خبرنامہ

وزیر اعظم کی بیماری اور حکومت کاری۔۔اسداللہ غالب

روک لو

وزیر اعظم اگرصحت یابی کے بعد لندن سے واپسی پر دارالحکومت میں قیام فرماتے تو مجھے آج کا ،کالم لکھنے کا خیال ہی نہ آتا۔
ریاست اور فرد کا مقابلہ کیا جائے تو فرد ریاست پر مقدم نہیں، کوئی شخص ناگزیر بھی نہیں سمجھا جاتا۔دو روزپہلے برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون کا ڈنکا بجتا تھا،اب ان کاکوئی اتا پتا بہیں ملتا۔میڈم تھریسا مے نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے۔ کیمرون کے پاس عزت سے رخصتی کی چوائس موجود تھی،ا سکے والد کا نام آف شور کمپنیوں میں آ گیا تھا، پانامہ لیکس نے کیمرون کے عظیم نام کو لیک لگا دی تھی مگر کیمرون نے ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کیا اور ایک ریفرنڈم میں بری طرح شکست کھا کر آخر یہی اقتدار جو انہیں بے حد عزیز تھا اور جس پر وہ دوسری مرتبہ فائز تھے ا ور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ فائز تھے، وہاں سے انہیں خوا رو زبوں ہو کر رخصت ہونا پڑا۔
ریاست مقدم ہے، فرد نہیں۔
ہمارے وزیر اعظم بیمار پڑے، خود انہوں نے یہ تاثر دیا کہ خیر سے کوئی سنگینی در پیش نہیں، ہسپتال جانے سے پہلے وہ برگر کھاتے اور شاپنگ کرتے نظرآئے اور ہسپتال سے فراغت کے بعد بھی ان کے معمولات، معمول کے مطابق تھے، وہ تھری پیس سوٹ کے ساتھ ہسپتال کی سیڑھیاں اترے، گھر گئے، اور پھر بازار میں نمودار ہوئے، وہی برگرا ور وہی شاپنگ، ان کے پرستارا ور بہی خواہ خوش تھے ، مطمئن تھے، شاد کام تھے مگر ڈاکٹروں نے اگلے ایک ماہ تک انہیں ہوائی سفر کی اجازت نہیں دی، پھر پتہ چلا کہ وہ پی ایم سیکرٹریٹ کو اپنے پاس لندن میں بلا چکے ہیں، یہ ایک عجوبہ ہے کہ لندن بیک وقت پاکستان ا ور برطانیہ دو آزاد اور خود مختار ممالک کے دارالحکومت کے طور پر کام دے رہا تھا۔ ہمارے وزیرا عظم طبعی طور پر لندن میں موجود تھے مگرسارے احکامات ا ورساری چٹھیاں اسلام آباد سے جاری فرما رہے تھے۔ ابن خلدون بے چارہ سر پکڑے بیٹھا رہ گیا،ا سنے دنیا کو زمان و مکان کا نظریہ دیا تھا مگر یہ نظریہ باطل ہو کر رہ گیا تھا، زمان و مکان کی حدیں اور ان کے درمیان فاصلے مٹ چکے تھے، یہ تاریخ کا ایک عجوبہ ہے۔
تواریخ میں لکھا ہے کہ جمشید نامی ایک بادشاہ ہو گزرا ہے جو ایک پیالے میں ساری سلطنت دیکھ سکتا تھا، اسی پیالے کی مد دے سلطنت کی دیکھ بھال کرتا رہا۔آج کے دور میں وڈیو کانفرنس نے ا س جام جمشید کی جگہ لے لی ہے، ہمارے وزیر اعظم نے اسی وڈیو کانفرنس سے بجٹ اجلاس اور کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔ یہ زمانہ جدید ٹیکنا لوجی کا ہے مگر ابھی تک عالمی اٹلس نے اس ٹیکنالوجی کو تسلیم نہیں کیاا ور ممالک کے درمیان سرحدی لکیریں ویسے کی ویسے قائم ہیں۔وڈیو کانفرنس بھی ملک کی جغرافیا ئی حدوں کے اندر ہی ہو نی چاہئے۔ خاص طور پر ریاستی امور کی انجام دہی کے لئے ابھی جدید ٹیکنالوجی کسی ایس او پی کا حصہ نہیں بنی۔
