خبرنامہ

وزیر اعظم عمران خاں کا ویژن….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیر اعظم عمران خاں کا ویژن….اسد اللہ غالب

اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! سے میدان حج گونج رہا ہے۔ ان مقدس لمحات میں پاکستانی قوم ایک نئے جمہوری سفر کاآغاز کر رہی ہے۔
مقام شکر ہے کہ حکومتی پروٹوکول کے محکمے نے قرآن پاک ا ور قومی ترانے کے فرق کو سمجھنے میں اڑی نہیں کی۔ وزیر اعظم کی تقریر شروع ہوئی تو تلاوت قرآن پاک پہلے کی گئی اور قومی ترانہ بعد میں گونجا ۔قرآن ہمار ا ایمان ہے اور قومی ترانی ہمارے نظریئے کاا یک بیانیہ اوراظہار۔ میں اپنے بھائی مجیب شامی کا مشکور ہوں جنہوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور ایوان اقتدار نے بالآ خر ایک مستحن فیصلہ کر لیا۔
وزیر اعظم کی حیثیت سے پہلی بتقریر ایک مشکل کام تھا کیونکہ حالیہ الیکشن کے بعدوہ دو تفصیلی تقاریر کر چکے ہیں اور پچھلے پانچ بروسوں میں بھی تقاریر ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ وکٹری تقیر کو دوست دشمن ہر ایک نے سرا ہا اور قومی اسمبلی کی تقریر کو کسی نے پسند نہ کیا۔ اس لئے کہ یہ اشتعال میں آکر رد عمل کے متراف تھی ۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم کواپنی تمام تقاریر کا خلاصہ بیان کرنا تھا۔ وزیر اعظم لمبی بات کرنے کے عادی ہیں ۔ ان کی پارٹی کے شاہ محمود قریشی بھی لمبی بات کرتے ہیں، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں کو اختصار اور بلاغت سے کام لینا ہوتا ہے ۔ اس کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ دونوں کو پیشہ ور ماہرین اسپیچ رائٹرز کی خدمات سے مستفید ہونا چاہئے۔
وزیر اعظم کا خطاب کوئی ایک گھنٹہ پر محیط تھا ، لگتا ہے کہ کہ دو گھنٹے کی تویر کو مختصر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس تقریرکو کوزے میں بند کر کے صرف بیس منٹ تک سکیڑا جا سکتا تھا۔اور یہ زیادہ مؤثر بھی ہوتی، وزیر اعظم کو بھی دیگر کاموں پر توجہ دینے کے لئے تین چار گھنٹے مزید مل جاتے، ابتدائی عرصے میں ان کے لئے ایک ایک لمحہ بے حد قیمتی ہے۔
پھر بھی وزیر اعظم کا لب ولہجہ بے حد سنجیدہ اور ایک مدبر لیڈر کا سا تھا۔ وزیر اعظم نے وہ تمام نکات قوم کے سامنے رکھ دیئے جن پر ان کی حکومت کی توجہ مرکوز ہو گی۔ اسن میں بنیادی نکتہ سادگی کا ہے اور دوسرا اہم تریں نکتہ بے لاگ احتساب کا ہے۔ ملک بچے گا یاکرپٹ طبقہ ، ایک معینی خیز نعرہ ہے۔ اور اس کام میں پوری قوم کا تعاون وزیر اعظم کے لئے حاضر ہے۔ اور میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔پاکستان میں اکہتیر برس تک مجھے استحصال کا نشانہ ہی بننا پڑا اور اس کا ذمے دار یہی کرپٹ طبقہ ہے جو آج تک بے لگام رہا۔ وزیر اعظم نے معاشی مسائل کے حل کے لئے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔ یہ اپیل مؤثر انداز میں کی گئی اور لوگوں کو احساس دلایا گیا کہ اکیلی حکومت کچھ بھلا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اس ضمن میں عوام کی بھی کچھ ذمے داریاں ہیں، تعلیم ، پولیس ، عدلیہ ، پانی ، صحت کے شعبوں میں اصلاحات کا بھی عندیہ دیا گیا۔
