خبرنامہ

نظریہ پاکستان پر اوچھاوار

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نظریہ پاکستان پر اوچھاوار

پہلے فضل الرحمن نے کہا کہ امریکی حملے میں کتا بھی مر جائے تو شہید ہو گا، پھر منور حسن نے کہا کہ امریکہ کے لیے لڑتے ہوئے پاکستانی فوجی کی جان چلی جائے تو وہ اسے شہید نہیں مانتے۔ جو جان سے چلا گیا وہ چلا گیا، اس کا حساب اللہ کے سپرد اجر دینے یا نہ دینے والا وہی ہے۔ تو ان باتوں سے فرق کیاپڑا، جان دینے والے کو آخرت کا اجر ہم نہیں دے سکتے تو پھر یہ بحثا بحثی کیوں، اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اس نظریئے کوبھی ماردو جس پر جان دی جاتی ہے۔ یہ نظریہ مر گیا تو پاکستان کے قیام کی بنیادڈھے گئی،نعوذ باللہ۔
اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد کہا تھا کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کوخلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ اندرا گاندھی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کو فتح کر لیا، یا پاک فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اور سونیا گاندھی کے الفاظ پر غور کیجئے، وہ بھارت میں ایک غیرملکی ہے مگر بھارتی بنئے کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے، اس نے کہا کہ اب ہمیں بقیہ پاکستان پر جارحانہ یلغار کی ضرورت نہیں، ہم اسے ثقافتی محاذ پر شکست دے چکے۔ یہ ثقافتی محاذ دوقومی نظریئے کا محاذ ہے۔ اور ہماری شکست کھا جانے کے آثار یہ ہیں کہ ہمارا نومنتخب وزیر اعظم اپنے حلف کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کی شمولیت کا متمنی ہے۔ اور ہمارے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی چند روز بعد الحمرا میں امن کی آشا کے اجلاس کا مہمان خصوصی بننے جارہا ہے، جبکہ اس کا اپنا صوبہ دسویں محرم سے لہولہان اور فوجی کرفیو کی زد میں ہے۔ بھارت سے امن کی آشا کی تڑپ اور اپنے صوبے کے بڑے شہروں میں بدامنی پھنکار رہی ہے۔
وزیر داخلہ نے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کو امن مذاکرات پرحملہ قرار دیا تھا۔ وزیرداخلہ نے فضل الرحمن، منور حسن اور عمران خان کی باتوں سے تقویت محسوس کی مگر ہوا کیا کہ اپنی ناک کے نیچے گھر کے آنگن میں امن کالاشہ تڑپنے لگا۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی دوربینی اور دور اندیشی کی صلاحیت۔ جہاں امن مذاکرات کی ضرورت تھی، وہاں کسی کی عقل نے کام ہی نہ کیا۔
ڈرون حملے نے حکیم اللہ کو نشانہ بنایا؟یاامن مذاکرات کو نشانہ بنایا؟وزیرداخلہ کا خیال اپنا ہے مگر ایک عام پاکستانی شہری اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ڈرون حملے سے اٹھنے والی بحث، نظریہ پاکستان کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ لیکن کیا ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جانے والے چند افراد اس نظریئے کو موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں جس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہور چا بسا ہے۔ امر شہیدوں کے لہو کی لکیر افق تا افق روشن و تابندہ ہے۔ اور یہ لہوکسی نظریے کو تا ابد زندگی بخشنے کا ضامن ہے۔ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر جانوں کی قربانی دینے کی روشن اور قابل تقلید روایت کا آغاز 14 اگست 1947 کو ہوا، جانوں کی قربانی کے ساتھ عزتوں عصمتوں کی قربانی بھی پیش کی گئی، ہزاروں مائیں بہنیں مشرقی پنجاب میں دشمنوں نے گھروں میں ڈال لیں۔ اور جن کا بس چلا، وہ کنوؤں میں کود گئیں۔ کبھی اندھے کنوؤں سے سسکیوں کی آوازیں بھنور پیدا کرتی دکھائی دیں تو اپنی ماؤں بہنوں کے چہرے پہچاننے کی کوشش کرو۔
