خبرنامہ

نواز شریف کا خوش آئند اور دانشمندانہ رد عمل….اسداللہ غالب

نواز شریف کا خوش آئند اور دانشمندانہ رد عمل….اسداللہ غالب

مجھے نواز شریف کے رد عمل پر حیرت ضرور ہوئی ہے، مزاج کے اعتبار سے وہ تیکھے انسان ہیں، مگر جب وقت آیا تو جوش کی جگہ ہوش غالب آیا۔ انہوںنے فیصلہ قبول کر لیاا ور پی ایم ہاﺅس کسی کے کہنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا۔ وہ سب کچھ نہیں ہوا جس کا خدشہ تھا۔ عمرا ن خان تو نواز شریف کے سارے حامیوں کو لفافہ بردار ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، اب خدا جانے میں لفافہ بردار ہوں یا نہیں مگر میں نواز شریف کی حمائت کرتا ہوں اور اس وقت سے کرتا ہوں جب عمران خان نے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے ان کی حکومت گرانے کی کوششیں شروع کیں ۔ دھرنا دیاا ور اس قدر طویل دھرنا کہ پشاور میں ڈیڑھ سو بچے شہید نہ ہوتے تو عمران ابھی تک شاہراہ دستور پر بیٹھے بیٹھے سوکھ کر کانٹا بن چکے ہوتے۔یا پھر وہ وہاں بیٹھے بیٹھے کئی شادیاں رچا چکے ہوتے۔
پانامہ پیپرز کو میں ردی کا ڈھیر سمجھتا ہوں۔ یہ بات نواز شریف نے کبھی نہیں کی مگر میں نے کئی بار کی۔اور عدالت نے جو فیصلہ دیا،ا س کے پیچھے پانامہ پیپرز کی ایک سطر کی بھی جھلک نظر نہیں آتی، مجھے اس فیصلے پر اس سے زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں، ہر طرح کے تبصرے ٹاک شوز کی منڈی میں فراوانی سے دستیاب ہیں۔
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ یہودیوں کے چنگل میں ہے اور یہ بھی سبھی کو خدشہ تھا کہ یہودی لابی اپنے پاﺅں تیزی سے پھیلا رہی ہے، مگر جس تیزی سے اس لابی نے پاکستان کو اپنے شکنجے میںلیا ہے،ا س پر میں ششدر رہ گیا ہوں۔اسحق ڈار کے بچے باہر ہیں مگر کاروبارکر رہے ہیں، نوازشریف کے بچے باہر ہیں مگر کاروبار کر رہے ہیں اور اپنے اپنے گھروںمیں ہیں ، مگر کس کے بچے بیرون ملک یہودی خاندان میںنشوو نما پا رہے ہیں، ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔ مجھے ان معصوموں سے دلی ہمدردی ہے۔
خدشہ یہ تھا کہ نواز شریف کو ہٹانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو اس ملک میں ترکی کی مثال دہرائی جائے گی۔ عوام ٹینکوںکے سامنے لیٹ جائیں گے۔یہ باتیں وہ کالم نویس اور اینکر لکھ رہے تھے اور بول رہے تھے جنہیں عمران خان لفافہ بردار سمجھتے ہیں۔
پہلا شکریہ تو ٹینکوں کا کہ وہ سڑکوں پر نہیں آئے۔ٹینکوں والوں کی طرف سے مجھے بتایا گیا تھا کہ ترک فوج اور پاکستانی فوج میں بڑا فرق ہے اور پاک فوج کو انڈر اسٹی میٹ نہ کیا جائے مگر میں پھر بھی شکر گزار ہوں ٹینکوں کا کہ وہ اپنی کمین گاہوں سے باہر نہیں نکلے اور دوسرا شکریہ نواز شریف کا جو ایک ایک تقریر میںکہہ رہے تھے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو سازش سے ہٹا یا گیا تو عوامی طاقت سے مقابلہ کروں گا مگر ان کا شکریہ کہ انہوں نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے چودھری نثار کا مشورہ قبول کر لیا کہ ملک کو درپیش خطرات کے پیش نظر داخلی ا نتشار پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے اور جو بھی فیصلہ آئے ،اسے قبول کر لیا جائے۔ یہ مشورہ چودھری نثار کے علاوہ بھی کسی نے ضرور دیا ہو گا، ن لیگ میں سبھی سعد رفیق نہیں ہیں، وہاں سرتاج عزیز بھی ہیں ، اقبال ظفر جھگڑا بھی ہیں اور میرا خیال ہے کہ نواز شریف کے قریب ترین ساتھی اسحق ڈار کا مشورہ بھی یہی ہو گا۔
