خبرنامہ

واشنگٹن میں مکالمہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

واشنگٹن میں مکالمہ

مجھے پہلے تو اس سوالیہ حیرت کا اظہار کرنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی وفد میں کس کو وزیرخارجہ کہہ کر مخاطب کیا۔
میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ وزیر اعظم نے جناب سرتاج عزیز کے منصب میں کوئی تبدیلی کی ہو، ہمارے دوست عرفان صدیقی کو تو بڑی شتابی سے وفاقی وزیرکا منصب عطا کر دیا گیا ہے مگر سرتاج عزیز کے بارے میں ہنوز ایسا اعلان ہونا باقی ہے، ہوجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
پاکستان اور امریکہ کے مابین اسٹر یجٹیک مذاکرات کا احیاء تین سال بعد ہورہا ہے۔2010 میں اس کے یکے بعد دیگرے تین اجلاس ہوئے، مارچ، جولائی اور اکتوبر میں۔ لگتا ہے دونوں ملکوں کا معاشقہ عروج پر تھا اور پھر اس کو کسی کی نظر لگ گئی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں رخنہ پڑ گیا۔ کبھی امریکہ نے ایبٹ آباد پر جارحیت کی، کبھی سلالہ میں خون کی ہولی کھیلی اور پھر میمو گیٹ کا شاخسانہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ان حالات میں امریکہ یا پاکستان میں سے کوئی ایک فریق قربت چاہتا بھی تو پاکستانی عوام اس کے لیئے تیار نہ تھے اور افواج پاکستان بھی سخت غصے میں تھیں۔
محاورے کی رو سے وقت بڑا مرہم ہوتا ہے تین سال سردخانے کی نذر ہو گئے مگراب پھرشروعات نظر آرہی ہیں، گورفتار بہت سست ہے، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صدر اوبامہ نے نواز شریف کو یکسرنظر انداز کیا اور من موہن سنگھ کے قدموں میں سرخ قالین بچھا کر خوش آمدید کہا، نواز شریف کو ایک ماہ بعد امریکہ جانا پڑا۔ کوئی اچھا شگون نہ تھا لیکن یہی ہماری قسمت میں لکھا تھا، اس سے پہلے شکاگو میں صدر زرداری کوبھی اوبامہ نے ٹھڈا کرایا تھا، ہم من حیث القوم اکڑے ہوئے تھے مگر امریکہ نے ساری اکڑفوں نکال دی۔ ہم کشکول توڑنے کا اعلان کر رہے تھے مگر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہمیں کشکول دوبارہ اٹھاناپڑا۔
تمہید طول پکڑ رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جان کیری نے ہمارے اعلی سطحی وفد سے کیا باتیں کیں اورا نہیں کیا جواب سننا پڑا۔ مجھے اس جواب پر خوشی ہے، یہ جواب سرتاج عزیز ہی دے سکتے تھے، میں انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں اور قوم کے دلی جذبات کے اظہار پران کا شکرگزار ہوں۔
جان کیری نے روایتی با تیں کیں۔ السلام علیکم بھی کہا۔ اور پاکستانی وفد میں سے کسی کو وزیر خارجہ کہہ کربھی مخاطب کیا، یہ صاحب کون ہیں کسی کے علم میں، ہو مجھے ضرور بتائے۔ کیری نے یاد دلایا کہ وہ پاکستانی عوام کاخیر خواہ ہے، اس نے کیری لوگر برمن بل منظور کروایا جس سے امریکی عوام نے پاکستانی عوام کو براہ راست امداد دینا شروع کی۔ ہمارے میڈیا میں اکثر اشتہار چھپتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ امریکی عوام کی طرف سے پاکستانی عوام کے لئے۔ ایسے جذبات کا اظہار پچاس کے عشرے میں بھی کیا جا تا تھا جب امریکہ سے ملنے والی امداد، دور سے ہی پہچانی جاسکتی تھی کیونکہ اس پرمخصوص نشان بنا ہوتا۔ جان کیری نے اپنے ریمارکس میں یاد دلایا کہ ہمیں اختلافات میں بھی دوستی اور قربت کا راستہ تلاش کرتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو ہلہ شیری دی ہے کہ وہ دہشت گردی کے عفریت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہیں۔ انہوں نے اقرار کیا کہ اس جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانی پیش کی ہے۔ انہوں نے کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے پر بھی زور دیا اور ایٹمی پھیلاؤ کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھا۔ پتا نہیں ایٹمی پھیلاؤ کا مسئلہ امریکیوں کے حواس پر کیوں حاوی ہے۔ ان دنوں اسٹریٹجک مذاکرات کے تحت چند خصوصی گروپ بھی مشاورت میں مصروف ہیں جن میں سے ایک کا تعلق ایٹمی پھیلاؤ سے ہے۔ باقی افریقی اور سکیوریٹی سے متعلق ہیں۔
