خبرنامہ

وزیراعظم عباسی کے ٹی وی انٹرویوز … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیراعظم عباسی کے ٹی وی انٹرویوز … اسد اللہ غالب

یہ اچھا ہوا کہ لوگوں کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے انٹریوز مختلف ٹی وی چینلز کے توسط سے روزانہ سننے کو مل رہے ہیں۔ یقین کیجئے اس امر کی سخت اور اشد ضرورت تھی۔ ان انٹریوز سے پہلا تاثر تو یہ قائم ہوا کہ پی ایم ہاﺅس کا مکین بدل چکا ہے۔ اور اب ایگزیکٹو کی مہار ایک نئی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ ورنہ روزانہ اپوزیشن کی طرف سے طعنہ دیا جا رہا تھا کہ وزیراعظم تو محض ڈمی ہیں، اصلی وزیراعظم اب بھی نواز شریف ہیں جو پارٹی کے صدر ہیں۔ وزیراعظم بھی آئے روز جاتی امرا یا پنجاب ہاﺅس نواز شریف کی خدمت میں حاضری دے رہے تھے۔ ان حاضریوں پر کوئی اس لئے اعتراض نہیںکر سکتا کہ حکومت تو اب بھی ن لیگ کی ہے اور اس کے سربراہ بہرحال نواز شرئف ہیںاور وہ تجربے کی دولت سے مالا مال ہیں، عباسی صاحب اگر ان سے راہنمائی لے بھی رہے ہیں تو کوئی پاپ نہیں کما رہے، حکمران پارٹی کی ہی گرفت مضبوط بنا رہے ہیں۔