اس فیصلے سے نہ آسمان ٹوٹ کر گرا ہے، نہ زمین کا سینہ شق ہوا ہے ویسے کچھ لوگوں کے گھر شام غریباں کا منظر ضرور دیکھنے میںآیا۔ اس لئے کہ ان کی روزی روٹی اور پٹرول ڈیزل کا خرچہ حکومتی فنڈ پر چلتا تھا ۔ انہوںنے بھی اپنے رد عمل میں ضرورت سے زیادہ جذبات کا مظاہرہ کیا حالانکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ نواز شریف ا ور ان کے بچوں کے خلاف کسی ایکشن کا مطلب یہ نہیں کہ ن لیگ کی سیاست ختم ہو گئی۔ اگلے الیکشن تک بہر حال ن لیگ نے ہی حکومت کرنی ہے اور تا حیات نااہل قرار دیے جانے کے باوجود ن لیگ کے سارے فیصلے نواز شریف ہی کو کرنے ہیں، فیصلے قیادت کرتی ہے اور قیادت پھانسی پر بھی چڑھا دی جائے تو اس کا بھوت آسیب بن جاتا ہے ۔ بھٹو کی سیاست ختم نہیں کی جاسکی،نواز شریف کی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ یہ تو خیر سے دونوں سیاست دان ہیں مگر ایک فوجی آمر جنرل ضیا کا بھوت بھی اکثر لوگوں کے ڈراﺅنے خوابوں میں آج بھی آتا ہے۔اعجاز الحق اسی نام پر سیاست چمکائے ہوئے ہے اور جنرل اختر کی اولاد بھی اپنے باپ سے بڑھ کر قومی سیاست پر حاوی ہے۔
مجھے ذرہ بھر شک نہیں کہ نواز شریف ایک عالمی سازش کا شکار ہوئے ہیں ۔چین کو گوادر تک رسائی دینا اور سی پیک کی سینہ تان کر حفاظت کرنا دنیا کی نظروں میں بہت بڑا جرم ہے۔ایک جرم وہ پہلے ہی ایٹمی دھماکے کی شکل میں کر چکا ہے۔ بھٹو نے صرف ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی،اسے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی گئی اور اس دھمکی پر عمل کر دکھایا گیا۔ دھمکیاں نواز شریف کو بھی ملتی ہوں گی مگر سامنے نہیں آئیں ، ان دھمکیوں کی کچھ جھلک چودھری نثار کی پریس کانفرنس میں دکھائی دی۔انہوںنے واضح لفظوں میں کہا کہ ایک سازش ہے جس کا علم دو سویلین اور دو فوجیوں کو ہے۔ہو سکتا ہے کہ سازش کی کامیابی کاا نحصار نواز شریف کی طرف سے سخت رد عمل ‘اداروں سے ٹکراﺅ اور تصادم پر کیا گیا ہو ۔پاکستان میں خانہ جنگی چھڑ جائے تو اسے شام بنانے کے لئے پلک جھپکنے کا عرصہ چاہئے، اس کے اطراف میں وہ ساری افواج پرے باندھی کھڑی ہیں جو اس سے قبل عراق، شام، یمن،لیبیا اور شام کا فلوجہ بنا چکی ہیں، بھارت بھی سرجیکل اسٹرائیکس کے جنون میں مبتلا ہے۔
میرا خیال ہے کہ نواز شریف کے صبر و تحمل نے وقتی طور پرا س سازش کے سامنے بند باندھ دیا ہے مگر نوا شریف کودیوار سے لگانے کا کام ختم نہیں ہوا، ابھی شروع ہوا ہے اور عالمی سازشیوں کو جو ماحول درکار ہے، وہ کسی وقت بھی انہیں خدا نخواستہ میسر آ سکتا ہے۔
میں ذاتی طور پر پر امید نہیں ہوں اور مجھے آنے والے دنوںمیں ملک میں عدم استحکام کی کیفیت کینسر بنتے دکھائی دیتی ہے۔ اس کینسر کا علاج عمران خان کے ہسپتالوںمیںنہیں ہے جن میں سے آخری کراچی ہسپتال کے لئے زمین جنرل راحیل شریف دان کر گئے۔ ایک متنازعہ سیاستدان پر راحیل شریف کی نوازش سمجھ سے با لا تر ہے۔
مجھے رہ رہ کر زرداری کی یہ بددعا یاد آتی ہے کہ ساٹھ لاکھ افغان مہاجر بنے تو پاکستان نے انہیں پناہ دی مگر پاکستان کے بیس کروڑ لوگ مہاجر ہوئے تو روئے زمین پر انہیں پناہ دینے والا کوئی نہ ہو گا۔
خدا ایسابرا وقت نہ لائے۔
٭٭٭٭٭