خبرنامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے….اسد اللہ غالب

میرے ساتھی کالم نگار اسلم خاں کی خواہش ہے کہ میں سجدہ سہو کر لوں ،مجھے اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی مگر اسلم خاں کو اپنے دعوے کا ڈیجیٹل ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ انہوںنے جو خط مجھے ارسال کیا ہے، میں تو صحافتی ضابطہ اخلاق کی رو سے اسے کالم کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں ہوں ،چہ جائیکہ میں اس پر سجدہ سہو کروں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پاک پتن میںبابا فرید شکر گنج کی درگاہ پر سجدہ نہیں کیا، وہ جوکہتے ہیں اس پر یقین کرنا پڑے گا۔ایک بار شہنشاہ جہانگیر کے درباریوںنے اسے اکسایاکہ مجدد الف ثانی ان کو پورا احترام نہیں دیتے۔ اس کا ٹیسٹ کرنے کے لئے انہیں دربار میں طلب کیا جائے اور دربار میں داخل ہونے کے لئے صرف چار فٹ اونچا دروازہ بنایا جائے، مجد د الف ثانی نہ بھی چاہیں تو انہیں شہنشاہ کے سامنے جھکنا پڑے گا، مگر مجدد الف ثانی دربار میں تشریف لائے، ساری سازش بھانپ گئے اور دروازے میں داخل ہونے کے لئے پہلے اپنے دونوں پائوں اندر داخل کئے ۔ اورشاعر کو خراج تحسین ادا کرنا پڑا کہ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے۔ میں اپنے مرشد مجید نظامی کو صحافت کا مجد د الف ثانی کہتا ہوں۔اور سمجھتا ہوں۔وہ کسی جابر سلطان کے سامنے جھکنے لئے تیار نہ تھے۔گورنر کالا باغ نے بھی انہیں پنجابی میں کہا تھا کہ جنا بن کے وکھائیں۔
عمران خان نے بابا فرید کی درگاہ پر بقول ان کے سجدہ نہیں کیا مگر ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔عمران خان نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں بے حد سرگرمی دکھائی اور وہ انہیں جتوانے کی اس مہم میں پیش پیش تھے۔ عمران خان نے پچھلے الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور مچایاا ور اس پر مہینوںتک دھرنا دیا۔کاش ! عمران خان اس وقت بھی دھرنا دیتے جب دو ہزار دو کے الیکشن کے لئے آئی ایس آئی کے جنرل احتشام ضمیر نے انہیں صرف دس سیٹوں کی پیش کش کی تھی۔یہ درست ہے کہ عمران نے جنرل احتشام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیٹیں الیکشن میں ملیں گی یا آپ نے الاٹ کرنی ہیں ۔میں اس اصول کو تسلیم نہیں کرتا مگر کیا ہی بہتر ہوتا کہ عمران خان جنرل مشرف کے خلاف بھی دھرنا دیتے، وہ تاریخ میں امر ہو جاتے۔
عمران خان کی پارٹی کی چوکھٹ پر پچھلے دنوں بے شمار لوٹے سجدہ ریز ہوئے۔ یہ سیاسی سجدے تھے۔ ساری سیاسی پارٹیاں اس نوع کے سجدوں کے حق میں ہیں۔ابھی تو بیسیوں آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں ، الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد وہ کس اکثریتی پارٹی کی چوکھٹ پر سجدے میں گرتے ہیں، یہ وقت ہی بتائے گا مگر اس سجدے کے بغیر ان کی سیاسی بقا ممکن نہیں۔
سیاسی سجدے کروانے کا شوق انگریز سرکار کو لاحق تھا۔ اس نے جاگیرداروں کا ایک ٹولہ پیدا کیا ، خان بہادر، سردار اور سر پیدا کئے، ان لوگوںنے نہ صرف انگریز سرکار کے سامنے سجدے کئے، بلکہ اس کے کتے بھی فخریہ نہلاتے رہے اور پنجاب کی پٹھو سرکار یونینسٹ کے دربار میں بھی سجدہ ریز رہے۔ اس کی وجہ سے قیام پاکستان میں تاخیر ہوتی چلی گئی اس کے لئے قائد اعظم اور مسلم لیگ کے اکابرین نے انیس سو چالیس میں قرارداد لاہور منظور کی تھی لیکن جاگیر داروں ، نوابوںاور خان بہادروں نے قائد اعظم کے قدم پنجاب میں نہ ٹکنے دیئے، یہ صوبہ تحریک پاکستان کو مہمیز لگانے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔
