خبرنامہ

وارث میرکا ورثہ اور ان کے ورثا،،،،اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وارث میرکا ورثہ اور ان کے ورثا

مجھے وارث میر کی یاد میںقلم ا ٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، دائیں اور بائیں بازو کے مابین دیوار برلن کب کی ٹوٹ چکی ۔اب نہ کوئی مجھے سرخاکہے گا نہ کٹھ ملا۔ سب کچھ تو آپس میں گڈ مڈ ہو گیا۔ وارث میر کو ان کے زمانے میں لبرل دانشور کہا جاتا تھا، وہ حریت فکر کے علم بردار تھے۔ ان کے ذہن کے دریچے کھلے تھے اور ان کی سوچ تازہ ہوائوں میں سانس لیتی تھی، اس پر کہیں کائی نہیں جمی تھی۔ شخصی طور پر ایک ہنس مکھ شخصیت ، پہلی ہی ملاقات میں دل میں گھر کر لینے والے۔ میںنے انہیں اپنے مرشد مجید نظامی کی نظروں سے پہچانا ۔ نوائے وقت دائیں بازو کا اخبار سمجھا جاتا تھا مگرا س میں وارث میر، پروفیسر عثمان اور عبداللہ ملک تھے اور انہیں اپنی تحریروں کی اشاعت پر فخر محسوس ہوتا تھا، ان کی وجہ سے نوائے وقت کا قدا ور بھی بلندہو جاتا تھا۔اور مجھے ان اکابرین کی قربت اور صحبت سے یک گونہ فرحت محسوس ہوتی تھی۔وارث میر نے اردو صحافت کوجرات اظہار کا تحفہ دیا۔ وہ دنیا کے ناخدائوں کو چیلنج کرکے لطف اندوز ہوتے اور اس سے حظ اٹھاتے تھے۔ان کے ہونٹوں پر کھیلنے والی ہمہ وقت مسکراہٹ اور طبیعت کی چلبلاہٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے نشانے ٹھیک ٹھیک لگ رہے ہیں۔یہی وارث میر کا ورثہ ہے جو آج کی صحافت کو منتقل ہوا ہے اور اسے تازگی بخش رہا ہے۔ ان کے ورثاء نے بھی اسے حرز جاں بنا رکھا ہے۔ میں حامد میر اور عامر میر کو جانتا ہوں ، ان کے خاندان کے دیگر افراد سے شناسائی نہیں رکھتا مگر ان دونوں بھائیوںنے اپنے باپ کی میراث اور ورثے کو چار چاند لگانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔حامد میر تو زندگی کی بازی لگانے سے بھی نہیں ہچکچائے، جب ان کے جسم میں گولیاں پیوست ہوئی تھیں تووارث میر کو آسمانوں کی بلندیوں پر اپنے شیر دلیربیٹے پرفخر محسو س ہوا ہو گا۔ اور آزادی اظہار کی تاریخ نے سقراط سے وارث میر تک دیوانہ وار رقص کیاہو گا۔جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔ حامد میر نے اپنے والد وارث میر کی شان اور آن بان میں اضافہ کر دیا۔ سقراط کو زہر دینے والوں کے نام کوئی نہیں جانتا ،وارث میر کو گالیاں دینے والوں کو بھی کوئی نہیںجانتا اور حامد میر کوگولیوں سے چھلنی والوں کو بھی کوئی نہیں جانتا، تاریخ کی کہکشاںمیں سقراط،وارث میر اور حامد میر ہمیشہ روشنیاں بکھیرتے رہیں گے۔چمکتے دمکتے رہیں گے۔
وارث میر کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ ان کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ کاش! حامد میر ان سب تحریروں کو یکجا کر دے اور افادہ عام کے لئے ایک انسائیکلو پیڈیا کی صورت میں شائع کر دے ، وہ اپنے قابل فخر والد کی قابل فخر تحریروں کی کلیات بھی شائع کرے، یہ ایک عہد کی نہیں ، آدم سے اب تک کی انسانی کشمکش کے راز ہائے درون خانہ سامنے لے آتی ہے۔

