خبرنامہ

ننانوے کا پھیر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ننانوے کا پھیر

پاکستانی قوم کو شاید کوئی سزا ملی ہے کہ اسے منانے کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ننانوے والا دور واپس لائیں گے اور بھارت سے تعلقات میں ماضی والی گرم جوشی پیدا کریں گے۔
سزا تو سو جوتوں کی ملی تھی لیکن ننانوے پرگنتی بھول جاتی ہے اور چھترول نئے سرے سے شروع ایک دو تین اور ننانوے پر پھر ایک دوتین – نہ گنتی آگے بڑھتی ہے، نہ سزاپوری ہوتی ہے۔
کسی کو یاد ہے کہ ننانوے میں کیا ہوا تھا۔ لوگ بھول جائیں تو بھول جائیں، وزیر اعظم نہیں بھول پاتے۔ انہوں نے بڑی چاہت سے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔ مگر واہگہ کے گیٹ پر کھنڈت پڑ گئی مسلح افواج کے تینوں سربراہوں نے واجپائی کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ رات کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بہت بڑاڈ نرسجایا گیا تھا مگر قاضی حسین احمد کے نوجوانوں نے معزز مہمانوں اور غیر ملکی سفیروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ ان میں مسلمان عرب ملکوں کے سفیر بھی پٹ گئے۔
یہ تھاننانوے کا دور۔ اور اسی ننانوے میں وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ انہیں تہ خانوں میں بند کر دیا گیا۔
اور کیا ہوا تھاننانوے میں۔ یاد آئے تو بتاتا ہوں۔
بھارت نے ننانوے کو زندہ کرنے کی مشق مکمل کر لی ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی قونصلر کا ایسا گھیراؤ کیا گیا ہے کہ عملے نے جان بچانے کے لیئے بھارتی حکومت سے سکیور ٹی طلب کر لی۔ ایک بھارتی یو نیورسٹی کے ہوسٹل میں رات گئے ہندو غنڈوں نے چھاپہ مار اور کشمیری طلبہ سے مطالبہ کیا وہ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائیں، انکار پرکشمیری نوجوانوں کی درگت بنا دی گئی۔ کچھ عرصہ پہلے جب کرکٹ میچ ہورہے تھے تو بھارت ہی کی ایک یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی خوشی منائی تو ہندو غنڈے ان پر پل پڑے۔ بعد میں ان زخمی طلبہ کو یونیورٹی سے نکال دیا گیا۔
یہ سب ننانوے کی واپسی کی علامات ہیں۔
ہاں یاد آیا ننانوے میں کارگل بھی ہوا تھا، جس نے واجپائی کے دورہ لاہور کی ساری کمائی خاک میں ملا دی۔ اور یہی وہ سال ہے جب غیرملکی اخبارات میں روگ آرمی کے اشتہارات شائع ہوئے، یہ بھارت کے جذبہ خیر سگالی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔
ننانوے کا نیا دور واپس آیا ہے تو پاک فوج کی عزت افزائی کے لیئے بھارت کوتر دد کی کوئی ضرورت نہیں رہی، یہ نیک کام ملکی میڈیا خود انجام دے رہا ہے۔ اب فوج کوروگ آرمی نہیں لکھا جاتا، فرشتے یا غیبی قوت کا نام دیا جاتا ہے، ہر کسی کی زبان پر ہے کہ کیا عمران خان کو گیارہ مئی کے لیے فرشتوں کی حمایت حاصل ہوگئی ہے، یا اسے تائیدغیبی میسر ہے۔ ایک ٹی وی نے تو فوج کے ایک ادارے کے سربراہ کو قاتل کے روپ میں پیش کیا مگر وہ جو کہتے ہیں کہ الٹی ہو گئیں سب تدبیر یں کبھی کبھی بازی الٹ بھی جاتی ہے اور یہی حال اس میڈیا گروپ کا ہوا۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار۔ ہم نے اپنی حلف برداری میں منموہن سنگھ کو بلانے کی کوشش کی، وہ نہ آیا، ہم نے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کا نوٹی فیکیشن نکالنے کا ارادہ کیا مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ ہماری نیت تھی کہ واہگہ بارڈر چوبیس گھٹے کھلارہے ٹرکوں کی جتنی قطاردن کو دکھائی دیتی ہے، اس سے لمبی قطار رات کو نظر آئے۔ ہم نے خواب دیکھا تھا کہ یورپی ملکوں کی طرح بر صغیر میں سرحد یں مٹادی جائیں، یہ خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا۔ کس نے کیا، بھارتی انتخابات نے جس میں ایک خونی بھیڑ یا وزیراعظم بننے جارہا ہے، مودی نے اپنی وزارت اعلی میں کمالات کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کا جی بھر کے قتل عام کیا، اب وہ اقتدار میں آ کر پاکستان سے اگلے پچھلے حساب چکانا چاہتا ہے، اسے ہمارے آری چیف کا یہ بیان بھی پسندنہیں آیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
چلیے یہ کام نہیں ہو سکے تو ننانوے والا یہ کام تو ہوسکتا ہے کہ فوج سے متھالگا لیا جائے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اس کی رائے کونظرانداز کر دیا گیا، ایک ٹی وی چینل نے آئی ایس آئی پر وار کیا تو ہم اس چینل کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ فوج کے ساتھ تصادم میں ہمارے دووزرا بری طرح پٹ گئے، ان خواجگان کوتو سانپ سونگھ گیا مگر وزیراطلاعات اب تک ڈٹے ہوئے ہیں، وہ کھری کھری سنارہے ہیں اور فوج کے حق میں ریلیاں نکالنے والوں کوطعنہ دے رہے ہیں کہ وہ پکی نوکری کی تلاش میں ہیں۔ کیا کوئی حکومت اپنی ہی ماتحت فوج کے ساتھ سوکنوں والا لہجہ اپناتی ہے۔ کیا کوئی وزیر دفاع اپنی ہی فوج کے خلاف پرچہ کٹواتا ہے۔ دنیامیں ایسا نہیں ہوتا ہوگا مگر پاکستان میں تو ہم کرتے ہیں، اسلیئے کہ کرنے کو اور کوئی کام نہیں۔ ہم نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یہ کہہ کر دور کر دی کہ صبر سے کام لو۔ یہ بھی ڈراوا دیا کہ بجلی مانگنے والے سب چور ہیں، ان کے کنکشن کاٹ دیں گے۔ ہمارے پاس بجلی ہے نہیں، لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی اورکنکشن بھی کٹیں گے، ایک سال پہلے پانچ سو ارب کاگشتی قرضہ اتارا، اب ہماری محنت سے یہ قرضہ پھر تین سو ارب تک جا پہنچا ہے، ہم فارغ تو نہیں بیٹھے کچھ نہ کچھ کر کے دکھا رہے ہیں۔ ننانوے میں تو نہیں، اٹھانوے میں ڈالر کے ساتھ کیا ہوا تھا، یاد آیا ہم نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس خوشی میں ہم نے فارن کرنسی اکاؤنٹ فریز کر دیئے تھے۔ پھر ہم نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم میں ڈالر اکٹھے کئے اور یہ قومی خزانے میں نہ آ سکے ننانوے کی با تیں اور بھی ہیں۔ ہمیں ایک کام تو مکمل کر کے ہی رہنا ہے۔ امن کی آشا ضرور پوری کریں گے، اس کام میں ہمیں کئی سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل ہے، عمران خان کو ٹی وی چینل سے صرف الیکشن پر اختلاف ہے، امن کی آشا کو اس نے بھی اپنانے کا اعلان کیا ہے، پیپلز پارٹی تو پہلے ہی اس کام کے لیئے تیارہے، اس کی راہ میں تو صرف ہم ہی رکاوٹ تھے اور وہ بھی اس لئے کہ یہ نیکی ہم خود کمانا چاہتے ہیں۔ جے یو آئی تو اس مشن کی تکمیل کے لئے مچل رہی ہے۔ امریکہ سے بڑی عالمی طاقت کون سی ہے، وہ تو ٹر یک ون، ٹریک ٹو کے ذریعے گراؤنڈ ورک مکمل کر چکی ہے، ہماری تاجر برادری کوبھی فائدہ ہی فائدہ نظر آ رہا ہے، انہیں تومال بھیجنا ہے، سیالکوٹ اور ڈسکہ کا بیچیں یا جالندھر اور امرتسر کا۔ آلو اور پیاز کاذائقہ بھی دونوں طرف ایک سا ہے۔ پاکستانی عوام فوج کے حق میں ریلیاں نکالتے رہیں، ہمارے ٹرک وا بگہ کے آر پار جارہے ہیں۔ ننانوے ضرور واپس لائیں گے چاہے بارہ اکتوبر ننانوے سے واسطہ کیوں نہ پڑ جائے۔(8 مئی 2014ء)