وزیراعظم کی صحت یابی کے لئے ہر ایک نے دل سے دعائیں کیں۔ان کے خیر خواہوں نے تو کرنا ہی تھیں مگر ان کے بظاہر مخالفین نے بھی کیں۔ مگر قدرت کااپنا ایک نظام ہے ، وزیر ا عظم واپس آئے ہیں تو اپنے گھر میں مقیم ہو گئے ہیں اور یہیں اپنا دفتر جما لیا ہے، ملک کے آئین میں جاتی امرا کی حیثیت دارالحکومت کی نہیں۔اس لئے اسے دارالحکومت کے طور پر استعمال کیسے کیا جارہا ہے، یہ بات میری ناقص فہم میں نہیں آ رہی۔
ہم نے ایک دور پہلے بھی دیکھا ہے جب ایک بیمار اور معذور گورنر جنرل نے ہمارے ا وپر حکومت چلائی، بلکہ دو مرتبہ اس نے اپنا وزیر اعظم بھی بدلا ، ایک بار واشنگٹن کے سفیر بوگرہ کو بلا کر وزیر اعظم بنا دیا ، پھر ایک سرکاری ملازم چودھری محمد علی کو اس مسند پر فائز کر دیا۔ بیمار تو قائد اعظم بھی ہوئے اورآرام کی خاطر زیارت ریذیڈنسی چلے گئے۔انہوں نے وہاں اپنی کابینہ کاا جلاس نہیں بلایا، ایک مرتبہ وزیر اعظم خود وہاں گئے، قائد نے اپنی بہن سے کہا کہ یہ دیکھنے کے لئے آئے ہیں کہ میں کتنے دن زندہ رہوں گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔یہ روایت کتابوں میں درج ہے۔
میاں نواز شریف کی بیماری نے مختلف شکل اختیار لر لی ہے، وہ اپنے ذاتی گھر سے ریاستی ا ور حکومتی امور چلا رہے ہیں۔ ملک میں گھومنے پھرنے سے وزیر ا عظم کو آئین نہیں روکتا مگر آئین میں دارالحکومت بدلنے کی قطعی گنجائش نہیں۔
وزیر اعظم کے معمولات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معمول کے مطابق منصبی ذمے داریاں نبھانے کے قابل نہیں ، اللہ ان کو جلد صحت دے مگر ان کی علالت کے دوران ملک سنگین مسائل سے دوچار ہو رہا ہے، کشمیر میں بھارتی فوج نے جبراور ظکم کا بازار گرم کر دیا ہے، وحشت کی انتہا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ا س کا نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔اور اگرا س سنگینی سے کوئی ٹس سے مس نہیں ہو اتو وہ پاکستان ہے،ٹھیک ہے وزیر اعظم نے ایک بیان دیا، آرمی چیف نے بھی یہ مسئلہ کور کمانڈرز کانفرنس میں اٹھایا مگر حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت پاکستان اس پر متحرک ا ور سرگرم ہو اور بھارتی بر بریت کو عالمی برادری کے سامنے ننگا کرے تاکہ ا س سے پہلے کہ بھارت کوئی الزام تراشی کر کے سارا ملبہ ہم پر ڈال دے، ہمیں اپنا کیس دنیا کے سامنے رکھ دینا چاہئے۔ حال ہی میں این ایس جی کی رکنیت کا مسئلہ درپیش ہوا تو بھارتی وزیراعظم ملکوں ملکوں گھوم گئے مگر اس دوران ہمارے وزیر اعظم بد قسمتی سے صاحب فراش تھے ا ور کوئی بھی ان کی جگہ عالمی برادری سے رابطہ نہ کرسکا، دفتر خارجہ نے دعوی تو کیا کہ وزیراعظم نے سترہ ملکوں کوخط لکھے اور گیارہ ملکوں نے ہمیں ووٹ دیاا ور بھارت کی ایک نہیں سنی، مگرا سکے لئے چینی حکومت کو دعا دیجئے،ا س میں ہمارے دفتر خارجہ یا اس کی ارسال کردہ چٹھیوں نے کوئی جادو نہیں دکھایا۔
اللہ تعالی سے پھر دعا ہے کہ وزیر اعظم جلد صحت یاب ہوں اور دارالحکومت میں اپنا دفتر سنبھالنے کے قابل ہوں مگر جب تک وہ اس قابل نہیں ہوتے تو ملکی مفاد کا تقاضہ ہے کہ ایک ہمہ وقتی ا ور فعال ویزر اعظم مقرر کیا جائے۔ مشرف دور میں ایک نسخہ آزمایا گیا تھا کہ چودھری شجاعت کو چند ماہ کے لئے وزیر اعظم بنا دیا گیا،اس دوران میں شوکت عزیز نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑاا ور جیت کر وزارت عظمی کامنصب سنبھال لیا، آج بھی میاں نواز شریف کے پاس با اعتماد دوستوں کی کوئی کمی نہیں ، وہ چودھری نثار، خواجہ محمد آصف یا اسحق ڈار میں سے کسی کے حق میں دست بردار ہو جائیں تاکہ ملک کو باقاعدہ ایک ایکٹو وزیر اعظم مل سکے، جب بھی وزیراعظم شفا پائیں ، وہ واپس اپنامنصب سنبھال سکتے ہیں، ایوان میں انہیں قطعی اکثریت حاصل ہے، اس لئے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اور اگران کی بیماری یا نقاہت کا عرصہ لمبا ہو جائے تو وہ اپنے بھائی شہباز شریف کو قومی اسمبلی بھجوا کر یہ منصب عطا کر سکتے ہیں۔اس انتظام میں کسی کا باہر سے کوئی عمل دخل نہیں، نہ ان پوسٹروں کا جو شہر شہر آویزاں ہو رہے ہیں، یہ پوسٹر جو بھی لگا رہا ہے،ا سے اب تک حوالات میں ہونا چاہئے تھا تاکہ سول ملٹری تصادم کی وہ بحث کھڑی نہ ہوتی جو درباریوں ا ور حاشیہ نشینوں نے شروع کر رکھی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب پولیس اڑتی چڑیا کے پر گن سکتی ہے تو کیا وہ پوسٹر لگانے والوں کا سد باب نہیں کر سکتی۔
مجھے یاد آرہا ہے، ایک میجر رشید وڑائچ ہوتے تھے جو آرمی چیف کو دعوت دینے والے پوسٹرلگایا کرتے تھے، پھر ایساہوا کہ وہ نواز شریف کی حکومت میں وزیراعظم معائنہ کمیشن کے رکن بن گئے۔اب میجر رشید کاکردار کون ادا کر ہا ہے اوراسے صلہ کس صورت ملے گا۔ یہ غیر متعلقہ سوال لگتا ہے مگر ہے دلچسپ اور منطقی!میں اس امر کا بھی شاہد ہوں کہ یہی میجر رشید وڑائچ چیف جسٹس بحالی تحریک میں جو پوسٹر تیار کرتے تھے ، وہ جی او آر لاہور میں مقیم ایک ڈی جی پی آر کی مدد سے تیار ہوتے تھے۔یہی ڈی جی پی آر آج ایک اعلی منصب پر فائز ہیں۔اللہ انہیں مزید ترقی دے۔