خبرنامہ

ویز افری ہندوستان

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ویز افری ہندوستان

چودہ اگست سن سینتالیس سے پہلے ہندوستان و یز افری ملک تھا، آج چھیاسٹھ سال بعد نواز شریف نے ارادہ کیا ہے کہ وہ ایک بار پھر ہندوستان کو ویزا فری ملک بنادیں گے۔
کچھ لوگوں نے اس بیان پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ تو سرحدیں ختم کرنے والی بات ہوئی۔ یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ یورپ میں کئی ممالک کے مابین کوئی ویز انہیں، ان کے لوگ بغیر کسی ویزے کے آر پار جا سکتے ہیں، وہاں سرحد یں معدوم ہوگئی ہیں، صرف ان کے نشانات کی برجیاں باقی ہیں۔ کوئی عالمی سیاح ان ملکوں میں سے کسی ایک ملک کا ویزا لے لے تو اسے بھی ان تمام یورپی ممالک میں گھومنے پھرنے کی آزادی میسرہے۔
ہمارے وزیراعظم کوشش کرتے رہیں تو شاید ایک دن آئے کہ ہم دنیا کے ہر ملک میں ویزا فری سفرکر سکیں، ایک زمانہ تھا کہ پاکستانیوں کوکئی ممالک کا ویزا لینے کی ضرورت نہیں تھی کسی بھی ملک میں داخلے کے وقت ہی ویز اسٹیمپ کر دیا جاتا تھا۔ مگر آج کسی بھی ملک کا ویز الینا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اب تو سعودیہ نے بھی ویزے کے اجرا کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح کا پیچیدہ طریق کار اختیار کر لیا ہے۔
لیکن پاکستان ایک بڑے دل گردے کا مالک ہے۔ اس نے تیس لاکھ افغانیوں کو اپنے ہاں تیس برس سے پناہ دے رکھی ہے، عام قبائلی باشندے بغیر ویزے کے افغانستان اور پاکستان میں آتے جاتے ہیں، ہزاروں ازبک، چیچن، مصری، سعودی،یمنی، شامی، لبنانی، برمی، ایرانی، سری لنکن باشندے بھی کسی ویزے کے بغیر پاکستان آتے جاتے ہیں، یہاں برسوں سے قیام پذیر ہیں، کاروبار کرتے ہیں، شادیاں رچاتے ہیں، ان میں سے کسی پر بارود لے کر پھرنے کے شبے میں رینجرز یا ایف سی والے اخروٹ آبا دی کراچی میں گولی چلا دیں تو اس پر ہمارا میڈیا رینجرز یا ایف سی والوں کو چٹھی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے۔ کوئی کسر رہ جائے تو ہماری عدلیہ انصاف مہیا کر دیتی ہے۔ پاکستان اس قدر ویزا فری ملک ہے کہ اسامہ بن لادن بغیر کسی روک ٹوک کے افغانستان سے پاکستان آیا، ایبٹ آباد میں ایک بہت بڑے گھر میں مقیم رہا، وہ امریکہ کو مطلوب تھا مگر ہمیں اس کے قیام پر کوئی اعتراض نہ ہوا، اسے پکڑنے کے لیئے امریکی فوج ایبٹ آباد میں بغیر ویزوں کے اتری اور آپریشن کر کے شاداں و فرحاں واپس چلی گئی، سلالہ میں بھی امریکی فوج نے ویزے لینے کا تر ددنہ کیا اور ہماری افواج کو نشانہ بنا کر واپس چلی گئی، امریکی ڈرون طیارے ہماری سرحد میں داخل ہونے کے لیئے کسی سے کوئی اجازت نہیں مانگتے قبائلی علاقوں پر وار کریں یا پاکستان کے بندوبستی علاقوں پر انہیں کھلی آزادی میسر ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ بھارت سے ویزا فری سٹم رائج ہوجائے گا تو ان کی چند ڈویژن فوج پاکستان میں آن دھمکے یا ان کے ایٹمی اسلحے سے لیس طیارے ہمارے کسی شہر میں سرجیکل اسٹرائیک کردیں تو کیا فرق پڑتا ہے، امریکی فوج کی طرح بھارتی فوج بھی ویز افری سسٹم سے فائدہ اٹھالے تو پاکستان کے عام آدمی اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں اور پارلیمنٹ کو اس پر جز بز ہونے کی کیا ضرورت۔ پریشانی تو تب ہے جب ہم ان کے راستے میں رکاوٹ بنیں، یا ان کی مزاحمت کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے امریکہ کی فوج کا راستہ نہیں روکا تو بھارت کی فوج کا رستہ کیوں روکیں گے۔
نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کو ویزا کی پابندیوں سے آزاد بنانے کا عزم کیا ہے تو دعا کریں کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں، ان کے ان نیک اردوں کی تکمیل کے لیئے اکیلے امن کی آشا والے کامیاب نہیں ہو پائے تھے تواب عطاالحق قاسمی نے ادبی میزائل لانچ کر دیا، ادب کی تو ویسے بھی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ کچھ اور لوگ بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنا چاہیں تو بھارتی را بھی ان کی دامے درمے سخنے مدد کے لیے تیار ہو گی، کیری لوگر بل کا وافرحصہ بھی ان کے بنک بینس میں رونق افروز ہوگا اور حکومت پاکستان بھی بجلی کے بلوں سے ہونے والی فالتو آمدنی میں سے حقیر حصہ ڈال کر ثواب دارین کمائے گی۔
مگروہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے نواز شریف ایک ایسے ملک کے ساتھ دوستی کی پینگ بڑھانا چاہتے ہیں جس نے دوستی کی الف ب پ تک نہیں پڑھی۔ اس سبق پرکروڑوں ڈالر خرچ اٹھتا ہے اور امریکہ کی غلطی یہ ہے کہ اس نے یہ کروڑوں ڈالر صرف پاکستانیوں کو الف بے پے پڑھانے پہ صرف کیئے، بھارت کوٹکا تک نہیں دیا۔ تالی بجانے کے لیئے دو ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے، ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔ امریکہ ٹر یک ون،ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر پیسے تو خرچ کر رہا ہے مگر اس نے بھارت کی این جی اوز اور میڈیا کو اس طرح نہیں نواز ا جیسے اس نے پاکستان کی این جی اوز اور میڈیاپر ڈالروں کی بارش کی ہے۔ ہمارے اینکروں کے بنک اکاؤنٹ میں کروڑوں کے اضافے کی خبریں آرہی ہیں، کیا بھارتی اینکروں کو بھی سونے سے تولنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر نہیں تو پھر میاں نواز شریف نے بے وقت کی راگنی کیوں چھیڑ دی ہے۔
میاں نواز شریف کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ انہیں ایک ایسے موذی سے پالا پڑا ہے جو منہ سے تو رام رام کی مالا جپتا ہے مگر موقع ملنے پربغل سے چھری نکال کر ہماری پیٹھ میں گھونپ دیتا ہے۔ اس نے امن اور دوستی کے رشتوں کے سامنے پورے بارڈر پر خاردار باڑ کھڑی کر دی ہے، اور یہ صرف پاکستان کے بارڈر پرنہیں، چین، بنگلہ دیش اور برما کے بارڈر پر بھی نصب ہے۔ کالم میں تصویریں شائع نہیں ہوسکتیں ورنہ میں آپ کو بھارت کے سارے بارڈروں پرنصب خار دار تار کے مناظر دکھاتا۔ بھارت کو صرف پاکستان ہی سے چڑنہیں،اپنے تمام ہمسایوں سے ہے۔ وہ کسی ایک پر بھی اعتماد کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ ہاں اسے صرف سکم اور بھوٹان پر اعتماد ہے کیونکہ وہ اپنے وجود کو بھارت کے جغرافیے میں ضم کر چکے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، برما | اور چین بھی اپنے آپ کو بھارت کی ذیلی، سیٹیلائٹ ریاستیں بناسکیں تو شاید بھارت اپنی نفرت اور دشمنی کی علامت یہ دیواریں خطے سے گرانے پر تیار ہوجائے۔ اور یوں وہ مہا بھارت کے خواب کی تعبیر بھی پاسکتا ہے۔ مہا بھارت کے مقابلے میں اکھنڈ بھارت کا خواب تو بہت معمولی ہے۔ میاں نواز شریف دل چھوٹا نہ کریں، اور بھارت بھی اسی طرح صبر کا مظاہرہ کرے جیسے چین نے ہانگ کانگ کے لیے پچاس برس تک انتظار کیا اور وہ پکے ہوئے پھول کی طرح اس کی جھولی میں آن گرا، اب چین اگلے پچاس برس تک تائیوان کے لیئے انتظار کرے گا۔ بھارت بھی ایسا ہی انتظار کر سکے تو اسے میاں نواز شریف کے عزائم کی ناکامی پر افسردہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ میاں صاحب کے بعد محترمہ مریم نواز شریف اور برخوردار حمزہ شہباز شریف میدان میں اتریں گے، عطا الحق قاسمی کے بعد یاسر پیرزادہ کواللہ لمبی زندگی عطا کرے کوئی تو ویز افری انڈیا کے خواب کی تکمیل کر پائے گا۔ دنیا بہ امید قائم است. (25 نومبر 2013ء)