خبرنامہ

وزیر اعظم کے اندر سے لیڈر اعظم نکل آیا…اسداللہ غالب

میاں نوازشریف

وزیر اعظم کے اندر سے لیڈر اعظم نکل آیا…اسداللہ غالب

ابھی جی ٹی روڈ پر نہیں چڑھے، پنڈی سے بھی نہیں نکل پائے۔ پہلا روز گزر گیا، عوام کا ایک سمندر تھا جو امڈ امڈ پڑا تھا۔

سوچا کیا تھا، ہو کیا گیا، وزیراعظم کو تو گھر بھیج دیا گیا تھا، تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تھا مگر نصف شب کے ہنگام میں عوام سے سوال ہوا کہ کیا آپ فیصلے کو قبول کرتے ہیں، ہر طرف سے آوازیں گونجیں اور گونجتی ہی رہیں کہ نہیں، نہیں، نہیں، نواز شریف نے کہا کہ یہ عوام کی عدالت کا فیصلہ ہے۔
میں نے دو روز پہلے لکھا تھا کہ اگر عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر ڈر کاہے کا۔
مجھے عوامی تائید کی چند اور مثالیں یا د آ رہی ہیں، پشاور میں ننھے منے پھولوں کو شہید کیا گیا، ڈیڑھ سو معصوم خون میں نہلا دیئے گئے تو عوام ضرب عضب کے پیچھے تن کر کھڑے ہو گئے اور پھر وہ ہو گیا جو قبائلی علاقے کی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا کہ مسلح افواج نے ان چوٹیوں کو، اور ان کی گھاٹیوں میں گھات لگائے دہشت گردوں کو سرمہ بنا دیا۔
یہی فوج تھی جسے مشرقی پاکستان میں عوامی تائید حاصل نہیں تھی تو پاکستان دولخت ہو گیا اور فوج کی ایک پوری کور کلکتہ کے نواحی جنگی کیمپوں میں قیدی بنا لی گئی۔
ٹھیک چالیس سال قبل لاہور کے بیڈن روڈ کے چوک اور داتا دربار کے سائے میں عوام نے بھٹو شاہی فورس کے سامنے سینے کھول دیئے، تین نوجوان تڑپے، ان کا خون خاک میں ملا اور بھٹو کی ساری قوت و حشمت خاک میں مل گئی۔
عوام کی طاقت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا۔ اس طاقت کو کوئی ٹھکرا بھی نہیں سکتا۔
ڈیگال کے ملک پر ہٹلر کی فوج نے قبضہ کیا تو اکیلا ڈیگال ڈٹ گیا، اس نے فرانسیسی عوام سے کہا کہ میں تمہیں لڑنے کا نہیں، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اور جب فرانسیسی عوام نازی ٹینکوں کے سامنے مرنے کے لئے ڈٹ گئے تو ہٹلر کی فوج فرانس سے پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی، ڈیگا ل لندن سے فاتحانہ مارچ کرتا ہوا پیرس جا پہنچا۔
تاریخ میں بزدلوں کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا، تاریخ زندہ، تابندہ اور بہادر لوگوں کے سنہری کارناموں کا دوسرا نام ہے۔
نواز شریف کوفیصلہ کرنے میں چند روز ضرور لگے۔ ان کے حریفوںنے پھبتیاں کسیں کہ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا۔
نواز شریف کو یہ طعنے بھی سننے کوملے کہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو عوام کو بھول جاتے ہیں اور کرسی چھن جائے تو عوام یاد آ جاتے ہیں۔ یہ طعنہ برائے طعنہ تو ٹھیک ہے مگر طعنہ دینے والے نہیںجانتے کہ نواز شریف جب کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو وہ دل و جان سے انہی عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں جت جاتے ہیں۔ یہ جو پاکستان بدلا بدلا نظر آتا ہے، وہ انہی عوام کے لئے نواز شریف کا کرشمہ اور تحفہ ہے۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک موٹرویز کاجال پھیلا ہوا ہے، اور اب ان موٹر ویز کو ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم الشان منصوبے کے تحت تین براعظموں سے ملا دیا گیا ہے، یہ اسی نواز شریف کا کرشمہ ہے جسے آپ عوام سے کٹ جانے کا طعنہ دیتے ہیں، وہ بظاہر کٹ جاتا ہے مگر اپنے وعدوں کی تکمیل کرتے ہوئے ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی روشن کر دیتا ہے، اب کچھ منصوبے ادھورے ہیں، یہ ان اندھیروں کو دور کرنے کے لئے ہیں جو آمر مشرف نے ملک پر مسلط کئے تھے۔ نواز شریف کو کرسی ملی تو لوڈ شیڈنگ عذاب بن چکی تھی۔ نواز شریف عوام کے ساتھ میلوں ٹھیلوں میں مشغول ہو جاتا تو وہ انقلاب نہ آتا جس کی تکمیل اگلے سال جون تک یقینی طور پر ہونے والی ہے، ملک میں اتنی بجلی پیدا ہو گی جو پچھلے ستر سالوں میں پیدا نہیں کی جا سکی اور یہ ستر برس صرف تین آمروں کے گیارہ گیارہ سال کے شکنجے میں جکڑے رہے، ایک آمر کو دو سال ملے، اس نے ملک کا تیا پانچہ کر دیا۔ عوام کی خوش حالی اور ترقی کی طرف توجہ دینے والا کوئی نہ تھا۔
آج میرا ایک نوعمر پوتا بھی سوال کرتا ہے کہ اس ملک میں نواز شریف کے علاوہ کو ئی ایک بھی اور لیڈر ایسا کیوں نہیں جو ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن رکھ سکے۔ میں اسے کیا جواب دوں، سوائے ا س کے کہ میں اسے کہتا ہوں کہ وہ پشاور چلا جائے، کراچی اور نوڈیرو چلا جائے، اسے ہر جگہ خاک اڑتی نظر آئے گی۔، تھر میں تو بچے پیاس کے مارے مر رہے ہیں اور پشاور کے برساتی نالوں میں طغیانی آتی ہے تو ہزاروں گھرانے اجڑ جاتے ہیں۔