میں وارث میر مرحوم کے کردار پر روشنی ڈالنے کے لئے چند جید لکھاریوں اور دانشوروں کی خوشہ چینی کرنا چاہتا ہوں۔ جناب محمود مرزا نے ان کے بارے میں لکھا کہ پروفیسر وارث میر نے اپنی زندگی کا سب سے جاندار مضمون اپنی موت سے ایک دن پہلے لکھا تھا، جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کے اعتبار سے مرحوم کی فکر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ مضمون جنرل ضیاء الحق کی ایک تقریر کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ اس تقریر میںجنرل ضیاء الحق نے لاہور کے ادیبوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود ساختہ ترقی پسند دانشوروں کو ملک کی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی اجازت ہرگز نہیںدیں گے اور نہ ہی نظریاتی زمین پر کسی قسم کا سیم اور تھور برداشت کریں گے۔ اپنے جوابی مضمون میں وارث میر نے لکھا:’’جنرل ضیاء الحق جب ملک کے نظریاتی دشمنوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا اشارہ جی ایم سید یا ولی خان کی طرف نہیں، بلکہ ان پڑھے لکھے افراد کی طرف ہوتا ہے جو اپنی شناخت ترقی پسند خیالات کے حوالے سے کرواتے ہیں اور اپنے دل میں یہ خیال شدت سے رکھتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان روشن خیال شہریوں کی ماڈرن ریاست کے طور پر اُبھرے۔ اس کی فکری شخصیت میں قوت اور توانائی پیدا ہو، اس کے عوام میں اپنے حقوق کے تحفظ اور آزادی کا حوصلہ پیدا ہواور وہاں ایسا سیاسی و اقتصادی نظام پروان چڑھے جو استعماری سہاروں کا محتاج نہ ہو، میری رائے میں ایسی سوچ رکھنے والے ہی پاکستان کے سچے دوست ہیں۔
وارث میر کے نقش قدم پر چلنے والی عاصمہ جہانگیر لکھتی ہیں کہ پروفیسر وارث میر بھی ایسے ادیبوں میں سے ایک تھے جن کی تمام عمر سچائی کی عبا پہن کر آزادی فکر اور انسانی حقوق کے بارے میں لکھنے میں گزری۔ میر صاحب کے اس جہاں فانی سے کوچ کرجانے کے بعد سے لیکر اب تک ان پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائیگا۔ انکی شخصیت اور نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ سیدھے سادھے اور منافقت سے پاک لکھاری تھے۔ وارث میر لبرل، ڈیموکریٹک اور ترقی پسندانہ نظریات رکھتے تھے۔ انکے قلم سے نکلنے والی تحریروں نے پاکستان میں دو طبقوں کو خصوصاً متاثر کیا، ایک خواتین اور دوسرے نوجوان طبقے کو۔ پروفیسر وارث میر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فکری رجحانات کی ایک اہم جہت حریت پسندی ہے۔ یہ حریت فکرونظر کی بھی ہے اظہار رائے کی بھی اور عقل وخرد کی بھی۔ پروفیسر صاحب کے حوالے سے حریت فکر کی بات کی جائے تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ وہ مذہب، سیاست، عقائد اور اعمال میں قرآن وسنت کی روشنی میں فکری آزادی طلب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حریت فکر مادر پدر آزادی کا نام نہیں ہے بلکہ ایسی فکری آزادی ہے جو کہ ذمہ داریوں سے عبارت ہو۔
زمانہ وارث میر کو ہمیشہ یاد رکھے گا، جب تک جبر کا عالم رہے گا، وارث میر کی تقلید کرنے والے حریت فکر کا علم بلند رکھیں گے۔وہ کربلائوں اسے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔نار نمرود میں مسکرائیں گے اور ہر فرعون کو سچے ، کھرے لفظوں کے دریائے نیل میں غرق کر کے رہیں گے