سرتاج عزیز کے بولنے کی باری آئی توری کلمات کے بعد انہوں نے امریکی میزبان کو کھری کھری سنانا شروع کریں، انہوں نے کہا کہ پہلی افغان جنگ کے بعد امریکہ نے انخلا کیا تو پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اسی طرح نائن الیون کی دفاعی اسٹریٹجی کی تیاری میں بھی ہمیں مشاورت میں شریک نہیں کیا، انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے بارے میں ہمارے جو بھی تحفظات ہیں، ان کو پورا وزن نہیں دیا جاتا، میں قربان جاؤں سرتاج عزیز کے جنہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط پر۔ انہوں نے امریکیوں سے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ صرف اپنی سیکیوریٹی اور افغان دردسری کو مدنظر رکھ کر پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے کی فکر میں ہیں جبکہ پاکستان کی سکیوریٹی کو لاحق خطرات کا آپ لوگ ہرگز احاطہ نہیں کرتے۔ اور سرتاج عزیز کا یہ فقرہ تو کمال کا ہے کہ ہم ہر چیلنج سے نبٹنے کے لیئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ بھی اس کے لیئے کمر بستہ ہو جائیں۔ ہم دونوں ملکوں کے مفادات کا تحفظ کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے تجویز پیش کی ایک ورکنگ گروپ تعلیم کے مسئلے پر بھی تشکیل دیا جائے جس پرنواز حکومت خصوصی توجہ مرکوز کیئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے بی ایس پی پلس کا درجہ دے کر پاکستانی برآمدات میں اضافے کا رستہ کھول دیا ہے، اسی طرح امریکہ کوبھی اپنی منڈیاں پاکستانی مال کے لیئے ترجیحی بنیادوں پرکھول دینی چاہئیں۔
دہشت گردی میں پاکستان کے نقصانات کا ذکر بھی جناب سرتاج عزیز کی زبان پر آیا،انہوں نے کہا کہ ہمارے عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور امریکی انخلا کے بعد ہمیں مزید خدشات لاحق ہیں، سارا ملبہ پاکستان پر گرنے کا خطرہ ہے۔ ہم افغانستان میں قیام امن کے حامی ہیں، امریکی انخلا کے لیے محفوظ راستہ بھی دینے کا عزم رکھتے ہیں (قارئین اس یقین دہانی کونوٹ کریں)
تو یہ ہے خلاصہ اس مکالے کا جو اسٹریٹیجک مذاکرات کے آغاز پر پاک امریکہ وفود کے سربراہان کے درمیان ہوا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ سرتاج عزیز نے بھارت کے ساتھ امن کو کشمیر کے ساتھ مشروط کیا، امریکی بے وفائیوں کی تاریخ بھی بیان کی مگر میں جانتا ہوں کہ ان باتوں سے امریکہ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ ہماری خاطر کشمیر کے مسئلے میں نہیں پڑے گا، نہ وہ افغانستان سے انخلا کی صورت میں ہمارے سکیور یٹی مسائل سے نمٹنے کے لیئے ہماری مدد کرے گا، ہم دس بارہ برسوں سے دہشت گردی کی جنگ میں زخم کھارہے ہیں، یہ جنگ ختم ہونے کے کوئی آثارنظرنہیں آتے۔ امریکہ ایک بار یہاں سے نکل گیا تو نکل گیا۔ وہ پیچھے مڑ کرنہیں دیکھے گا، ہاں بھارت کی وسیع منڈیوں کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔ پاکستان کے بارے میں اسے کوئی بھی فکر ہوگی تو وہ صرف یہ کہ ہمارا نیوکلیئر پروگرام محفوظ ہاتھوں میں رہے۔ کیری لوگر بل میں اس کے لیئے کوئی چاشنی باقی نہیں رہے گی۔ وہ ہمیں جس قدر استعمال کر سکتا تھا، کر چکا، اب ہم جانیں اور دہشت گرد جانیں۔ امریکہ کو اس مسئلے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ کسی دوسرے کو امریکہ سے خوش گمانی ہوسکتی ہے، مجھے ہرگز نہیں۔ سچ سچ بتائیں کیا آپ کو ہے!(29 جنوری 2014ء)