جو فیصلہ آیا ہے، اس سے نواز شریف کی نہیں، عوام کی قسمت کھوٹی ہوئی ہے۔ یہ عوام اپنے دکھ کے اظہار کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہیں، عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، اس پر عمل ہو چکا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ مگر عوام کا فیصلہ اپنا ہے۔ انگریز کی خواہش تھی کہ وہ سدا برصغیر کو محکوم بنائے رکھے مگر برصغیر کے عوام ڈٹ گئے اور آزادی کا مطالبہ کر دیا، مسلمانوںنے دیکھا کہ انگریز کی رخصتی تو ہو جائے گی مگر ہندو اکثریت ان پر غالب آ جائے گی تو قائداعظم کی پکار پر انہوں نے مینار پاکستان کی وسیع و عریض گراﺅنڈ میں جمع ہو کر پاکستان کا مطالبہ کیا، انیس سو چالیس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر انگریز اور ہندو، دو نوں کی ٹانگیں کانپ اٹھیں اور پاکستان کے قیام کا معجزہ عمل میں آ گیا۔
یہ عوام کی طاقت کا فیصلہ تھا۔
سارے فیصلے آسمانوں پر نہیں ہوتے۔ بتر س از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن۔ اجابت از در حق بہر استقبال می آئد۔ مظلوموں کی آہ سے ڈرو کہ جب وہ دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اللہ کے دربار سے قبولیت اس کے استقبال کے لئے آگے بڑھتی ہے۔
کہا گیا کہ جب فیصلے پر عمل ہو گیا تو اس کے خلاف احتجاج چہ معنی دارد! کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی مگر زبان ان کی بھی چل رہی ہے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر عمل تو کروا لیا مگراسے آج تک قبول نہیں کیا۔ فیصلہ تو جسٹس منیر کا بھی لاگو ہو گیا کہ نظریہ ضرورت کا تقاضہ تھا مگرا س نظریہ ضرورت کے فیصلے کو عوام نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس فیصلے کو ہر ایک نے دھتکارا۔ فیصلے کرنا فیصلہ کرنے والوں کا حق ہے مگر اسے ماننا یا نہ ماننا متعلقہ فریقوں کا اور عوام کا حق ہے۔ ماضی میں کئی وزرائے اعظم کو ٹھوکر مار کر حکومت سے نکالا گیا، ان کے خلاف فیصلے بھی آئے، فیصلے تو خیر فیصلے ہیں مگر آئین میں بھی لکھا گیا کہ ضیا الحق تا حیات صدر ہو گا، یہ بھی لکھا گیا کہ کوئی تیسری مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا مگر نواز شریف تیسری بار بنے اور اگر انہوں نے عوامی رابطہ مہم کو کامیابی اور دل جمعی سے جاری رکھا تو انہیں چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فیصلہ تو یہ بھی کر دیا گیا تھا کہ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس نہیں رہے، دو اعلیٰ ترین جرنیلوں نے آرمی ہاﺅس میں ان پر سخت دباﺅ بھی ڈالا، انہیں بھی اپنا حق لینے کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑ گیا مگر ان کے بال کھینچے گئے، ان کے بچوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا، روٹی اور دودھ کی سپلائی بھی روک دی گئی مگر اسی جی ٹی روڈ پر نواز شریف کا قافلہ نکلا۔ دفعہ ایک سو چوالیس بھی نافذ تھی، وہ شاہدرہ میں تھے کہ انہیں آرمی چیف کا فون آ گیا کہ چیف جسٹس بحال کئے جا رہے ہیں مگر نواز شریف آگے بڑھتے رہے اور گوجرانوالہ میں اس وقت بستر پر سوئے جب صبح کے اندھیرے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نیند سے بوجھل آنکھیں ملتے ہوئے شدید گھبراہٹ میں تقریر کی کہ چیف جسٹس بحال کر دیئے گئے۔
پتہ نہیں لوگ جی ٹی روڈ کی طاقت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا بڑا بے رحم واقع ہوا ہے، کسی دل جلے نے لکھا ہے کہ نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر جلوس نکالا اور عدلیہ کو بحال کروایا، آج اسی عدلیہ نے انہیں برطرف کر کے براستہ جی ٹی روڈ واپس بھجوا دیا ہے۔
سوشل میڈیا جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار ہے، اسے کیا معلوم کہ جی ٹی روڈ پر ہمیشہ فاتحین نے سفر کیا ہے۔
جی ٹی روڈ نے وزیراعظم نواز شریف کو لیڈر اعظم نواز شریف بنا دیا ہے۔ میں لیڈر اعظم کا ترجمہ قائداعظم تو نہیں کر سکتا مگر اسے انگریزی کے لفظ گریٹیسٹ سے تعبیر کروں گا۔ The Greatest محمد علی کلے کی خودنوشت کا عنوان ہے۔ میںنواز شریف کو محمد علی کلے سے تشبیہہ دیتا ہوں، وہ فائٹر تھا، نواز شریف بھی فائٹر ثابت ہو رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ فائٹ کی اور جنگ جیتی۔