیئے ذاتی حفاظت کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال دیامگر ان کی شجاعت کی روایات کے علم بردار جنرل راحیل شریف کو ایک نئے اکھاڑے میں اترنا ہے اور یہ ہے نظریاتی جنگ کا محاذ۔ یہ لڑائی یک سوئی مانگتی ہے، یک جہتی مانگتی ہے، اور جذبہ صادق مانگتی ہے۔ دشمن نے ہماری سوچ پر وار کیا ہے، وہ ہمارے نظریے کو باطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، وہ ہمارے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
عام آدمی کے نزدیک اس وقت مسئلہ ہے امن مذاکرات کا، اس وقت مسئلہ ہے، امریکی انخلا کا، اس وقت مسئلہ ہے افغان مستقبل کو طے کرنے کا۔ مگر مجھے ظاہری مسائل سے کیا سروکار۔ میری نظر توان خطرات پر مرکوز ہے جو ظاہری مسائل کی تہ میں ہیں، جو سرطان کی طرح ہمارے جسد قومی میں سرایت کر رہے ہیں، جواندر ہی اندر ہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اور اگر دشمن ہمیں دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم خدا نخواستہ اس کے قدموں میں سرنڈر پر مجبور ہو جائیں گے اور وہ ہمارے سروں کے ڈھیر پر اپنا تخت سجائے گا۔ ہلاکو اور چنگیز ہمارا یہ حشر کر چکے، امریکی اور نیٹو فورسز نے مسلمانوں کو ملکوں ملکوں اجتماعی قبروں میں دھکیلا۔ ڈرٹی بموں سے چھیدا، کروز میزائلوں سے چھلنی کیا۔
کبھی غور کریں کہ لیبیا میں کیا ہوا، وہاں امریکہ، نیٹو اور اسلام پرستوں نے مل کر قذافی کا تختہ الٹا، ایک نیٹو طیارے کے میزائل نے قذافی کا بدن چھلنی کیا۔ شام میں تو کھیل سب کی نظروں کے سامنے ہے، شامی اسلام پرستوں کو امریکہ اور نیٹو ممالک اسلحہ اور ڈالر فراہم کررہے ہیں، یہاں روس کے صدر پوتوں کو دخل دینا پڑا، ورنہ امریکہ بذات خود جارحانہ یلغار کرنے والا تھا۔ پہلی افغان جنگ میں امریکہ اور ساری دنیا نے سوویت روس کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اسلام پسندوں کو جہاد میں جھونکا مگر اب دوسری افغان جنگ میں امریکہ اور اسلام پسندآمنے سامنے ہیں۔ مصر میں اسلام پسندوں کے خاتمے کے لیئے امریکہ و ہاں کی فوجی حکومت کا ساتھ نبھارہا ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ کہیں تو امریکہ اور اسلام پسند ایک مفاد پر اکٹھے ہیں اور کہیں ان میں دوری اور دشمنی ہے۔ اصل کھیل یہ ہے کہ عالم اسلام کو انتشار کا شکار کیا جائے۔
پاکستان میں فوج ہی وہ آخری حصار ہے جو اس ایٹمی قوت کے ملک کی محافظ ہے چنانچہ ساری توجہ اس فوج کے خلاف مرکوز ہے، اس کے شہیدوں کے مقابلے میں کتوں کی شہادت کے فتوے دیئے جارہے ہیں، ہم اگر اپنے غازیوں اور شہیدوں کوقرون اولی کے غازیوں اور شہیدوں سے نسبت دیتے ہیں تو فون، ایسں ایم ایس وغیرہ کے ذریعے ہمارا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ آج ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ قوم کو فوج سے دور کر دیاگیا ہے۔ فوج کے جنازوں میں سیاسی اور مذہبی لیڈر شرکت سے گریز کرتے ہیں، حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کا ماتم ہمارا وزیر داخلہ خود کرتا ہے لیکن جنرل ثنااللہ نیازی کی شہادت پر ایک آنسو بہتا دکھائی نہیں دیتا، لاپتا افراد کے نوحے پڑھے جاتے ہیں اور جن فوجیوں یا پاکستانیوں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں، وہ بھی ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد اور ان کا نوحہ خواں کوئی ایک بھی نہیں۔
یہ ہے وہ منظر نامہ جب دنیا کی ایک بہترین، تربیت یافتہ، ایٹمی اسلحے سے لیس اور پروفیشنل آرمی کی قیادت جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں پوری قوم کا مقدر ہے۔ ان کا چناؤ اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ حکمران ان کی وفاداری پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرسکیں بلکہ اس چناؤ کا ایک ہی مقصد ہے کہ پوری قوم اپنے سپاہ سالار پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکے۔
میجر عزیز بھٹی نشان حیدر اور میجر شبیر شریف نشان حیدر کے خون کے صدقے قوم اپنے وجود کا تحفظ مانگتی ہے۔ اپنی آزادی کے تحفظ کی طلبگار ہے، اپنے اقتدار اعلی کے دفاع کا تقاضا کرتی ہے۔ اور اس نظریئے کی سلامتی چاہتی ہے جس پر پاکستان کی عمارت استوار کی گئی اور جسے ویز افری اعلانات اور امن کی آشاؤں اور ان کے گماشتوں کی کانفرنسوں سے حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ (29 نومبر 2013ء)