خبرنامہ

ٹرمپ کا عالمی امن پر اوچھا وار….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ٹرمپ کا عالمی امن پر اوچھا وار….اسداللہ غالب
صدر بش نے دو ہزار دو میں نئی صلیبی جنگ کا بگل بجایا تھا اور پندرہ برس بعد صدر ٹرمپ نے اس جنگ پر پٹرول چھڑک دیا ہے ، خدشہ یہ ہے کہ اس سے صرف عالم اسلام ہی میں رد عمل پیدا نہیں ہو گا بلکہ عالمی سطح پر ایک بھونچال کی کیفیت دیکھنے میں آئے گی۔ٹرمپ نے القدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے ا ور امریکی سفارت خانے کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ بھی القدس منتقل ہو جائے۔اس طرح عملی طور پر صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے مذموم عزائم کی پیٹھ ٹھونکی ہے ۔
القدس صرف مسلمانوںکے لئے ہی متبرک حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے بھی مساوی طور پر تقدس کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے دانش مندی یہ تھی کہ اسے کسی مذہبی گروپ کے تصرف میں نہ دیا جاتا ۔ اور اس کی حیثیت جوں کی توں برقرار رکھی جاتی جہاں تینوںمذاہب کے ماننے والوں کو آزادانہ آمد ورفت کی اجازت تھی۔ مسلمانوں کے لئے تو یہ قبلہ اول ہے۔ اور معراج کی شب حضور پر نورﷺ نے یہاں تمام انبیاءکی امامت کروائی تھی۔ القدس پر کنٹرول کے لئے کئی جنگیں ہو چکی ہیں جنہیں تاریخ صلیبی جنگوںکے نام سے یاد کرتی ہے،تا ہم سلطان صلاح الدین ایوبی نے آخری صلیبی جنگ میں اسے فتح کر لیا تھا اور یوں صلیبی جنگوں کے ایک دور کا اختتام ہو گیا تھا مگرنائن الیون کے بعدسے امریکہ نے نئی صلیبی جنگ کا بگل بجایا ہے اور یہودی تواعلان بالفور کے دن سے القدس پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ، اعلان بالفور نے یہودیوں کو فلسطین کی آزاد ریاست میں آباد ہونے کا راستہ کھولا تھا، عرب اسرائیل جنگوںنے اسرائیل کو آزاد فلسطین اور ملحقہ عرب علاقوںپر قبضے کا موقع فراہم کیا ، اب تو اصل فلسطین سکڑ کر دو یونین کونسلوں کی حد تک سمٹ چکا ہے ا ور ان کے درمیان بھی اسرائیل نے ایک دیوار تعمیر کر رکھی ہے جہاں کڑی پڑتال کے بعد فلسطینیوں کو دونوں حصوں میں آنے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسرائیل جب چاہے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیتا ہے ا ورا سکی جارح افواج نہتے فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔یہ قیامت آئے روز رونما ہوتی ہے۔
عربوں ، مسلمانوں اور بعض یورپی ملکوںنے ٹرمپ کے فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے سامنے کھڑا کون ہوتاہے۔، باور کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب عالم عرب اور عالم اسلام شدید انتشار کاشکار ہے اور بعض کٹڑ عرب ملک بھی در پردہ اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کی ایران سے مخاصمت ہے، یہ مسلمانوں کی سخت بد نصیبی ہے، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
کیا عالم ا سلام اس پوزیشن میں ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی مجموعی طاقت کا مقابلہ کر سکے، حساب لگایا جائے تو جواب نفی میں آتا ہے، پورے عالم اسلام میں پاکستان ہی واحد ایٹمی طاقت ہے مگر اس نے یمن، کویت اور شام کے جھگڑوںمیں اپنی افواج بھیجنے سے گریز کیا ہے تو اس سے کیا توقع کی جائے کہ یہ اسرائیل کے مقابل کسی بھی عرب طاقت کاساتھ دے سکے گا۔ یحییٰ خان جسے ہم ایک اوباش فوجی حکمران خیال کرتے ہیں مگر جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی اورا س پر مراکش میں اسلامی کانفرنس کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا اور اس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے بھارتی وزیر خارجہ کو بھی مدعوکر لیا گیا تھا تو یہی ا وباش یحییٰ خان باغیرت اور باحمیت ثابت ہوا تھا،ا س نے بھارتی وزیر خارجہ کی آمد پر شدید احتجاج کیا اور جب دیکھا کہ عرب ممالک اس کے احتجاج پر کان نہیں دھر رہے تو اس نے پاکستانی وفد کوسامان پیک کر کے واپسی کا حکم دے دیا،حتیٰ کہ جہاز کے انجن بھی اسٹارٹ کر دیئے گئے تھے، اس پر عرب ملکوں کواحساس ہوا کہ پاکستان واقعی سنجیدہ ہے اور انہوںنے بھارتی سکھ مندوب کو بیک بینی و دو گوش اجلاس سے واپس بھجوا دیا ۔
آج کوئی مسلمان حکمران اس قدر حمیت دکھا سکتا ہے جواب ہے نہیں، حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے، عالم اسلام کا گھروندا منتشر ہو چکا، عربی اور عجمی اور عربی اور عربی کی تقسیم نے اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہے۔یمن میں سعودی عرب کا تشکیل کردہ تین درجن اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد ایران کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے ا ورا س کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں، شام میں سعودی عرب اور ترکی ،شامی حکومت اور ا سکی حامی ایرانی فوج سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی جھڑپیں بھی ایرانی سرحد پر شروع ہیں اور افغانستان کے ساتھ تو ازل سے ایک پرخاش چلی آ رہی ہے، پاکستان ایک ایٹمی فوجی طاقت ہے مگر اسے دہشت گردی کی جنگ میں بری طرح الجھا دیا گیا ہے ا ور یہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کی عملی تصویر بنی نظر آتی ہے، کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ ہماری افواج کو گالیاں دینے والے ا ور پو لیس کی قتل و غارت کرنے والے ایک گروپ کی چمڑی بچانے میں مصروف ہیں جبکہ ہماری عدالتیں اس طرح کے معاہدوںکو غیر آئینی اور سرنڈر کے مترادف قرار دے چکی ہیں، مصر میں ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل السیسی کی قیادت میں فوج نے اقتدار سنبھال رکھا ہے اور عوام کے انقلابی اورمنتخب قائد مرسی کو حوالہ زنداں کر رکھا ہے، افریقہ تک میںجھانک لیجئے، ہر جگہ خانہ جنگی نظر آئے گی، انتشار نظرا ٓئے گا، آمرانہ اقتدار نظر نہیں آئے گا جس کی وجہ سے مسلم امہ کے اتحاد کا خوب ایک ڈراﺅنا خواب بن چکا ہے۔ او آئی سی نام کو ہے اس کا عملی ، حقیقی، وجود کہیں نظر نہیں آرہا۔ ایران، ترکی اور پاکستان کے مابین ایک اتحاد قائم کیا گیا تھا یہ فائلوں کی گرد میں دب چکا ہے۔ خلیج تعاون کونسل عدم تعاون کے راستے پر گامزن ہے، عرب لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو پھر ٹرمپ اور اسرائیل کے مقابلے میں عام مسلمان دل ہی دل میں تڑپ سکتے ہیں مگر وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے، اسی صورت حال کے پیش نظر ٹرمپ نے ترپ کا پتہ پھینکا ہے۔
شاعر نے کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ، مگر یہ نمی کہاں سے آئے، مسلمانوں کی آنکھیںبھی رو رو کے خشک ہو چکی ہیں!