خبرنامہ

وزیر اعظم کا دل، پاکستان کا دل۔۔اسداللہ غالب

ہاتھ دعاؤں کے لئے اٹھے ہوئے ہیں، اپنوں کے بھی اور دشمنوں کے بھی۔
پچھلے سال میرے ایک قریبی دوست نے مجھ سے کہا کہ تمہارے مریض کے معالج نے کہا ہے کہ انہیں بری خبر سنا دو کہ تمہارا مریض بچ جائے گا۔اور یہ بری خبر سچی ثابت نہ ہوئی، میر امریض جانبر نہ ہو سکا، اللہ ایسے دوستوں سے بھی بچائے۔اور ایسے معالجوں کو بھی ہدائت عطا فرمائے جو زندگی اور موت کے پل صراط پر لٹکے ہوئے رشتے داروں کے ساتھ طنز کرنے سے باز نہیں آتے۔وزیر اعظم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسے حریف ملے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے نیکی ہی نیکی کی ہے، عمران خان کرین سے گر کر کمر تڑوا بیٹھا تو وزیراعظم نے اپنی الیکشن مہم روک دی اور سیدھے ان کی خبر لینے ہسپتال پہنچ گئے۔ محترمہ بے نظیر شہید ہوئیں تو بھی میاں صاحب نے اپنا جلسہ چھوڑا اور ہسپتال میں جا پہنچے جہاں انہیں پتہ چلا کہ محترمہ زخموں کی تاب نہ لا کر اس دنیا ئے گان کو چھوڑ چکیں، یہ جان کر ان کی آنکھیں بھیگ گئیں، اس وقت تک خود زردار ی صاحب بھی دوبئی سے واپس پنڈی نہیں پہنچ سکے تھے۔
میاں صاحب کے ا سی حسن سلوک کی وجہ ے آج ہر شخص ان کے لئے دعا گو ہے۔شرافت کا یہ رویہ ا نہیں والد بزرگوا ر سے ورثے میں ملا ہے، ہر ایک کے ساتھ ا حترام کے ساتھ پیش آنا۔یہی طرز عمل آج میاں صاحب کے کام آ رہا ہے، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے مداح ان کے لئے دعائے خیر کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے ہر ایک کے ساتھ نیکی کرنے کوشش کی، یہ الگ بات ہے کہ جواب میں ا نہیں نیکی نہیں ملی مگر اب جبکہ وہ ایک ابتلا سے گزر رہے ہیں تو ان کے کٹر حریف بھی ان کے لئے دعاگو ہیں۔
وزیر اعظم کے بارے میں لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی ا ور لوگ کہتے ہیں کہ وہ دو دن جیل میں نہیں گزار سکتے مگر تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے تاریک تہہ خانوں میں بچھووں کے ساتھ راتیں بسر کیں، ان کو جہاز کی سیٹ کے ساتھ بیڑیوں سے جکڑ کر ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جاتا رہامگر ان کے حوصلے کو نہ توڑا جا سکا۔انہوں نے ایک بار غلام ا سحا ق خان سے ٹکر لی ا ور نشری تقریر میں کہا کہ انہیں نہ جھکایا جا سکتا ہے، نہ انہیں ڈکٹیشن دی جا سکتی ہے،اور یہ بات انہوں نے سچ ثابت کر دکھائی، ان کی حکومت توڑی گئی مگر وہ اسحا ق خان کو بھی گھر بجھوا کرگھر آئے۔اسلامی جمہوری اتحاد کے دنوں میں ان کی فائٹنگ اسپرٹ دیکھنے والی تھی۔وہ شمشیر برہنہ بن کر میدان میں اترے تھے۔وہ ارادے کے پکے ہیں۔
کون ہے جسے معلوم ہو کہ تین دن بعد اس کی اوپن ہارٹ سرجری ہو گی ا ور وہ ایک شان بے نیازی کے ساتھ برگر کھاتا پھرے ۔وزیرا عظم نے لند ن جانے سے پہلے بھر پور جلسے کئے اور وہ پورا ملک گھوم گئے۔ ایسا وہی کر سکتا ہے جس کے اعصاب فولاد کے بنے ہوں ۔اگر گلاب کی جڑوں کے ساتھ چمٹی ہوئی مٹی سے گلاب کی خوشبو آ سکتی ہے تو فولاد کا کاروبار کرنے والا فولادی اعصاب کا مالک ہی تو ہو گا۔