تقریر سنتے ہوئے لوگوں کو انتظاراس بات کا تھا کہ مسائل کا ذکر تو عمران خان ایک عرصے سے کر رہے ہیں اور ہر کوئی کرتا ہے مگر دیکھنا یہ تھا کہ عمران خاں ان کا حل کیا تجویز کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے پی ایم ہاؤس میں ایک عالی شان یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ، ملک کے گورنر ہاؤسوں ، اور سرکاری افسران کی رہائش گاہوں کے لئے سوچ بچار کے بعد اقدامات سامنے لائے جائیں گے تاہم قیمتی گاڑیوں کی نیلامی کا فیصلہ ایک مستحسن بات ہے۔اگرچہ اس نیلامی سے بھاری قرضے کا عشر عشیر بھی جمع نہیں ہو سکتا مگر یہ فیصلہ بجائے خود اس امر کا غماز ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں اور بنیادی ترجیح یہی نظر آئی ہے کہ نئی حکومت اسراف ا ور فضول خرچی سے اجتناب برتے گی۔
وزیر اعظم نے کئی ٹاسک فورسز کے قیام کا بھی اعلان کیا جن کی سفارشات کی روشنی میں حکومت چلائی جائے گی۔
مجھے وزیر اعظم سے یہ گزارش کرنی ہے کہ اب وہ حکومت میں ہیں اور مسائل کا ذکر کرکے عوام کو مطمئن نہیں کر سکتے، نہ ان مسائل کے لئے ماضی کی حکومتوں کو مطعون کرنے میں عوام کا کوئی بھلا ہے،۔ مسائل کا ذمے دار کون ہے، ان سے عوام کا کیا واسطہ ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کئے جائیں یا ان مسائل کے حل کا فارمولہ بتایا جائے،اس ضمن میں وزیر اعظم جن ٹاسک فورسز کے قیام کا اب ا علان کر رہے ہیں، ایسی ٹاسک فورسز انہیں ایک سال قبل تشکیل دے لینی چاہیے تھیں۔ اور کل کی تقریر کرتے ہوئے ان ٹاسک فورسز کی قابل عمل تجاویز کی فہرست ان کے ہاتھ میں ہونا چاہئے تھی۔وزیر اعظم دنیا بھر میں گھومتے ہیں، امریکہ ، برطانیہ فرانس وغیرہ میں الیکشن سے قبل ہی عوام کو علم ہو جاتا ہے کہ کونسی پارٹی ان کے لیے بہتر پروگرام رکھتی ہے۔اس بنا پر ووٹ دیتے ہوئے وہ سوچ سمجھ کر اپنا فیصلہ سناتے ہیں اور بسا اوقات یہ فیصلہ حیران کن بھی ہوتا ہے۔ان مما لک میں سیاسی پارٹیاں عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتیں۔روٹی کپڑا اور مکان کا خوشنما نعرہ صرف پاکستان میں ہی لگ سکتا ہے اور میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے کھلونوں سے صرف پاکستانی عوام کادل ہی بہلایا جا سکتا ہے۔ہاں بجلی کے منصوبے واقعی ایک ٹھوس تبدیلی کی علامت ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ بھی ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ اب جو نئی حکومت آئی ہے، اس کے لئے یہ دونوں مشکل تریں مسائل کسی سردردری کا باعث نہیں۔ وہ سکون کے ساتھ میگا منصوبوں کو پروان چڑھا سکتی ہے ، ان میں سے صرف بھاشہ ڈیم کا ذکر تو وزیر اعظم نے کیا مگر سی پیک جیساتقدیر بدلنے کا ضامن منصوبہ ان کی تقریر کا حصہ نہیں بن سکا ، کیوں نہیں بن سکا، اس کی بھی کوئی وجہ ہونی چاہئے ، کیا یہ سمجھا جائے کہ نئی حکومت کے لئے یہ منصوبہ اہمیت کا حامل نہیں۔ چلئے سی پیک چین کامنصوبہ ہو گا مگر گوادر کا ذکر گول ہو جائے تو اس پر مجھے سخت حیرت ہوئی، جنوبی پنجاب کے مسائل کا تذکرہ محض ایک سیاسی نعرہ ہے۔ یہ صوبہ بن جانے سے اس علاقے کے لوگوں کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ بلکہ ا س سے جنوبی پنجاب پر وڈیروں اور بڑے جاگیرداروں کے تسلط اور گرفت کو مضبوط بنانے کے مترادف ہو گا۔ جنوبی پنجاب میں جاگیر داروں اور عوام کے معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک طبقے کے پاس نجی ہوائی جہازوں کا بیڑا ہے اور دوسری طرف عوام کی زندگی کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ ملک میں امیرا ور غریب کے درمیان بہیت بڑا تفاوت ہے، پی ٹی آئی نے بڑے فخر سے پنجاب میں ایک ایسے شخص کو وزیر اعلی بنایا ہے جس کے گھر میں بجلی نہیں، مگر یہ تو بتایا ہوتا کہ ا س غریب کے گھیر میں کتنے ایئر کنڈیشنڈ ہیں اور وہ کس طرح چل رہے ہیں، بجلی تو غریب کے گھر میں بھی ہوتی ہے مگر اس کے پاس ایک بھی اے سی نہیں ہوتا۔ پنکھا تک نہیں ہوتا۔ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ بجلی کا بل اد اکرنے کی سکت نہیں رکھتا،ا سلئے نہیں رکھتا کیونکہ بجلی کے نرخ امیر طبقے کی بساط اور سکت کو پیش نظر رکھ کر مقرر کئے جاتے ہیں۔
میری پریشانی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے مسائل کے تعین اور ان کے حل کے لئے اقتدار میں آنے کے بعد کام شروع کیا ہے۔ کاش! یہ ہوم ورک بہت پہلے مکمل کر لیا ہوتاا ور حلف لیتے ہی ٹھک ٹھک اقدامات شروع ہو جاتے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو افسر شاہی اور سفیروں میں رد وبدل کی فہرست بھی تیار رکھنی چاہئے تھی۔ اس طرح اسے اپنے پہلے سودنوں کے کام کی تکمیل میں آسانی ہوتی ۔ بھٹو کے اقتدار سنبھالنے قبل زیڈ اے سلیری ،ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، حتی کہ حسین نقی کو بھی علم تھا کہ انہیں پہلے ہلے میں ہی فکس اپ کر دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کس کا نمدا کسے گی اور کس پر نوازشات کی بارش کرے گی، اس کاکسی کو علم نہیں۔تاہم پنجاب کی نگران حکومت جسے تحریک انصاف کا ہراول دستہ سمجھا جاتا تھا،کچھ کچھ اشارے دے چکی ہے ، اور اس نے جو اقدامات کئے، انہیں بدتریں انتقامی کاروائی ہی سمجھا جائے گا۔مگروزیر اعظم کی تقریر کا ایک ایک لفظ دلوں میں اترتا چلا گیا، ان کے خلوص، ان کی دیانت اور ان کی نیت پر کسی شک کی گنجائش نہیں۔ اب ان کی باتوں پر بلا تاخیر عمل در آمد کا انتظار رہے گا۔
اللہ اکبر ! اللہ کبر! ابھی ابھی خطبہ حج ختم ہوا ہے۔ یہ عربی زبان میں تھا۔ میں عربی نہیں جانتا۔ اس پر مجھے ندامت ہے مگر یقین مانئے کہ خطبہ حج کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ کیا تاثیر تھی خطیب مسجد نمرہ کی آواز میں۔ کیا خلوص تھا ان کے لب و لہجے میں ،کیا درداور تڑپ تھااس بیانئے میں۔ایک خلقت تھی جو تاحد نظر پھیلے ہوئے وسیع میدان میں سر بسجود ہوئی تو اللہ کی کبریائی کا انمٹ منظر دیکھنے میں آیا۔
وزیر اعظم کی تقریر پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے میں خطیب مسجد نمرہ کی تقریر کے لطف و کرم سے سرشار ہو گیا ہوں، کاش! یہی سرشاری مجھے وزیر اعظم کی تقریر سے بھی نصیب ہوتی۔