خبرنامہ

وزیر اعظم عباسی ڈیووس فورم میں…..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیر اعظم عباسی ڈیووس فورم میں…..اسداللہ غالب

ڈیووس فورم میں عالمی لیڈرشپ اکٹھی ہوتی ہے، حکمران، سرمایہ کار، سفارت کار اور ہر شعبے کے چوٹی کے ماہرین، وزیراعظم کو اس فورم سے خطاب کا موقع بھی ملا اور سائیڈ لائنز پر درجنوں ملاقاتیں بھی کی گئیں۔ سب سے اہم نکتہ جس پر وزیراعظم نے زور دیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے اور سول، ملٹری تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ اس سال پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح چھ فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ایک نکتہ جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے راستے سی پیک کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے جو تین براعظموںکو تجارتی روابط سے منسلک کرنے کا باعث بنے گا اور اس سے خطے میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔
وزیر اعظم نے عالمی لیڈروں کو بتایا کہ پاکستان نے کس محیرالعقول طریقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے اور اب ان کا ملک بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔
پاکستان کے دشمن اپنا پروپیگنڈہ کرنے سے باز نہیں آتے، وہ ہر بہانے سے پاکستان کی بدنامی کرتے ہیں اور عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، دہشت گردی کے خاتمے، امن و امان کا قیام اور ایک ابھرتی ہوئی معیشت کا تصور پیش کر کے پاکستان کے حاسدوں کی چالیں ناکام بنا دیں۔
وزیراعظم نے پاکستان میں انفراسٹرکچر کی بہتری کی طرف بھی شرکاءاجلاس کی توجہ مبذول کروائی، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سڑکوں، ہائی ویز اور موٹرو یز کا جال بچھایا جا رہا ہے اور انہیں سی پیک کے روٹ سے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ پاکستان کے کونے کونے میں کام کرنے والے سی پیک سے مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے پاکستان کی معیشت میں تو تیزی سے ترقی آئے گی ہی مگر علاقے کے اندر بھی ایک معاشی اور تجارتی انقلاب آئے گا اور سی پیک کے ارد گرد ممالک پوری دنیا سے اپنے تجارتی روابط استوار کر کے اپنی قسمت بدل سکیں گے، خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک تو اس سے ناقابل تصور حد تک مستفید ہوں گے۔پاکستان نے تو علاقے کے ہر ملک کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کی تیزرفتار تکمیل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوںنے کہا کہ جس قدر بجلی موجودہ دور حکومت میں پیدا کی جا رہی ہے، اس قدر ملک کے ستر برسوں کی تاریخ میں بجلی پیدا نہیں کی گئی، یہ بجلی کوئلے، ایل این جی اور شمسی توانائی جیسے ذرائع سے پیدا کی گئی ہے اور جوہری توانائی کے منصوبے بھی ان میں شامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور صنعت و حرفت اور زراعت کے لئے اب وافر بجلی دستیاب ہے۔
پاکستان میں اس ساری ترقی کے باوجود ملک کے منتخب وزیراعظم کو ایک ایسے الزام میں برطرف کر دیا گیا ہے جس کی دنیا بھر کی عدالتی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ حکومت وقت نے اس فیصلے پر عمل تو کیا ہے مگر عوام اسے قبو ل کرنے کو تیار نہیں، ملک میں اپوزیشن کے ارادے بھی خطرناک ہیں ، دھرنے دئیے جاتے ہیں، احتجاجی جلسے کئے جاتے ہیں اور حساس ترین مذہبی معاملات پر بھی سیاست کی جاتی ہے مگر اس سے حکومت نے ترقی کے عمل کو متاثر نہیں ہونے دیا اور اب پاکستان دنیا کی ترقی پذیر قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کی طرف سے غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور بھارت بھی ماننے وا لا نہیں۔ اس بدتر ماحول کے باوجود پاکستان نے صبراور تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اپنی ساری توانائیاں ملکی ترقی اور استحکام اور خطے میں قیام امن کے لئے مخصوص کر رکھی ہیں۔ امریکہ بھی پاکستان کو پریشان کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑتا اور افغان طا لبان کی سرپرستی کا الزام دیتا ہے اور جب دل چاہے پاکستان کے اقتدار اعلٰی کو روندتے ہوئے ڈرون حملے کر دیتا ہے ، پاکستان نے امریکہ سے سوال کیا ہے کہ کیا اتحادیوں سے یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ مگر امریکہ اپنی شیطنت سے باز نہیں آتا، جب اسے پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جے جے پاکستان کرتا ہے مگر ضرورت پوری ہوجانے پر تو کون اور میں کون کا رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کو یار مار بھی کہا ہے اور اس کی بے وفائی پر سخت احتجاج کیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم عباسی ڈیووس گئے تو ان کے دورے کی کامیابی اظہر من الشمس ہے اور تو اور ان کے وفد میں شامل انوشہ رحمن نے ڈیووس کے ایک اجتماع کو یہ بتا کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ پاکستان تھری جی اور فور جی استعمال کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں ٹیکنالوجی کا ایک انقلاب برپا ہے اور اس کا سہرا بھی موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ آزادی اظہار کا عالم یہ ہے کہ درجنوں نیوز چینلز کام کر رہے ہیں اور ان پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ میڈیا بہر حال ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے، اس لحاظ سے ملکی میڈیا کو اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی کرنا چاہئے، امریکہ، یورپ اور ہمسائے بھارت کا میڈیا قومی مفادات پر حکومت کا ہم آواز ہوتا ہے۔ میںنے آج ہی بھارتی چینلز پر ان کے یوم جمہوریہ کی لائیو نشریات دیکھی ہیں ، کیا مجال کسی چینل نے اپنی مسلح افواج پر انگلی اٹھانے کی بھی جرات کی ہو یا حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ ہمارے میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ کم از کم خارجہ اور دفاعی معاملات میں قومی مفادات کا ساتھ دے اور سر دست ضروری ہے کہ وزیراعظم نے ڈیووس میں جو معرکہ مارا ہے، اسے نمایاں کیا جائے، وزیراعظم کی ڈیووس میںکارکردگی سے ہم سب کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔!
٭٭٭٭٭