چند سال قبل وزیر اعظم اس ابتلا سے گزر چکے ہیں، ان کا روٹین کا چیک اپ ہو رہا تھا کہ ایک شریان پھٹ گئی جس کی وجہ سے ہنگامی طور پر آ پریشن کی نوبت آ گئی، یہ ایک لحاظ سے نئی زندگی تھی، میاں نواز نواز شریف کو بار بار نئی زندگی مل رہی ہے، یہ ان کی کوئی نیکی ہے جو ان کے کام آ رہی ہے، یاا ن کے والدین کی دعائیں ہیں جو انہیں لگ رہی ہیں یا ان کے چاہنے والوں کی نیک تمنائیں ہیں، یا قدرت نے ان سے کوئی کام لینے ہیں ۔کام تو وہ بڑے بڑے کر رہے ہیں ، اس ملک میں جب کسی کو موٹرو ے کا پتہ ہی نہ تھا تو انہوں نے موٹر وے بنا ڈالی، لاہور میں ان کے بھائی نے میٹرو چلا دی،ا ور اسے پنڈی اور ملتان تک پھیلا دیا، اب لاہور میں میٹرو ٹرین کا منصوبہ تیز رفتاری سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لیے اتنے منصوبے ہیں کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر نہیں گنے جا سکتے، چین پاک راہداری کا منصوبہ تو خطے کی تقدیر بدلنے کا باعث بنے گا۔
بہر حال یہ موقع ان کے کارنامے گنوانے کا نہیں بلکہ وقت دعا ہے، خدا ا نہیں صحت کاملہ سے نوازے ، وہ جلد ٹھیک ہوں اور وطن کی خدمت کریں اور تواناجسم کے ساتھ جمہوریت کو کو توانا کریں، بیماری کے دوران آئین کے مطابق وہ اپنے اختیارات منتقل کر سکتے ہیں ، ان میں بڑا مسئلہ بجٹ کی منظوری ہے جسے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انجام دیا جا چکا ہے۔باقی معمولات انجام دینے کے لئے میکنزم آئین ا ور قانون میں موجود ہے، افواہیں بہت چل رہی ہیں مگر وزیر ا عظم جو مناسب سمجھتے ہیں، انہیں وہی کرنا چا ہئے اور یہ حق انہیں حاصل ہے۔۔امریکی آئین کی رو سے صدر کی جگہ کسی بھی ناگہانی صورت میں نائب صدر خودبخود حکومت کی باگ ڈورسنبھال لیتا ہے، ہمارے ہاں ایسی کوئی گنجائش شاید آئین میں موجود نہیں مگر آئندہ کے لئے متبادل نظام وضع کرنا ضروری ہے تاکہ یہ جو افواہوں کا بازار گرم ہے،ا س سے ملک محفوظ رہ سکے۔
ایک کام جو فوری طور پر کرنا ضروری ہے ، وہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے ہنگامے پر سیز فائر ہو جانی چاہئے۔جب وزیر اعظم اللہ کے فضل و کرم ا ورقوم کی دعائیوں سے صحت یاب ہو کر آ جائیں تو جیسامرضی دنگل لگا لیا جائے مگرا سوقت تک اس بحث کو نہ ہی چھیڑ ا جائے تو یہ وزیر اعظم ا ور ان کے خاندان کے ساتھ ایک بہت بڑی نیکی ہو گی۔ وزیر اعظم خود بھی آپریشن تھیٹر میں جانے سے پہلے ایک وڈیو پیغام میں اپنے لئے دعائے صحت کی اپیل کر دیں تو اس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیر اعظم کے مخالفین ایک بار پھر جان لیں کہ ان کا سابقہ جس شخص سے پڑا ہے ،وہ حوصلہ مند انسان ہے۔اور اللہ کااس پر خصوصی کرم ہے، دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر انہیں سدا اپنے فضل وکرم کے سائے میں رکھے۔اوپن ہارٹ سرجری کے مریض کو ہوش میں آتے ہیں چلنے پھرنے کی تلقین کی جاتی ہے ، میں ایک ایسے امراض قلب کے معالج کو جانتا ہوں جو اپنے دل کے آپریشن کے چھٹے روز معمولات انجام دے رہے تھے۔یہ معجزہ ہے ا ور اللہ ایسے معجزوں پر قادر ہے۔
وزیر اعظم کا دل دھڑکتا رہے اور قوم کا دل توانا رہے۔