لوٹا گردی سیاسی سجدہ ریزی کی ایک شکل ہے۔ اس کے جد امجد مظہر علی اظہر تھے جنہوںنے بار بار لوٹاگردی کی اور انہیں ادھر علی ادھر کہا جانے لگا۔پاکستان بنا تو لوٹا گردی کی عادت بھی پروان چڑھی۔ راتوں رات لوگ وفادریاں بدلتے رہے۔ فوجی ڈکٹیٹر آئے تو لوٹا گردی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل ایوب،جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی بارگاہ میں سیاسی لوٹے سجدوں میں گرتے رہے اور ملک میں جمہوری نظام کا ستیا ناس کر دیا۔اٹھاسی کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو بھی لوٹا گردی کا خاتمہ نہ ہوا،۔ کبھی ارکان سمبلی ، چھانگا مانگا کے جنگل میں سجدہ ریز ہوئے، کسی نے میریٹ ہوٹل میں اپنی جبینیں جھکا دیں اور کوئی مالم جبہ جا کر سیاسی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوا۔
ملک میں ایک ماہ سے نگران حکومتیں قائم ہیں مگر پیر کے روز بارش ہوئی تو تمام کیمروں کے سامنے پاکستان کے پیرس کا مضحکہ اڑایا اور اس تباہی کے لئے نواز شریف اور خاص طور پر شہبازشریف کو مورد الزام ٹھہرایا۔ جی پی او چوک کے گڑھے کی ذمے داری تو شہباز شریف پر عائد کی جا سکتی ہے مگر باقی تباہی پر قابو پانا نگران حکومت کی ذمے داری تھی۔ لاہور میں جو بارش ہوئی اس نے اڑتیس سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ نوشہرہ میں بھی موسلا دھار بارشیں ہو جائیں تو اسے سیلاب سے نہیں بچا سکتیں، صرف کالا باغ ڈیم ہی بچا سکتا ہے جس کی تعمیر کے خلاف ملک کے تین صوبے ہیں ، صرف مسلم لیگ (ن) اس کے حق میں ہے۔ یا موجودہ چیف جسٹس اس کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،۔ لاہور اور ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے، کہیں بجلی گرتی ہے، کہیں بم پھٹتا ہے، یا بجلی گھنٹوں غائب رہتی ہے توا س کے لئے سابقہ حکومت کے خلاف پرپیگنڈہ کیوں۔ صرف اس لئے کہ ا سے الیکشن سے پہلے بدنام کرنا ہے۔ یہ پری الیکشن رگنگ ہے اور کسی دوسرے کے فائدے میں ہے،یہ دوسرے کون ہیں اور ان کی چوکھٹ پر کون سجدہ ریز ہے۔ اس کی تفصیل محتاج وضاحت نہیں ، بچے بچے کو یہ دھاندلی نظرا ٓ رہی ہے، یہی میڈیا پچھلے دس برسوں میں ادھر ہی تھا لیکن اس کی اکثریت نے سابقہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی ا نتہا کر دی اور جیسے ہی حکومت بدلی تو وفاداریاں تبدیل کر لیں، اگر ہمارے میڈیا کایہ حال ہے تو عوام اور ان کے نمائندے کیا کچھ نہیں کر گزریں گے۔ ان سے وفا کی امید کیسے لگائی جا سکتی ہے۔
میںنے گوگل پر Rain water on Paris Roads لکھا ہے تو ہزاروں ایسی تصویریں نکل آئی ہیں جن میں شانزے لیزے پر پانی ہی پانی ہے۔ ایفل ٹاور کے ارد گرد پانی ہی پانی ہے۔ گلی محلے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کاروں کے شیشوں تک پانی ہے۔ شہر میں لوگوں کو ریسکیو کے لئے کشتیاں چل رہی ہیں اور دریائے سین کناروں سے اچھل رہا ہے۔ مجھے شہباز شریف کی مدح مقصود نہیں مگر جو لوگ اسے لاہور کو پیرس بنانے کے طعنے دے رہے ہیں، انہیں آئینہ تو دکھانا چاہئے۔ اور ابھی تیار رہیں اگر بارشیں اسی طرح ہوتی رہیں تو میں نے بہت پہلے یہ سوال کیا تھا کہ کیا الیکشن سیلابی ریلے میں بہہ جائے گا، یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن سیاسی سیلاب کی شکل اختیار کر لے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں کچھ بھی ممکن ہے۔اور سیاسی چوکھٹوں پر سجدے کچھ تو رنگ لا کر ہی رہیں گے۔