یہی قصہ زرداری دور میں دیکھنے میں آیا جب یوسف رضا گیلانی بھی حکومتی معاملات اور پالیسی سازی میں رہنمائی کے لئے صدر زرداری کی طرف اس لئے دیکھتے تھے کہ وہ پارٹی کے بھی سربراہ تھے۔ بھارت میں من موہن سنگھ ہر کام میں کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کی ہدایت تلاش کرتے تھے۔ برطانیہ میں تو حکمران پارٹی اپنے وزیراعظم کو ایک انچ بھی منشور سے ادھر ادھر نہیں بھٹکنے دیتی۔ امریکہ میں کانگرس کا ہولڈ ہے اور جو کچھ پارٹی کے ارکان طے کرتے ہیں، صدر کی کیا مجال کہ اس حد سے باہر قدم رکھے، اور اگر رکھنے کی کوشش کرے تو ساتھ ہی اس کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا جاتا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے انٹرویز کے نئے سلسلے نے یہ بھی ثابت کیا کہ وزیراعظم ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں اور خاص طور پر ملک میں جو نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں، ان پر روزانہ کی بنیاد وہ حکومتی سوچ واضح کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور کے دھرنے میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کا اعلان ہوا تو وزیراعظم عباسی نے ان لیڈروں کو للکارا کہ ہمت ہے تو حکومت کو ہٹانے کے لئے دھرنے دینے اور جلسے کرنے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک لائیں۔ اسی طرح قصور کے سانحوں پر بھی ان کی سوچ ساتھ ساتھ سامنے آ رہی ہے، قصور کے سلسلے میں انہوںنے واضح کیا ہے کہ سیریل کلرز دنیا بھر میں گرفتاری سے بچے رہتے ہیں اور بعض تو زندگی بھر قابو نہیں آتے تاہم قصور کے ضمن میں مجرم کا حلیہ سی سی ٹی وی کی فلم کے ذریعے سا منے آ چکا ہے اور اس کا ڈی این اے بھی پولیس کے پاس موجود ہے، اب ا س ڈی این اے کو ہزراوں لوگوں کے ساتھ میچ کر کے بھی دیکھ لیا گیا، مگر مجرم کہیں چھپ گیا ہے اور اہل علاقہ بھی اسے پہچاننے سے قاصر رہے ہیں، اس لئے پولیس کی تفتیش کا سلسلہ بھی رک گیا ہے مگر نا امیدی کی کوئی وجہ نہیں، مجرم کو پکڑنے میں دیر ہو سکتی ہے مگر وہ قانون کے شکنجے میں ضرور آئے گا۔ وزیراعظم نے پنجاب پولیس پر کوتاہی سے کام لینے کا الزام بھی مسترد کیا ہے اور صوبائی وزیراعلیٰ کی کوششوں کی بھی تحسین کی ہے کہ وہ نچلے نہیں بیٹھے اور دن رات تفتیش کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔
عالمی حالات پر بھی ان سے سوالات کئے گئے۔ ہمسائے بھارت کے ساتھ قربت کے تعلقات میں انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو رکاوٹ قرار دیا، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کشمیر ایک کور اشو ہے اور اسے حل کئے بغیر بھارت سے معمول کے تعلقات قائم نہیں کئے جا سکتے، کنٹرول لائن پر روزانہ کی فائرنگ کو انہوں نے افسوس ناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں جس خفت کا سامنا ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی وجہ سے اسے کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے، اس سے اپنے عوام کا توجہ ہٹانے کے لئے وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر فائر کھول دیتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ ہم جواب میں خاموش رہیں، ہماری مسلح افواج پوری طرح چوکس ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
وزیراعظم سے ایک نازک سوال یہ بھی کیا گیا کہ بھارت اور امریکہ حافظ سعید کے بارے میں یک زبان مخالفت کرتے ہیں اور پاکستان پر دباﺅ ڈالتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے مگر وزیراعظم نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ پاکستان کے اندر حافظ سعید کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں، نہ انہوںنے کوئی جرم کیا ہے تو انہیںکس بات کی سزا دی جائے۔ یہی جواب آرمی چیف نے ارکان سینیٹ کے سوال کے جواب میںدیا تھا کہ حافظ سعید فلاحی کام میںمصروف ہیں اور اگر وہ کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ مطالبہ خود کشمیریوں کا بھی ہے اور ہر پاکستانی کا بھی۔
ایک ٹیڑھا سوال یہ تھا کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد ملک میں ترقی کا عمل رک گیا ہے مگر آپ حکومت کے کارنامے گنوائے چلے جا رہے ہیں تو وزیراعظم نے صاف کہا کہ نواز شریف کو ہٹانے سے ترقی کا عمل ضرور متاثر ہوا ہے، اس وقت معاشی ترقی کی شرح اگر پانچ فیصد ہے اور اگر ان کی حکومت کو بریکیں نہ لگتیں تو یہ شرح چھ فی صد سے تجاوز کر جاتی، اور سی پیک کا منصوبہ بھی جیٹ اسپیڈ سے آگے بڑھتا۔ سی پیک کے منصوبے پر نواز شریف اور موجودہ حکومت اگر فخر کرتی ہیں تو اس حقیقت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں، چیف جسٹس نے بھی کٹاس مندر کیس میں کہا کہ وہ علاقے کی سیمنٹ فیکٹریوں کو بند کرنے کا حکم دے سکتے ہیں مگر ملک میںسیمنٹ کی کھپت بڑھتی چلی جا رہی ہے، اس لئے وہ ایساکوئی حکم نہیں دیں گے جس کی وجہ سے ان پر الزام آئے کہ کہ ان کے کسی حکم کی وجہ سے ملکی ترقی کا عمل سست پڑا۔ اس سلسلے میں میری ایک ذاتی شہادت ہے، ہمارے خاندان کا یک نوجوان کسی ٹریکٹر فیکٹری میں کام کرتا ہے، میںنے ان سے پوچھا کہ کارخانے کا کاروبار کیسا جا رہا ہے تو اس نے معصومانہ لہجے میں کہا کہ سی پیک کی وجہ سے ٹریکٹروں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ قارئین! اب آپ ہی بتائیں کہ کیا نواز شریف کی حکومت نے یہ بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا اور کیا ملک کے اندر روز ایک موٹر وے کا افتتاح نہیں ہو رہا۔ وزیراعظم عباسی نے ہفتے کے روز بھی ایک نئی موٹر وے کا فیتہ کاٹا ہے، ایک طرف یہ کارنامے اور دوسری طرف دھرنے، جلسے، جلوس، الزامات، گالی گلوچ‘ لعنت ملامت۔ قارئین موازنہ خود کر لیں۔