خبرنامہ

ووٹ لو، نوٹ دو بمقابلہ ووٹ کو عزت دو….ااسداللہ غالب

ووٹ لو، نوٹ دو بمقابلہ ووٹ کو عزت دو

سینٹ کے حالیہ الیکشن میں ایک تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہاں ووٹ کو امانت تصور نہیں کیا جاتا، اسے بازار ی جنس سمجھاجاتا ہے اور جو زیادہ بھاﺅ لگاتا ہے، ووٹ اسے ملتے ہیں، کم بھاﺅ لگانے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔
سبھی پارٹیوں نے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے۔پیپلزپارٹی نے ذرا کم شور مچایا مگر ووٹ اس نے بھی لئے ، کس گیدڑ سنگھی کو استعمال کیا۔ اللہ ہی جانے یا ووٹروں کاضمیر جانے۔ مگر ن لیگ اور تحریک انصاف نے تو دہائی مچا دی کہ ظلم ہو گیاا ور چار پانچ کروڑ روپے میں ایک ایک ووٹ خریدا گیا، تحریک انصاف نے تو ابتدائی تحقیقات بھی کر لیں کہ ان کے کئی ووٹر ہارس ٹریڈنگ کے مکروہ دھندے میں ملوث ہوئے۔ مگر عمران خاں نے اپنی بے چارگی کا اظہار کیا کہ یہ تو پتہ ہے کہ کس نے ووٹ خریدے مگر یہ پتہ نہیں کہ بکاﺅ مال کون تھے۔ن لیگ کے ایک امپورٹد امیدوا ر زبیر گل کو بری طرح شکست ہوئی جبکہ پنجاب اسمبلی سے تحریک انصاف کے چودھری سرور نے چودہ ووٹ خریدے، گو وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں مگر یہ بتانے سے انکاری ہیں کہ انہیں ووٹ کس نے دیئے۔سندھ میں ایم کیو ایم نے اپنا خانہ خراب خود کیا اور ایسی دھڑے بندی کر لی کہ ان کے ووٹر وں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس کو ووٹ دیں ۔ اس پراگندہ ماحول کا فائدہ پیپلز پارٹی نے خوب خوب اٹھایاا ور اپنی تعداد سے زیاد سینیٹر منتخب کرو الئے۔بلوچستان کا قصہ اور بھی ڈرامائی تھا، وہاں کچھ عرصہ قبل ن لیگ کے وزیراعلیٰ تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوئے اور خود ہی استعفےٰ دینے پر مجبور ہو گئے، اس طرح اس صوبے سے ن لیگ کی حکومت کا صفایا ہو گیا۔اور یہاں بھی پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروںنے ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ کیا۔صوبے کے ایک سابق وزیر اعلیٰ سردار غوث بخش باروزئی ریکارڈ پر ہیں کہ ضمیر کے سودے میں کوئٹہ میں پیسہ ختم ہو گیا تو کراچی سے نوٹوں کے ٹرک منگوانے پڑے، اسی طرح کا الزام شیخ رشید نے پشاور کے بارے میں لگایا کہ وہاں بھی کیش کم پڑگیا تو پنڈی سے نوٹوں کی سپلائی کی گئی۔اس قدر کھلے عام ووٹوں کی منڈی میں دن بھر جو سودے ہوتے رہے، اس پر رواں تبصرے پاکستان کے سو سے زائد ٹی وی چینلز پر جاری رہے اور اگلے روز کے اخبارات نے شہہ اور سیاہ سرخیوں کے ساتھ ووٹوں پر ڈاکے کا ذکر کیا۔
پاکستان میں ووٹ اور ضمیر کی منڈی پہلی بار نہیں لگی۔ تقسیم سے قبل پنجاب کے مسلمانوںنے ہندو سے مراعات لے کے یونینیسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور انیس سو چھیالیس کے الیکشن تک کانگرسی سائے میں حکومت چلائی۔ چھیالیس کے الیکشن میں قائد اعظم نے ملک برکت علی کو اسپیکر کے عہدے کے لئے نامزد کیا، اسمبلی میں مسلم لیگی ووٹوں کی تعداد بیاسی تھی مگر ملک برکت علی کوصرف چار ووٹ پڑے، مسلم لیگ کے باقی ارکان نے اپنے ووٹ سکھوں کے ہاتھ فروخت کئے اور اکالی دل کے سکھ امیدوار کو اس ایوان میں اسپیکر منتخب کروا دیا جبکہ مسلم وووٹروں کی دو تہائی اکثریت موجود تھی مگر انہوںنے قائد اعظم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے ضمیر کے سودے کئے اور قائد اعظم کی تضحیک کا باعث بنے۔
قیام پاکستان کے بعد سیاست کی بساط پر تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔رات کو ایک پارٹی کی حکومت ہوتی، صبح اٹھتے تو کوئی شخص دوسری پارٹی کے نام سے بر سراقتدار آ جاتا۔ نہرو نے فقرہ کسا کہ وہ سال میں اتنے پاجامے نہیں بدلتے جتنی بارپاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں، یہ طوائف الملوکی کا دور تھا۔اس کے بعد فوجی جرنیلوںنے اقتدار پہ قبضہ جمایا تو اہل سیاست نے جمہوری نظام کو ٹھوکر مارتے ہوئے فو جی آمروں کا ساتھ نبھایا، ان میں بھٹو اور نواز شریف دونوں شامل تھے، بھٹو نے تو یہ تجویز بھی دی کی ایوب خان کی حکمران پارٹی کنونشن لیگ کے ضلعی صدر کے طور پر ہر ڈپٹی کمشنر کو نامزد کر دیا جائے۔ یحیٰی خان کے دور میں عام انتخابات ہوئے اور ان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی مگر بھٹو نے نعرہ لگا دیا کہ ادھر ہم ، ادھر تم اور عوامی ووٹ اور مینیڈیٹ کے مطابق اقتدارشیخ مجیب کو منقل نہ کیا گیا، الٹا اسے غدار قرار دے کر جیل میں بند کر دیا گیا۔