کیا کبھی آپ نے یہ ہلاکو خانی منظر دیکھا کہ دودھ پیتے بچوں کو ماؤں کی چھاتی سے جھپٹ کر اور سنگینوں میں پروکر ہوا میں اچھال دیا گیا ہو۔ شاید آپ یہ سب بھول گئے ہوں مگر نظریہ پاکستان کی آنکھ یہ دلدوز اور دلخراش منظر بھولنے نہیں پائی۔ منورحسن اورفضل الرحمن یہ سب آسانی سے بھول سکتے ہیں، اس لئے کہ ان کے اجداد، پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوں گے یا وہ قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہوں گے۔
نظریہ پاکستان پر وار کرنے کے لیے پاکستان کے محافظوں پر وار کیا گیا ہے مگر جب اس کا پتا چلا کہ سوسائٹی میں وہ یکہ و تنہا رہ گئے ہیں اور ان کی حیثیت اچھوت کی سی ہے، تو یہ جنگ عالمی سطح پر پھیلا دی گئی اور سوشل میڈیا پر اس جنگ کو تیز کر دیا۔ لوگوں کو جتلایا جارہا ہے کہ اگر البدر اور لشمس کے فدائین نہ ہوتے تو نوے ہزار پاکستانی سپاہ سے کوئی ایک زندہ بچ کر پاکستان واپس نہیں آ سکتا تھا۔ باقی جو موادفیس بک پر ڈالا جارہا ہے، میری اخلاقیات اس کو یہاں دہرانے کی اجازت نہیں دیتی۔
کیا سوشل میڈیا پر اس جنگ و جدل کے ہے نام کمانڈروں سے پوچھاجاسکتا ہے کہ اگرسینتالیس میں بلوچ رجمنٹ نہ ہوتی تو کیا پٹھانکوٹ کا کوئی ایک فرد پاکستان میں اچھرہ کی تنگ گلی تک پہنچ سکتا تھا۔ اور یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ کیا بھارت میں رہ کر اپنی جماعت کا کئی ایکڑوں پرمحیط پرشکوہ ہیڈ کواٹر تعمیر کیا جاسکتا تھا۔
فیس بک پرنفرت انگیز تحریروں میں اور لاشوں کی تصویریں نہیں دکھائی جا سکتیں لیکن جب لوگ ایسی تحریروں اور تصویروں کے خلاف فیس بک سے شکایت کرتے ہیں تو وہی جواب ملتا ہے جو ناپاک اور گستاخ فلم کو ہٹانے کے مطالبے پر دیا گیا فیس بک کو نظریہ پاکستان سے کیا محبت ہوتی ہے۔ یہ تو وہ نظریہ ہے جو مدینے کی دو قومی ریاست کی بنیاد بنا تھا۔ مکہ کے ایک ہی خاندان اور قبیلے کے لوگ ایک قوم نہیں تھے، اسلام کے بعد دو قومی نظریے کی بنیاد استوار ہوئی تھی اور قائداعظم نے بجا طور پرکہا تھا کہ برصغیر میں اس روز پاکستان بن گیا تھا جب اس سرزمین پر پہلے مسلمان نے قدم رکھے تھے۔ اسی دوقومی نظریے پر پاکستان کی تخلیق ہوئی اور بھارت نے روز اول سے اس سازش کا آغاز کر دیا تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان کو جوڑنے والی قوت دو قومی نظریئے کو باطل ثابت کرے، ایک ملک کے دوحصوں کے درمیان ایک ہزارمیل کا فاصلہ پوری دنیا کے لیئے باعث تعجب تھا، سنگا پور اور ملائیشیا کی وحدت قائم نہ رہ سکی، اس لیئے کہ یہ ایک جغرافیائی اتحاد تھا، نظریاتی نہیں، یہ ایک دوسرے سے متصل بھی تھے۔ سوویت روس بھی پارہ پارہ ہوا، اسے توڑنے کے لئے سی آئی اے نے اس کی وحدت کی بنیاد کمیونزم پروار کیا، عالم اسلام کو اس میں ہراول دستے کا کردار سونپا سوویت فوجوں کو شکست دینے کے لیئے بھی مسلم مجاہدین کو افغانستان میں جھونکا گیا۔ بھارت نے یہی کھیل مشرقی پاکستان میں کھیلا۔ پاکستان کی وحدت کے باعث اسلام تھا جسے دوسرے لفظوں میں نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تعصبات ابھارنے میں بھارت نے کوئی کسر نہ چھوڑی، اسلام آباد اور کراچی کی روشنیوں کو مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی دولت کی لوٹ مار قرار دیا۔ بھائی اور بھائی کے دلوں میں دراڑ ڈال دی تو پھر باغیوں کو کلکتہ لے جا کر دہشت گردی کی تربیت دی۔ یہ نام کے تو مسلمان تھے لیکن اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون کے پیاسے بنادیئے گئے۔ کسی کو پتانہ چلتا تھا کہ غازی کون ہے اور شہید کون۔ منور حسن اور فضل الرحمن نے اس کھیل کو آگے بڑھایا ہے، یہ نظریہ پاکستان پر کاری وار ہے، آیئے اسے ناکام بنائیں اور ان کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کر دیں۔ (16 نومبر 2013ء)