مدعی سست اور گواہ چست، یہ محاورہ مجھ پر صادق آتا ہے، میں نے پوچھ ہی لیا ہوتا کہ جناب وزیر اعظم !آپ کا ارادہ کیا ہے۔ اپنا دفاع کرنا بھی چاہتے ہیں یا روز بروز کمزور سے کمزور تر ہونے پر تلے ہوئے ہیں،ویسے میں نے کوشش ضرور کی، کہ کسی طرح وزیرا طلاعات سے حکومت کا عندیہ معلوم کر لوں، حکومت کے ایک پرنسپل انفار میشن آفیسربھی ہیں جن سے ملاقات کئی احباب کے ساتھ ہوئی مگر کام کی بات کا پتہ نہ چل سکا، میں نے اپنے تئیں ایک کیس بنایا اور خانہ کعبہ میں قسمیں اٹھانے کا اعلان کر دیا، یہ کیس کمزور نہیں تھا مگر دو تقریروں نے اس کیس کو کمزور کر دیا ہے، مجھے وزیراعظم کی وہ تقریر یادآتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا، نہ جھکوں گا ، نہ ڈکٹیشن لوں گا، اس تقریر کا ایک مسودہ میں نے بھی لکھا تھا ور دو اور لوگوں نے بھی لکھا، میری تقریر کے بجائے کسی دوسرے کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ دی گئی اور انجام یہ ہو اکہ جھکنا بھی پڑا اور ڈکٹیشن بھی لینا پڑی۔اب پتہ نہیں وزیراعظم کا تقریر نویس کون ہے، اصل میں سارا کام وہی خراب کر رہا ہے۔ وزیراعظم کو تو جو لکھ کر دیا جائے گا، وہ پڑھ دیں گے۔
پانامہ لیکس میں دنیا کے ہزاروں لوگوں کے نام ہیں اور پاکستانیوں کے دو سو سے زائد، عمران خاں اور خورشید شاہ کو احتساب کا شوق تھا تو وہ عدالتوں میں دھکے کھاتے رہتے،فرانزک فرموں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے، ساری عمر یونہی کٹ جاتی، ان کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔مگر وزیر اعظم کو جلدی پڑی ہوئی ہے، دو بیٹوں پر الزام کیا آیا ہے کہ انہوں نے اسے دل پر لگا لیا ہے، لوگ پھبتی کستے ہیں کہ دل پر لگائیں گے تو دل کا عارضہ تو لاحق ہوگا۔مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم کی صحت کی خرابی کا کوئی مسئلہ نہیں، اللہ انہیں صحت سے رکھے، کسی کی بیماری پر جو لوگ خوش ہوتے ہیں اور آوازے کستے ہیں ، وہ اوترے نکھترے ہی ہوتے ہیں۔یا انہوں نے اپنی زندگیوں کا بیمہ کروا رکھا ہوتا ہے کہ کبھی بیمار ہوں گے ، نہ انہیں موت آئے گی۔
وزیر اعظم نے کھنک دار لہجے میں کہا کہ وہ خدا کی ذات کے سوا کسی سے ڈرتے نہیں۔زمینی خداؤں سے ڈرنے کی ضرورت بھی کیا ہے مگر جنر ل کاکڑ اور غلام ا سحاق کے ساتھ مقابلے میں انہوں نے جو زبان استعمال کی ، اس کے لئے بھی ایک محاورہ ہے کہ جو گرجتے ہیں ، وہ برستے نہیں۔ننانوے میں جنرل مشرف کے ساتھ لڑائی بھی بھونڈے ا نداز میں کی گئی،میاں صاحب کی مشاور ت بڑی کمزور ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نادان دوست ہمیشہ کام خراب کرتے ہیں بلکہ مروا دیتے ہیں۔میاں صاحب پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ بھٹو جیسے مشیروں سے محفوظ ہیں ، اس کے مشیروں نے اسے پھانسی کے تختے تک پہنچا کر دم لیا۔
مجھے واٹر گیٹ اسکینڈل کی یادآ رہی ہے، صدر نکسن کے مقابلے میں صرف ایک اخبار تھا، سارا اخبار بھی نہیں ،ا س کے صرف دو رپورٹر۔نکسن بھی نواز شریف کی طرح دلدل میں دھنستے چلے گئے، میاں صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ گھر چلے جائیں گے،انہیں عوام نے منتخب کیا ہے ا ور وہی انہیں گھر بھیج سکتے ہیں ، جب وہ خود کہتے ہیں کہ ننانوے میں کسی کو سپریم کورٹ کی یاد نہیں آئی مگر اب اس سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں تو وہ خود کیوں سپریم کورٹ کو خط لکھ رہے ہیں ، سپریم کورٹ کو زیادہ ہی شوق ہوتا تو لے لیتی سو موٹو نوٹس۔اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ میاں صاحب کو فوج کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن تقریر نویس نے میاں صاحب کو مجبور کیا کہ وہ فوج کو بھی للکاریں۔آج کی فوج دہشت گردی کی جنگ میں گوڈے گوڈے ہی نہیں ، ناکوں ناک تک پھنسی ہوئی ہے،اسے حکومت کے خلاف سازش کر نے کی کوئی فرصت نہیں ا ور جس طرح جنرل راحیل نے موجودہ حکومت کو سہارا دے رکھا ہے،ا س سے جنرل راحیل اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں،اس کے باوجود تقریر کا ایک حصہ فوج کے نام وقف کرناضروری سمجھا گیا۔ جنرل راحیل کے ا حسانات کا بدلہ چکانے کا کیا یہی مناسب وقت اور راستہ تھا۔ ہر گز نہیں۔
عمران خان کو ہیرو کس نے بنایا۔ اس کو شوکت خانم ہسپتال ت کے لئے وسیع وعریض پلاٹ میاں صاحب نے دیا،ا س ہسپتال میں ایک معمولی دھماکہ ہوا،تو میاں شہباز شریف معائنے کے لئے جا پہنچے اور جب پچھلے الیکشن میں انتخابی لڑائی عروج پر تھی ا ورعمران خان کرین سے گر کر زخمی ہوا تو پھرمیاں صاحب اس کے سرہانے جا کھڑے ہوئے، ان کی دیکھا دیکھی سعودی سفیر نھی کمرے کے باہر جا کھڑے ہوئے اور رسوا ہو کر لوٹ آئے کہ عمران نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔بنی گالہ کے تین سو کنال کے محل میں میاں صاحب چائے پینے پہنچ گئے۔ کیا وزیر اعظم کو دوست ا ور دشمن میں فرق کرنا نہیں آتا۔ا س شخص کو انہوں نے خودبانس پر چڑھا یا،اسے مہینوں تک دھرنے کی ا جازت دی، پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر نے دیا، ٹی وی پر قبضہ جمانے دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن سے کوئی ایک تھانیدار بھی اچھی طرح نبٹ سکتا ہے مگر عمران خان کے ناز نخرے برداشت کئے گئے۔ وہ پیدائشی طور پر مغرور تھا، شکر ہے ابھی تک ا س نے خدائی کا دعوی نہیں کیا مگراس کی رعونت دیکھنے والی ہے۔ یہ رعونت ملکہ معظمہ میں بھی نہیں، صدر امریکہ میں نہیں،بچے کھچے روس کے صدر پوٹن میں نہیں اور ایک چوتھائی آبادی والے ملک چین کے صدر میں نہیں۔ میاں صاحب نے عمران خان کے ناز نخرے سہہ سہہ کر اسے بھوئیں چڑھا دیا ہے،خدا نہ کرے کہ وہ کبھی اقتدار میں آئے ورنہ دنیا ماضی کے ڈکٹیٹروں کے جبر کو بھول جائے گی اور مؤرخ اس کے گناہوں کی کچھ ذمے داری میاں صاحب پر بھی عائد کرنے پر مجبور ہو گا۔
لومڑی اور شیر کے قصے کا سبق یہ تھا کہ چالاک لومڑی کے جھانسے میںآ کر شیر کو اپنے نوکیلے پنجے اور خونیں دانت نہیں نکلوا دینے چاہئیں مگر کون ہے جو اس قصے سے سبق سیکھے۔ ہمارے سامنے ایک شیر ہے جو لومڑی کے تقاضوں پر اپنے تیز دھار دانتوں اور نوکیلے پنجوں کو کٹوا رہا ہے ۔الف لیلہ کا قصہ حقیقت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آئس لینڈ کوئی رومن ایمپائر نہیں کہ اس کے وزیر اعظم کے استعفے سے قصری کے محل ملبہ بن جائیں گے اور نہ پانامہ کی کوئی ایسی حیثیت ہے کہ ا س کا کہا الہام کے برابر ہے۔ پانامہ جیسے درجنوں ملک بھونکتے رہیں ، بھونکتے رہیں، ان کو جوتی کی نوک پر رکھنا چاہیےء جیسے روسی صدر پوٹن نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ مگر ہمارے وزیر اعظم کو نجانے کیوں جلدی پڑی ہوئی ہے۔
مدعی سست اور گواہ سست۔ وہ تو اپنے وکیلوں کو بھی سزا دلوا بیٹھیں گے، توبہ بھئی توبہ !!