پاکستان میں عوامی مینڈیٹ اور عوام کے ووٹ کی اس تذلیل ا ور تضحیک کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا۔
جنرل ضیاءکے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو دو بڑی پارٹیاںمیدان میں تھیں، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری ن لیگ مگر دونوں نے عوامی ووٹ کو عزت نہ دی ا ور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیں جس کی وجہ سے دونوںنے اپنی آئینی ٹرم مکمل نہ کی اور ڈیڑھ دو برس کے بعد ان کی حکومتیں ٹوٹتی رہیں۔اور بنتی رہیں۔اور ٹوٹی رہیں۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء میں ن لیگ چھلانگ مار کر فوجی ڈکٹیٹر کی گود میں بیٹھ گئی اور جب نواز شریف کی واپسی ہوئی تو یہی لوٹے پھر ان کے ساتھ آن شامل ہوئے۔ان کو واپس قبول کرنے سے نہ تو نو از شریف نے گریز کیا، نہ شامل ہونے والوں کو کوئی حیا اور شرم محسوس ہوئی۔
اسی ملک میں ووٹوں کی خرد و فروخت کے لئے کھلی منڈیاں لگتی رہیں، کبھی ن لیگ والے اپنے ارکان کو ہانک کر چھانگا مانگا کے جنگلوں میں لے گئے، اور پیپلز پارٹی نے سوات کے روح افزا مقام مالم جبہ کا رخ کیا ، کبھی ووٹوں کی منڈی اسلام آباد کے ہوٹل میریٹ میں لگی۔ یہ سب کچھ قومی سیاست کے دامن پہ سیاہ دھبہ تھا ۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کو ووٹ کو عزت دلوانے کا خیال آ گیا ہے۔ وہ ہر جلسے ا ورجلوس میں گلا پھاڑ کر نعرہ لگواتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، ووٹ کو عزت دو اور انہی نعروں کے شور میں سینیٹ کا الیکشن ہوا جس میں ووٹ کی عزت کو اس قدر پامال کیا گیا کہ گلی محلے والے عام آدمی کا سر بھی شرم سے جھک گیا۔
گھوڑوں کی منڈی سے نہال ہو کر جو لوگ سینیٹ میںپہنچے ہیں، وہ اس وقت تک اپنا حلف اٹھا چکے ہیں ۔عقل حیران ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میںمعرض وجود میں آنے والی سینیٹ کی عزت کون کرے گا اور کیوں کرے گا۔
عام محاورہ ہے کہ عزت اس کو ملتی جو دوسروں کو عزت دے۔ مریم نواز ایک سانس میں نعرہ لگواتی ہیں کہ ووٹ کو عزت دو اور دوسرے سانس میں چیف منسٹر بلوچستان کو ملنے والے پانچ سوو وٹوں کا مذاق اڑاتی ہیں ، جو لیڈر کسی کے ووٹ کو عزت نہیں دیتا ، اسے اپنے ووٹ کے لئے عزت مانگنے کا کیا حق حاصل ہے،ایسی ہی صورت حال پر خواجہ آصف کا بقراطی مقولہ ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے اور کچھ حیا ہوتی ہے اور اہل سیالکوٹ نے خواجہ آصف کے منہ پہ سیاہی پھینک کر اپنا غصہ نکال لیا کہ آپ کسی کے ووٹ کی عزت نہیں کرتے تو ہم آپ کی عزت نہیں کرتے، ایساہی افسوس ناک سانحہ نواز شریف کے ساتھ جامعہ نعیمیہ میں پیش آیا۔ یہ درسگاہ کسی سیاست میں ملوث نہیں ہے اورا گر ہے بھی تو ن لیگ اور نواز شریف کی حلقہ بگوش ہے مگر یہاں کے طالب علموںنے نواز شریف کو جوتا مارنے کی کوشش کی، عمران خان جوتا کھانے سے بچ تو گئے مگر فیصل آباد جاتے ہوئے ان پر ایسی کوشش ضرور کی گئی۔
ظاہر یہ ہوتا ہے کہ عوام کے ایک طبقے کو سیاستدانوں کی منافقت اور ووٹوں کی خرد و فروخت کے عمل سے سخت نفرت پیدا ہو گئی ہے اور وہ اس کا اظہار کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کوئی شخص اس رویئے کی حمائت نہیںکر سکتا مگر کوئی شخص ہارس ٹریڈنگ اورووٹ خریدنے اور بیچنے والوں کی عزت بھی نہیں کرسکتا،،یہ تو جیساکرو گے ویسابھرو گے کا منظر سامنے آ گیا ہے۔
عزت ا س ووٹ کو ملے گی جس میں خرد و فروخت کا گندہ عمل اختیار نہ کیا گیا ہو، ہارس ٹریڈنگ سے ا ٓلودہ ووٹوں اور ان کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ تک کی عزت اس وقت تو عوام کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔
اس وقت دو نعرے گونج رہے ہیں۔
ایک: نوٹ دو، ووٹ لو
دوسرا :ووٹ کو، عزت دو
فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے اور یہ دیوار پہ لکھا صاف نظر آ رہا ہے۔